داڑھی منڈانے کی خرابیاں ****
داڑھی منڈانا باعث لعنت ہے ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:
سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ.............وَالتَّارِك لِسُنَّتِي۔
’’چھ آدمیوں پر میں بھی لعنت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی (ان میں سے ایک ہے) میری سنت کو چھوڑ دینے والا۔‘‘
(جامع ترمذی:۲۱۵۴،وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان (۵۷۴۹) اور امام حاکم (۲؍۵۲۵) رحمہما اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کے راوی عبد الرحمٰن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثقة مشهور۔ ’’یہ مشہور ثقہ راوی ہے۔‘‘ (المغنی ۲؍۴۱۴)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:من ثقات المدنيين۔ ’’یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۱۸۳)
اس کا دوسرا راوی عبید اللہ بن عبد الرحمٰن بن موہب ’’ مختلف فیہ‘‘ ہے،راجح قول کے مطابق وہ جمہور کے نزدیک’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔
یاد رہےکہ یہاں سنت سے مراد فرضی اور واجبی سنتیں مثلاً نماز ،روزہ،حج،زکوٰۃ،شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا،داڑھی رکھنا وغیرہ ہیں۔
اب جو بھی شخص منڈائے گا ،وہ اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا۔
۲۔داڑھی منڈانا عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا موجبِ لعنت ہے ،جیسا کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ
’’رسول کریم ﷺ نے عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۸۸۵)
۳۔داڑھی منڈانا ہندوؤں،یہودیوں،عیسائیوں،م جوسیوں اور مشرکوں کے ساتھ مشابہت ہے،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ (روزِ قیامت) انہی میں سے ہو گا۔‘‘
(سنن ابی داؤد:۴۰۳۱،مسند الامام احمد:۲؍۵۰،مصنف ابن ابی شیبہ:۵؍۳۱۳،شعب الایمان للبیہقی:۱۱۹۹،وسندہ حسن)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر اعلام النبلاء:۱۵؍۵۰۹) نے اس کی سند کو ’’صالح‘‘،حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (اقتضاء الصراط المستقیم:۱؍۲۴۰)نے ’’جید‘‘ اور حافظ عراقی رحمہ اللہ (تضریج احادیث الاحیاء۱؍۲۶۹) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
داڑھی منڈانا جب کافر اور باغی قوموں کا شعار ہےاور کفر کی رسم ہے تو کفار کے شعار اور ان کی رسومات کو اختیار کرنا کیونکر صحیح و درست ہو گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلاَثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةَ الجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین آدمی تین ہیں: (۱) حرم میں کج روی کرنے والا۔(۲) اسلام میں کفر کی رسم تلاش کرنے والا اور (۳) کسی آدمی کا ناحق خون بہانے کا متلاشی۔‘‘ (صحیح بخاری:۶۸۸۲)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خط میں لکھا تھا : واياكم والتنعم وزي العجم
عیش پرستی اور عجمیوں کی وضع قطع اختیار کرنے سے بچو!‘‘(مسند علی بن الجعد :۹۹۵،وسندہ صحیح)
۴۔داڑھی منڈانا تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت اور نافرمانی ہے ،ارشاد بای تعالیٰ ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ(النور:63)
’’جو لوگ اس(پیغمبر ) کے امر کی مخالفت کرتے ہیں،انہیں ڈرنا چاہیئے کہ ان کو کوئی آزمائش یا دردناک عذاب نہ آلے۔‘‘
نبیﷺ کا ارشاد ہے :وَجُعِلَ الذِّلَّةُ، وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي
’’میرے حکم کی مخالفت کرنے والے پر ذلت ورسوائی مسلط کر دی جاتی ہے۔‘‘(مسند الامام احمد:۲؍۵۰،وسندہ حسن کما مر)
۵۔داڑھی منڈانا تمام صحابہ،تابعین،ائمہ دین اور اولیاء اللہ کی مخالفت ہے، ارشاد الٰہی ہے:
وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَتْ مَصِيراً۔ (النساء:115)
’’اور جو شخص (راہِ) ہدایت واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلتا ہے ،ہم اسے پھیر دیتے ہیں جس طرف وہ پھرتا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور بری ہے یہ جگہ ٹھکانے کے اعتبار سے۔‘‘
۶۔داڑھی منڈانے والا نبیﷺ کی کئی سنتوں ،مثلاً وضو کرتے وقت خلال کرنے ،داڑھی کو تیل لگانے ،داڑھی کو کنگھی کرنےاور داڑھی کو رنگنےوغیرہ سے محروم ہو جاتا ہے۔
۷۔داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور داڑھی منڈا کر لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے۔
۸۔داڑھی منڈانا ممنوع و حرام ہے اور فسق و فجور ہے ،فسق و فجور کا اظہار گناہ ہے۔
۹۔اس حرام کام کے لیے حجام کو اجرت دی جاتی ہے اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا جاتا ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ (المائده:2)
’’ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو،گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں پر تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
۱۰۔داڑھی منڈانے پر پیسہ خرچ کرنا باطل اور معصیت میں خرچ کرنا ہے جو کہ فضول خرچی ہے ،اس سے انسان شیطان کا بھائی بن جاتا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً۔(بني اسرائيل:27)
’’فضول خرچی مت کرو،بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔‘‘
۱۔یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔
۱۲۔حجام کو داڑھی مونڈنے کا حکم دے کر برائی کا حکم دیا جاتا ہے۔
۱۳۔داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔داڑھی منڈانے والا آیتِ کریمہ(فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ)کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔
۱۴۔داڑھی منڈا کر زبانِ حال سے تخلیقِ الٰہی پر اعتراض کرتا ہے۔
۱۵۔داڑھی منڈانے والا آئینہ دیکھتا ہے تو قبیحِ شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے اور یہ گناہ ہے۔
۱۶۔اکثر داڑھی منڈانے والے وقار و تہذیب سے عاری ہوتے ہیں۔
۱۷۔داڑھی منڈانے والا زبانِ حال سے یہ باور کراتا ہے کہ معاذ اللہ نبئ کریم ﷺ خوبصورت نہ تھے ،کیونکہ آپ کے چہرہ انور پر داڑھی موجود تھی۔
۱۸۔اکثر داڑھی منڈانے والے داڑھی والوں کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
۱۹۔بسا اوقات داڑھی منڈانے والے داڑھی والے کو بکرا،چھیلااور سِکھ تک کہ دیتے ہیں،یہ سنت ِ رسول کا استہزاء ہے جو کہ واضح کفر ہے۔
۲۰۔غیر مسلم قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں۔
۲۱۔داڑھی منڈانے والا اذان اور اقامت نہیں کہ سکتا کیونکہ اس کا فسق اعلانیہ ہے،یہ سعادت اور اجروثواب سے محرومی ہے۔
۲۲۔داڑھی مندانے والا امامت کا اہل نہیں ،کیونکہ وہ واضح فسق ہے۔
۲۳۔داڑھی مندانے والا ہیجڑوں جیسی شکل بنا کر اسلامی معاشرے کی عزت و وقار کو مجروح کرتا ہے۔
۲۴۔داڑھی منڈانا مثلہ (شکل و صورت کا بِگاڑ) ہے اور مثلہ ممنوع و حرام ہے۔
سیدنا عبداللہ بن یزید الانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النُّهْبَى وَالمُثْلَةِ
’’نبئ کریمﷺنے ڈاکہ ڈالنے اور مثلہ کرنے سے منع فر ما دیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۵۱۶)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: واتفقوا ان حلق جميع اللحية مثلة،لا تجوز.
’’امت کے علماءکرام کا اجماع و اتفاق ہےکہ داڑھی منڈانا مثلہ ہے (شکل و صورت کا بگاڑ ہے)اور یہ جائز نہیں ہے۔(مراتب الاجماع:ص۱۵۷)
۲۵۔داڑھی منڈانے والے کی اولاد اس گناہ کو گناہ نہیں سمجھتی،بلکہ اس میں ملوّث ہو جاتی ہے۔
۲۶۔داڑھی منڈانا سنتِ رسول ﷺ سے بے رغبتی ہے ،جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:من رغب عن سنتي فليس مني۔ ’’جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی ،وہ میرے طریقے پر نہیں ہے۔‘‘
(صحیح ابن خزیمہ:۱۹۷،وسندہ صحیح)
(ماهنامه السنة جهلم ،شماره نمبر:6
حاضر ناظر
ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ذات جس کو حاضر ناظر مانا جائےوہ ہر جگہ موجود ہے ۔اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگر زید تین منزلہ گھر میں رہتا ہے اب اگر زید کا دوست دروازے پر آ کر پوچھتا ہے کہ کیا زید گھر پر ہے ؟تو یہ کہا جاتا ہے کہ ،،ہے ،،اب اگر ہے تو اس کا مطلب کیایہ ہوتا ہے وہ ایک ہی وقت میں تینوں منزلوں میں ہوتا ہے اور common room،واش روم وغیرہ سب ہی میں ہو گا ۔کیا تبھی مانا جائے گا کہ زید گھر میں ہے ۔یقینا نہیں ۔اگر زید لان میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے تو بھی کہا جائے گا کہ زید ہے اگر بیڈ روم میں آرام کر رہا ہے تو بھی کہا جائے گا کہ ،،ہے،، زید کے حاضر ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ زید گھر کے ہر ہر حصّہ میں موجود ہو بلکہ اگر گھر کے کسی بھی حصّہ میں ہے تو حاضر ہی مانا جائے گا ۔تو بلا تشبیہ و مثال روحِ کائنات ، جانِ کائنات اللھ کے محبوب ﷺکائنات میں موجود ہیں ۔اب یہ ضروری نہیں کہ آپ پورے عالم کی ہرہر جگہ پر جسمِ مبارک کے ساےھ حاضرہوں بلکہ کائنات ِ عالم میں موجود ہونے کی حقیقت سے آپ حاضر ہیں بلکہ اللہ کے محبوب تو روحِ کائنات ہیں کہ جس طرح ایک انسانی جسم میں روح موجود ہوتی ہیں تو جسم کام کر رہا ہوتا ہے ۔جب روح نکل جاتی ہےتو جسم بے حس و حرکت ہو جاتا ہے ۔۔چنانچہ روحِ کائنات سرکارِ مدینہ ﷺجب شبِ معراج آسمانوں پر تشریف لے گئے اتنی طویل سیر کے بعد واپس آئے بستر بھی گرم تھا ۔زنجیر(کنڈی) بھی ہل رہی ہے ۔وضو کا رواں پانی بہ رہا تھا ۔تو کیو ں ؟ اس لئے کہ آپ اﷺ اس عالم کی روح ہیں یہ عالم جسم کی مانند ہے جب روح نکل گئی تو جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا پانی جہاں رواں تھا وہاں رک گیا ،کنڈی کچھ دیر ہلی تھی وہیں رک گئی بستر کچھ گرم ہوا تھا کہ وہیں رک گیا جو جو کچھ جہاں تھا وہیں ٹھہر گیا اور جب روحِ کائنات واپس تشریف لےآئے تو جسم نے اپنا کام کرنا شروع کر دیا ۔وضو کا پانی بھی رواں ہو گیا ۔کنڈی کو ابھی ہلنا باقی تھا تو جہا ہلتے وقت ساکن تھی وہیں سے پھر ہلنے لگی ۔بسر کی تپش بھی وہیں سے گرم ہو گئی ۔ پس اگر روحِ کائنات نہ ہو تو یہ جہاں کا نظام نہ چلے
ناضر
کا مفہوم یوں سمجھ لیجئے کہ اگر زید اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھا ہے کمرے کا دروازا کھلا ہے اور پورا کمرا اسکی نگاہوں میں ہے اور دروازے کے باہر جو کچھ ہے وہ حصہ بھی اسکی نگاہوں کے سامنے ہے تو جہاں تک زید کی نظر جا رہی ہے یعنی کمرے میں رہ کر کمرے کے باہر تک کو دیکھنے کے لحاظ سے وہ ناظر ہے یہ نہیں کہ صرف کمرے میں ناضر کہلاۓ گا اور کمرے سے باہر کی چیزوں کو دیکھنے کے با وجود وہ ناضر نہیں کہلاۓ گا بلکہ کمرے سے باہر اچانک اس کا بچہ گر جاتا ہے تو وہ یہی کہے گا میں دیکھ رہا تھا گویا ایک جگہ رہ کرنظر جتنی دور کا ادراک کرے اس لحاظ سے وہ شخص ناظر ہے ۔ اللہ کے محبوب جانِ کائنات ﷺمدینے میں جسمِ اطہر کے ساتھ ارام فرما ہو کر پوری کائنات کو ملا حظہ فرما رہے ہیں یعنی دیکھ رہے ہیں تو اس لحاظ سے آپ ناظر ہیں ۔اب رہی بات یہ کہ ایسا کیسے ہے تو یہ اللہ کی عطا ہے کہ اس نے اپنے محبوب ﷺکی مبارک آنکھوں کو یہ کمال عطا فرمایا ہے ہے کہ ساری کائنات کا مشاہدہ کر لتی ہیں جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے ۔۔حضرتِ ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے فرمایا :بے شک اللہ نے میرے لئے زمین کو سیٹا (یعنی سمیٹ کر مثلِ ہتھیلی کے کر دیا ) یہاں تک کہ میں نے ساری زمین اور اسکے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا وہ ہماری نگاہوں میں نہ سہی ہم تو ان کی نگاہوں میں ہیں
No comments:
Post a Comment