قوالی کی شرعی حیثیت
آج کل بزگانِ دین کے مزار ات پر ان کے عرس کا نام لے کر خوب موج مستیاں ہو رہی ہیں ۔ بد معاش ، بد کردار لوگ اپنی رنگیلیوں ، باجوں تماشوں ، عورتوں کی چھیڑ چھاڑ کے مزے اٹھانے کے لئے اللہ والوں کے مزاروں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ کاش !یہ لوگ موج مستیاں ، ڈھول باجے ، مزامیر کے ساتھ قوالیاں مزارات سے الگ کرتے اور عرس کا نام نہ لیتے تو کم از کم اسلام اور اسلام کے بزرگ بدنام نہ ہوتے ۔ آج کفار مشرکین یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ناچ گانوں ، تماشوں ، باجوں اور بے پردہ عورتوں کو اسٹیجوں پر لا کر بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والا مذہب ہے ۔افسوس انھوں نے غلط سمجھا ۔اسلام ہرگز ہرگز ایسا دین نہیں ہے اسلام کا حکم تو یہ ہے کہ ڈھول ، باجے ،سارنگی ، مزامیر وغیرہ آلاتِ موسیقی ، تالیاں ، رقص ، سب حرام ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں :قوالی مع مزامیر چشتیہ سلسلے میں رائج اور جائز ہے ۔ یہ بزرگانِ چشتیہ پر ان کا صریح بہتان ہے بلکہ ان لوگوں نے بھی مزامیر کے ساتھ قوالی سننے کو حرام فرمایا ہے ۔حضرت خواجہ محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءدہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے خاص خلیفہ حضرتِ فخر الدین زرّادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مسئلہ سماع کے متعلق ایک رسالہ لکھوایا جس کا نام ہے : کشف القناع عن اصول السماع ۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ہمار بزرگوں کا سماع مزامیر کے بہتان سے بری ہیں ۔ ( ان کا سماع تو یہ ہے کہ ) صرف قوال کی آواز ان اشعار کے ساتھ ہو جو کمال صنعت الٰہی کی خبر دیتے ہیں قطب الاقتاب حضرت بابا فرید الدین شکر گنج کے مرید اور حضرتِ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ حضرتِ محمد بن مبارک علوی کرمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب ،، سیر الاولیاء،، میں تحریر فرماتے ہیں حضرت خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نےچند شرائط کے ساتھ سماع جائز فرمایا (۱)سنانے والا مرد کامل ہو چھوٹا لڑکا یا عورت نہ ہو ۔(۲) سننے والا یاد خدا سے غافل نہ ہو ۔ (۳) جو کلام پڑھا جائے ، فحش ، بے حیا اور مزاحیہ نہ ہو ۔(۴)آلہ سماع یعنی سارنگی ، مزامیر و رباب سے پاک وہو ،،ان باتوں کے ہوتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ خاندانِ چشتیہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی جائز ہے۔ ہاں !یہ بات وہی لوگ کہیں گے جو نہ چشتی ہیں ، نہ قادری انھیں تو مزے داریا ں اور لطف اندوزیاں چاہئیں ۔ اور اب جب کہ سارے کے سارے قوال بے نمازی اور فاسق و فاجر ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض شرابی تک سننے میں آئے ہیں نیز عورتیں اور امرد لڑکے بھی چل پڑے ہیں ایسے ماحول میں ان قوالیوں کو صرف وہی جائز کہے گا جس کو اسلام و قرآن ، دین و ایمان سے کوئی محبت نہیں ۔ بے حیائی اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئ ہے اور قرآن و حدیث کے فرامین کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے کیا اسی کا نام اسلام پسندی ہےکہ مسلمان عورتوں کو لاکھوں کے مجمع میں لا کر ان سے ڈانس کروائے جائیں ، پھر ان تماشوں کا نام عرس رکھا جائے یہ صرف اور صرف کافروں کے سامنے مسلمانوں اور مذہب کو ذلیل و بدنام کرنے کی سازش ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قوالی اہل کے لئے جائز ہے اور نا اہل کے لئے نا جائز ہے ۔ ایسا کہنے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ آج کل قوالیوں کے سینکڑوں ، ہزاروں کے مجمع میں کیا سب کے سب اہل اللہ اور اصحاب استغراق ہیں ، جنھیں دنیا اور متاع ِ دنیا کا قطعا ہوش نہیں ؟ جنھیں یاد خدا اور ذکر الٰہی سے ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں ؟ خزانے کی نیندوں اور گپوں میں نمازوں کو گنوا دینے والے ، رات دن ننگی فلموں ، گندے گانوں میں مست رہنے والے ، ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور ان کو ستانے والے ، چور چکور، جھوٹے ،فریبی، گرہ کاٹ وغیرہ ؛ کیا یہ سب کے سب تھوڑی دیر کے لئے قوالیوں کی مجلس میں شریک ہو کر اللہ والے ہو جاتے ہیں یا پیر صاحب نے اہل کا بہانہ تلاش کر کے اپنی موج مستیوں کا سامان کر رکھا ہے ؟ کہ پیری بھی ہاتھ سے نہ جائے اور دنیا کی موج مستیوں میں بھی کوئی کمی نہ آئے
Nice post mera whats ap nombr hy
ReplyDelete00961 76 390 670