Wednesday, September 10, 2014

ڈاکٹر طاہر القادری

¤~ اھم ترین ~¤~

طاھرالقادری نے مسئلہ خلافت پرصحابہ سے مسئلہ دیت پرامام ابوحنیفہ سے مسئلہ کفریات دیوبند پراعلی حضرت سے مسئلہ تصوف پرصوفیائے کرام سے مسئلہ ممتاز قادری پرامت سے اختلاف کیا،کئ مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجھوٹے خواب منسوب کئے، پرسوں یوم شھداء سے خطاب کرتے عشاء کے وضو پرفجرکی نمازپڑھنے کادعوی کیاحالانکہ وہی خطاب نمازمغرب سے 30 منٹ پھلے شروع کرتے ہوئے 9:15 ختم کرکے خود اورھزاروں لوگوں کی نمازمغرب ضائع کی،ممتازقاری کواسلئے سزائے موت کامستحق قراردیا کہ یہ ماورائے عدالت قتل تھاحالانکہ اپنے کارکنوں کوپولیس کے گھروں میں داخل ہونے اور 15 کے بدلنے میں 15 کوقتل کرنے اورمرنے کے بعدنوازشریف کی پورے خاندان کوقتل کرنے کااعلان کیا اس شخص کے گمراہ اورخارج اھلسنت ہونے پر امت کااجماع ھوچکاھے لھذاجوابن وقت سنی انکاساتھ دیتاہے انکامسلک سے کوئی تعلق نہیں ہے.~¤~ اشاعت رضا ~¤~


ڈاکٹر طاہر القادری نے 1985ء میں محض مغرب زدہ عورتوں میں مقبولیت حاصل کرنے کی غرض سے 

( جیسا کہ انہوں نے ایک مجلس میں اعتراف بھی کیا تھا) احادیث صریحہ اور اجماع ائمہ اربعہ کے خلاف "عورت کی (خون بہا) کو مرد کے برابر قرار دیا" تو ڈاکٹر موصوف کے استاد غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے رسالے "اسلام میں عورت کی دیت" میں ڈاکٹر موصوف کے اس نظریہ کو صراط مستقیم سے انحراف اور قرآنی احکام کو مسخ کرنے کی سعی مذموم قرار دیا.. جبکہ ڈاکٹر موصوف کے دوسرے استاد، استاد العلماء حضرت مولانا عطاء محمد بندیالوی گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دیت کے موضوع پر مطبوعہ رسالے میں ڈاکٹر موصوف کی تکفیر کی... 

 

 

پھر ڈاکٹر موصوف نے (نواۓ وقت 8 جون 1989 کے مطابق) اثنا عشری شیعہ کے مسلمہ پیشوا خمینی ایران کے ماتمی اجلاس میں سیاہ چوغہ پہن کر شرکت کی اور کہا "امام خمینی تاریخ اسلام کے شجاع اور جری مردان حق میں سے تھے جن کا جینا علی رضی اللہ عنہ اور مرنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرح ہے خمینی سے محبت کا تقاضا ہے ہر بچہ خمینی بن جاۓ"... حالانکہ اہل علم سے مخفی نہیں کہ خمینی ایران عقائد میں اثنا عشری ملا باقر مجلسی کا پیروکار تھا اور ملا باقر مجلسی نے اپنی کتب میں ام المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام المؤ منین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی شان اقدس میں انتہائی غلیظ تبرے بکے ہیں اور تین چار صحابہ کرام چھوڑ کر حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنھما سمیت تمام صحابہ کو کافر و مرتد قرار دیا ہے اسی طرح قرآن پاک کو گھڑا ہوا قرار دے کر اسلام کی بنیاد ختم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے... 

 

 

پھر ڈاکٹر موصوف نے برطانیہ میں دیوبندی فرقہ کے ایک عالم کے پیچھے نماز پڑھی اور علماء دیوبند کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز کا فتوی دیا جبکہ حرمین شریفین کے تین درجن اور پاک و ہند کے تین سو اکابر علماء نے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں انتہائی گستاخانہ عقائد کی بنا پر اکابر علماء دیوبند اور ان عقائد میں انکے متبعین کو کافر و مرتد قرار دیا ھے.... 

 

 

ڈاکٹر موصوف نے اپنے خطابات میں یہود و نصاری کو بھی Believers یعنی مؤمنین قرار دیا اور منہاج القرآن کی مسجد میں انہیں عبادت کرنے کی کھلی اجازت بخشی اور اپنی کتب " اسلام اور تصور اعتدال و توازن" اور " فرقہ واریت کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے" میں شیعہ سنی اور سنی وہابی اختلاف کو فروعی قرار دے کر سب فرقوں کو اصول میں مسلمان قرار دیا تو مرکز اہلسنت بریلی شریف کے چشم و چراغ مفتی اسلام حضرت مولانا علامہ محمد اختر رضا خاں دامت برکاتہم العالیہ نے ڈاکٹر موصوف کے کافرو مرتد ہونے کا فتوی جاری کیا.... 

 

 

ڈاکٹر موصوف یک مشت داڑھی سنت رسول جو کہ واجب شرعی کا درجہ رکھتی ہے کے بارے میں بھی الحاد کا شکار ہو چکا ہے اپنی یک مشت داڑھی بھی صحیح بخاری میں موجود حدیث نبوی "و فرو اللحی یعنی تم داڑھیاں بڑھاؤ" کی مخالفت کرتے ہوۓ منڈوا کر چھوٹی کرادی ہے اور منہاج سنٹروں کے اندر بھی داڑھی کترے امام و خطیب مقرر کئے ہوۓ ہیں جو مسلمانوں کی نمازوں کو برباد کر رہے ہیں کیوں کہ یک مشت داڑھی سے کم داڑھی والے امام کے پیچھے نمازپڑھنا مکروہ تحریمی ہے جس کا لوٹانا واجب ہے...(فتاوی رضویہ) 

 

 

اور اب یکم اکتوبر 2011 کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں پرویز علی شاہ نامی جج کی طرف سے محافظ قانون ناموس رسالت اور دورحاضر کے غازی اعظم ملک محمد ممتاز قادری صاحب کو دوہری سزاۓ موت کے فیصلے سے صرف 6 روز قبل 25 ستمبر 2011ء کو اے.آر.واۓ ٹی وی چینل پر ایک پرویز جاوید میرنامی قادیانی کو انڑویو دیتے ہوۓ امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے علماء و مشائخ کے نظریات کے علی الرغم درج ذیل تین شیطانی نکات پر زور دے کر کفر نوازی کی انتہاء کر دی اور پاکستان میں جاری تحریک تحفط ناموس رسالت کے خلاف کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا..... 

 

 

 

(ڈاکٹر موصوف کے تین شیطانی نکات) 

 

 

1.. اگر کوئی فی الواقعہ گستاخ رسول ہو تو اسے قتل کرنے والا مجرم ہے اور اسکی سزا "سزاۓ موت" ہے... 2... سابق گورنر سلمان تاثیر گستاخ رسول نہیں تھا... 3... ممتاز قادری قاتل ہے اس جرم کی سزا "سزاۓ موت" ہے..... 

 

 

(ڈاکٹر موصوف کا پہلا شیطانی نکتہ کہ: گستاخ رسول کو قتل کرنے والے کی سزا" سزاۓ موت" ہے) 

 

 

یہ تینوں نکات شیطانی ہیں لیکن پہلا نکتہ انتہائی خوفناک ہے کیونکہ اسکی رو سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر وہ صحابہ کرام جنہوں نے گستاخان رسول کو ماوراۓ عدالت محض جذبات ایمانی کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا، مجرم اور سزاۓ موت کے حق دار ٹھہرے ہیں (العیاذ باللہ من ذالک) جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مواقع پر ان خونوں کو رائیگاں قرار دیا اور ان غازیان اسلام کو نہ مجرم قرار دیا اور نہ قصاص و دیت کا حکم صادر فرمایا دیکھۓ چند مندرجہ ذیل احادیث نبویہ :

 

 

 

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہمیں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بتایا کہ ایک نابینا صحابی کی ام ولد (الیسی لونڈی جس سے اولاد پیدا ہوجاۓ ) تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کرتی تھی.... وہ (نابینا صحابی) اسے منع کرتے تو باز نہ آتی، اسے ڈانٹتے تو ڈانٹ کو قبول نہ کرتی... چنانچہ ایک رات وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے لگی تو انہوں نے چھرا لے کر اسکے پیٹ میں گھونپ دیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے میرا اس پر جو حق ہے کھڑا ہو جاۓ تو نابینا صحابی کھڑے ہو گۓ لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوۓ، گرتے پڑتے (آگے آۓ) حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گۓ اور عرض کیا میں اسکا قاتل ہوں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں کرتی تھی میں اسے منع کرتا تھا تو باز نہیں آتی تھی اور میں اسے ڈانٹتا تھا یہ ڈانٹ ڈپٹ کی پرواہ نہیں کرتی تھی اور میرے اس سے دو بیٹے ہیں جو موتیوں کی مانند ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی... گذشتہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں اور توہین آمیز باتیں کرنے لگی تو میں نے چھرا لے کر اسکے پیٹ میں گھونپ دیا اور میں نے چھرے کو خوب زور سے دبایا حتی کہ میں نے اسے قتل کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار گواہ بن جاؤ کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہے ( یعنی اسکا قتل جرم نہیں اور اس میں قصاص و دیت بھی نہیں)......(سنن ابوداؤد: کتاب الحدود،، باب فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرقم:4361.... المستدرک للحاکم جلد5 صفحہ 272 الرقم: 8210.... سنن نسائی باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم،، الرقم:4075) 

 

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک یہودی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتی تھی اور توہین آمیز باتیں کرتی تھی تو ایک شخص نے اسکا گلا گھونٹ (کر مار) دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے خون کو رائیگاں قرار دیا... (سنن ابو داؤد: باب فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرقم: 4362) 

 

 

حضرت عمیر بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیشک انکی ایک بہن تھی جب وہ عمیر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاتے تو وہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اذیت پہنچاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتی اور وہ مشرکہ تھی.. تو ایک روز تلوار لے کر آۓ اسے قتل کر دیا........ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اپنی بہن کو قتل کر دیا ہے؟؟؟ عرض کیا جی... فرمایا: کیوں؟. عرض کی: وہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اذیت پہنچاتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹوں کو طلب فرمایا........ اور اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا.... (المعجم الکبیر: جلد 17صفحہ 164،165،،الرقم،124.... مجمع الزوائد: کتاب فیمن سب انبیااو غیرہ،،، جلد6 صفحہ 287،، الرقم: 10569) 

 

 

تفسیر بیضاوی، تفسیر روح المعانی، تفسیر مدارک، تفسیر مظہری اور دیگر کتب میں سورۃ نساء کی آیت 60 کے تحت حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ بشر نامی کلمہ گو اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو باہر نکل کر بشر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا تو یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ اس مقدمے کا فیصلہ قبل ازیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں کر چکے ہیں.... حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بشر سے پوچھا کہ یہ ٹھیک ہے؟؟ اس نے کہا ہاں تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ٹھہرو میں واپس آتا ہوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تلوار نکالی اور بشر کی گردن پر مار کر اسے قتل کر دیا اور فرمایا: "ھکذا اقضی لمن لم یرض نقضاء اللہ ورسوله" ترجمہ: جو شخص اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا میں اس طرح اسکا فیصلہ کرتا ہوں..... چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قتل کو بھی رائیگاں قرار دیا اور اس واقعہ سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی مسلمان غیرت اسلامی کی بنیاد پر قتل کر دے تو یہ جرم نہیں بلکہ سنت صحابہ عظام ہے جس کی تائید و توثیق اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے.... نیز ڈاکٹر موصوف نے اپنی کتاب" تحفظ ناموس رسالت" کے صفحہ 264 تا 270 پر انتہا ئی تائیدی انداز میں اس واقعہ کو بڑی شرح و بسط سے بیان کیا ہے.. جس سے بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ڈاکٹر موصوف اپنی کتب میں بیان کردہ نظریات کو بری طرح ذبح کر کے اعداء اسلام کا مشن پورا کر رہے ہیں..... 

 

 

(ڈاکٹر موصوف کا دوسرا شیطانی نکتہ: سلمان تاثیر گستاخ رسول نہیں تھا) 

 

 

 

اس سلسلہ میں حقائق یہ ہیں: 1)...... سلمان تاثیر قادیانی تھا یا کم ازکم قادیانیوں کو مسلمان قرار دیتا تھا جیسا کہ جنگ 11 جنوری 2011ء کے مطابق سلمان تاثیر کی بیٹی شہربانو نے بیان دیا کہ اسکے والد احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سخت خلاف تھے لہذا اس گھر کی گواہی کی بنیاد پر سلمان تاثیر کافر و مرتد اور گستاخ رسول تھا کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو کافر و مرتد قرار دینے کی وجوہ میں ایک یہ بھی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی مدعی نبوت ہونے کے ساتھ ساتھ بدترین گستاخ انبیاء بھی تھا.... 2).... 17 ستمبر 2009ء کو اکثر قومی اخبارات میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا یہ بیان شائع ہوا کہ وہ قانون توہین رسالت 295/سی کو نہیں مانتا اور یہ کہ اس قانون کو ختم کر دینا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ... ظاہر ہے کہ قانون توہین رسالت قرآن و حدیث کے صریح دلائل پر مبنی لہذا سلمان تاثیر اس بیان کی بنا پر اور پھر اس پر اصرار کرنے کی بنا پر کافر و مرتد ٹھہرا..... 3)..... 7 اکتوبر 2009ء کو لاہور میں اہل سنت کے درجنوں علماء کی معیت میں تھانہ سول لائن لاھور میں سلمان تاثیر کے اس کافرانہ بیان کے خلاف "ایف آئی آر" درج کرنے کی درخواست جمع کروائی اور چند دن بعد عالمی تنظیم اہل سنت کے زیر اہتمام داتا دربار لاہور سے وزیر اعلی ہاؤس تک احتجاجی جلوس نکالا گیا اور وریر اعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دے کر سلمان تاثیر کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کیا گیا لیکن افسوس کہ مرکزئی اور صوبائی حکومت نے کوئی کاروائی نہ کی.... 4)...... آسیہ نامی عیسائی خاتون کو گستاخ رسول ثابت ہونے پر سیشن جج ننکانہ صاحب نے سزاۓ موت کا حکم دیا تو سلمان تاثیر شیخوپورہ جیل پہنچ گیا.. گستاخ رسول آسیہ سے اظہار ہمدردی کیا، صدر کے نام معافی کی درخواست پر دستخط کراۓ اور وعدہ کیا کہ وہ صدر پاکستان سے سزا ضرور معاف کرواۓ گا اور گستاخ رسول آسیہ جس کا جرم ثابت ہو چکا تھا اور عدالت سے سزا کا حکم ہو چکا تھا کو مظلوم قرار دیا وغیرہ وغیرہ.... 

 

 

5)...... یکم نومبر 2009ء کو ٹی وی پر کہا: قانون ناموس رسالت " کالا قانون" ہے.. یہ ظالمانہ قانون ہے ہم اس کالے قانون کو نہیں مانتے.... (العیاذ باللہ من ذالک) 

 

 

6)..... 3 نومبر 2009ء کو پریس کلب لاہور کے سامنے عالمی تنظیم اہلسنت کے زیر اہتمام زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں فتوی دیا گیا کہ سلمان تاثیر نے قانون توہین رسالت 295/سی کو جو کہ کتاب و سنت سے ماخوذ ہے کالا اور ظالمانہ کہا ہے لہذا یہ شرعا مرتدو کافر ہے اور واجب القتل ہے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب سے بھی اپیل کی کہ وہ ازخود نوٹس لیں لیکن افسوس کہ عدالت عظمی نے کوئی اقدام نہ اٹھایا.... 

 

 

7)...... چند روز بعد نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی جلوس نکالا گیا اور صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کافر و مدتد سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب کے عہدے سے ہٹا کر اس کے خلاف قانونی کاروائی کے احکام کریں لیکن افسوس کہ ایک نہ سنی گئ.... 

 

 

8 )......... چنانچہ 4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر کو اپنے سیکورٹی گارڈ ملک ممتاز قادری نے اپنے خالص دینی جذبات کی بنیاد پر کافر و مرتد و گستاخ رسول اور امت مسلمہ کے دینی جذبات کو بار بار شدید مجروح کرنے والے اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا مذاق اڑانے والے سلمان تاثیر کو واصل جہنم کر کے سنت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کھ زندہ کر دیا.... فجزاہ اللہ تعالی عن حبیبه و زسوله صلی اللہ علیہ وسلم احسن الجزاء____ 

 

 

 

ڈاکٹر موصوف کا تیسرا شیطانی نکتہ: ممتاز قادری قاتل ہے اور اسکے جرم کی سزا " سزاۓ موت" ہے.... " 

 

 

 

پاکستان کی مختلف ایجنسیوں نے محافظ قانون ناموس رسالت غازی ملک محمد ممتاز قادری پر بدترین تشدد کیا لیکن غازی ملک محمد ممتاز قادری کا ایک ہی موقف رہا " میں نے ایک مرتد اور گستاخ رسول کو مار کر اللہ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل کی ہے اور میں نے کسی بے گناہ کو قتل نہیں کیا بلکہ سنت فاروق اعظم کے مطابق ایک مرتد کو مارا ہے" ... نیز نواۓ وقت 2 اکتوبر 2011ء کے مطابق کورٹ نے حضرت غازی ملک محمد ممتاز قادری کے خلاف فیصلہ ان الفاظ میں سنایا " آپ نے جو کام کیا ہے وہ اسلام کی رو سے ٹھیک ہے مگر ملکی قانون میں آپ کو دفعہ "302ت پ" کے تحت سزاۓ موت اور دو لاکھ جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے"... جس سے واضح ہو گیا کہ غازی صاحب کے اقدام کو پاکستان کی کورٹ نے بھی اسلامی قرار دیا ہے....... 

 

 

 

............... ( اپیل)................... ہر شخص سے جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر موصوف کو اسلام کا نمائندہ ہر گز نہ سمجھے بلکہ اس شخص کو رافضیوں، وہابیوں، دیوبندیوں، یہودیوں، عیسائیوں، قادیانیوں اور دیگر کفار کا حامی و ناصر اور ایجنٹ تصور کیا جاۓ





کیا مسجد میں عیسائیوں کو عبادت کی اجازت دینا سنت ہے؟؟؟

سوال : کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران سے آنے والے عیسائیوں کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی پیشکش کی تھی؟ اور کیا ہم آج کے دور میں اسے سنت نبوی قرار دے کر عیسائیوں کو مساجد میں انکے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟؟

جواب :: " لعنت اللہ علی الکاذبین" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز ہر گز پیشکش نہیں فرمائی تھی.. اصل واقعہ اس طرح ہے کہ نجران کے علاقے سے ساٹھ عیسائیوں کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.. عصر کی نماز کے وقت یہ وفد بھی مسجد میں داخل ہو گیا. ( فد خلوا علیہ مسجدہ حین صلی العصر)...

تھوڑی دیر بعد انکی نماز کا وقت آ گیا تو انہوں نے اپنے طریقے کے مطابق مسجد نبوی شریف میں نماز شروع کر دی.. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو.. ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی:
" وقد حانت صلاتھم فقا موا للصلاۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوھم فصلوا الی المشرق"
(سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ ۵۷۴، بغوی جلد 1 صفحہ ۶۷۶)
بہت سے مفسرین نے اسے اپنی تفاسیر میں بیان فرمایا ہے مگر انکے اصل ماخذ تقریبا یہی ہیں...
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد شریف کے علاوہ کوئی مخصوص مہمان خانہ موجود نہ تھا، ہر خاص و عام کو وہیں ٹھہرایا جاتا تھا.. نیز عیسائیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کو نہیں فرمایا تھا.. عیسائیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کی اجازت بھی نہیں مانگی تھی.. بلکہ وہ خود بخود نماز پڑھنے لگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دعوھم" انہیں چھوڑ دو...
بہ بیں تفاوت راہ از کجا است تا یکجا
امام اہلسنت حضرت شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ سے کسی نے پوچھا کہ مسجد میں ہندوؤں سے منبر پر لیکچر دلواۓ گئے اور کہا گیا کہ مسجد نبوی میں وفود کفار قیام کرتے تھے اور اپنے طریقہ سے عبادت بھی کرتے تھے اور کفار کا داخلہ مخصوص بمسجد حرام ایک خاص وقت کے واسطے منع تھا.. اس کے جواب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یہ کہنا کہ وفود کفار مسجد نبوی میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے، محض جھوٹ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے جائز رکھنے کا اشعار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراۓ فجار، حاشا کہ اللہ کا رسول گو بار بار فرماۓ کہ کسی مسجد، نہ کہ خاص مسجد مدینہ کریمہ میں، نہ کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بتوں یا مسیح کی عبادت کی جاۓ..، جانتے ہو کہ اس سے ان کا مقصود کیا ہے یہ کہ مسلمان تو اسی قدر پر ناراض ہوۓ ہیں کہ مشرک کو مسجد میں مسلمانوں سے اونچا کھڑا کرکے ان کا واعظ بنایا وہ تو اس تہیہ میں ہیں کہ ہندوؤں کو حق دیں کہ مسجد میں بت نصب کر کے ان کی ڈنڈوت کریں، گھنٹے بجائیں، سنگھ پھونکیں، کیونکہ ان مفتریوں کے نزدیک خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں خود حضور کے سامنے کفار اپنے طریقہ کی عبادت کرتے تھے:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسجد کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی.. جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا، کسی کافر کی حاضری معاذاللہ بطور استیلا و استعلاء نہ تھی، بلکہ ذلیل و خوار ہو کر یا اسلام لانے کے لیے یا تبلیغ اسلام سننے کے واسطے.. کہاں یہ اور کہاں وہ جو بدخواہان اسلام نے کیا، کہ مشرک کو بدرجہ تعظیم مسجد میں لے گئے، اسے مسلمانوں سے اونچا کھڑا کیا، اسے مسلمانوں کا واعظ و ہادی بنایا، اس میں مسجد کی توہین ہوئی اور توہین مسجد حرام، مسلمانوں کی تذلیل ہوئی اور تذلیل مسلمین حرام، مشرک کی تعظیم ہوئی اور تعظیم مشرک حرام، بدخواہی مسلمین ہوئی بلکہ بدخواہی اسلام، پھر اسے اسی پر قیاس کرنا کیسی سخت ضلالت و گمراہی ہے، طرفہ یہ کہ زبانی کہتے جاتے ہیں کہ مشرک کا بطور استعلاء مسجد میں آنا ضرور حرام ہے اور نہیں دیکھتے کہ یہ آنا بطور استعلاء ہی تھا:
"فانھا لا تعمی الابصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور"
"پس بے شک آنکھیں اندھی نہیں اور لیکن دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں"
اس نا بینائی کی بنا پر یہ مسلمان کو دھوکا دینے والے یہاں حنفیہ و شافعیہ کا اختلافی مسئلہ کہ مسجد میں دخول کافر حرام ہے یا نہیں، محض دھوکا دینے کو پیش کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس مسئلہ میں تحقیق کیا ہے:
اولا: خود کتب معتمدہ حنفیہ سے ممانعت پیدا ہے...
ثانیا: خود محرر مذہب سیدنا امام محمد کے ارشاد سے منع ہویدا ہے...
ثالثا: علما و صلحا کا ادب کیا رہا ہے؟ اختلاف احوال زمانہ و عادات قوم ہمیشہ مسائل تعظیم و توہین میں دخل رکھتا ہے...
رابعا: غیر اسلامی سلطنت اور نا مسلموں کی کثرت میں اسکی اجازت کی اشا عت اور مساجد کو پامالی کفار کے لیے وقف کرنا کس قدر بہی خواہی اسلام ہے؟؟
خامسا: وہ نجس قوم کہ بہ نص قطعی قرآن اس پر حکم نجاست ہے اور وہ مسلمانوں کو ملیچھ کہے، بھنگی کی مثل سمجھے، سودا بیچے تو دور سے ہاتھ میں رکھدے، اسکے نجس بدن ناپاک پاؤں کے لیے تم اپنی مساجد کو وقف کرو، یہ کس قدر مصلحت اسلام کے گہرے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ان سب سے قطع نظر ان حرکات شنیعہ کا اس سے کیا علاج ہو سکتا ہے...
او گماں بردہ کہ من کردم چو او
فرق را کے بیند آں استیزہ چو
صحیح بخاری شریف میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"قال کانت الکلاب تقبل و تدبر فی المسجد فی زمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" "
"کہا زمانہ رسالت میں مسجد شریف میں کتے آتے جاتے تھے"
اب تم کتے خود اپنی مسجدوں اور مسجد الحرام شریف یا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لے جاؤ اور جمعہ کے دن امام کے داہنے بائیں منبر پر دو کتے بٹھاؤ.. تمہارے استدلال کی نظیر تو یہیں تک ہو گی، کہہ دینا کہ زمانہ اقدس میں کتے مسجد میں نہ آتے جاتے تھے؟ ہم لے گئے اور منبر پر انہیں بٹھایا تو کیا ہوا؟؟ اور وہ جو آنے جانے اور یوں لے جانے اور منبر پر بٹھانے کا فرق ہے اس سے آنکھ بند کر لینا جیسے یہاں بند کر لی، کون سی آنکھ دل کی کہ
"تعمی القلوب التی فی الصدور"
بلکہ خدا تمہیں عقل و انصاف دے تو یہ بھی تمہارے فعل کی نظیر نہیں، تم خطیب کے آس پاس منبر پر کتے بٹھاؤ، اس سے وہ کتے خطیب نہ ہو جائیں گے اور تم نے مشرکین کو خطیب مسلمین بنایا لہذا اگر قدرے اپنے فعل سے تقریب چاہو تو ان کتوں کو سدھاؤ کہ جب امام پہلا خطبہ پڑھ کر بیٹھے، وہ نہایت بلند آواز سے بھونکنا اور رونا شروع کریں کہ باہر تک کے سب لوگوں کو خبر ہو جائے کہ جلسہ و دعا کا وقت ہے، یوں ہی نماز کے وقت آٹھ آٹھ دس دس صفوں کے فاصلے سے چار چار کتے صف میں کھٹرے کرو کہ تکبیر انتقال کے وقت چیخیں اور مکبروں سے زیادہ تبلیغ کا کام دیں اور یہی حدیث بخاری حجت میں پیش کر دینا کہ دیکھو زمانہ اقدس میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے، بلکہ ان کے آنے سے کوئی فائدہ نہ تھا اور ہم کتے اس نفع دینی کے لیے لے گئے تو بدرجہ اولی یہ جائز ہوا.. وہاں تک تو قیاس تھا یہ دلالتہ النص ہوئی اور اس میں جو تمارے استدلال کی خباثت ہے نہ دیکھنا، کیونکہ ٹھہر گئ ہے کہ:
"تعمی القلوب التی فی الصدور"
دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہے...
(فتاوی رضویہ جلد ۶صفحہ ۸۵۰۸۴)۰
حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ ضروری نوٹ کا عنوان قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس وفد میں مسجد نبوی شریف میں اپنی عبادت اس وقت شروع کردی جب مسلمان نماز عصر پڑھ رہے تھے.. مسلمانوں نے بعد نماز انکو انکی عبادت سے نہ روکا.. اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب ہم مشرکوں کو اپنی مسجدوں میں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیں.. ان کو نہ روکنا ایسا تھا جیسے ایک بدوی نے مسجد نبوی شریف میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے نہ روکو.. اس سے مسجدوں میں پیشاب پاخانہ کی اجازت نہ ہوگی... ( تفسیر نور العرفان صفحہ ۷۸)


2 comments:

  1. آپ لوگ خدارا ایسے ھی کسی کی تکفیر نہ کر دیا کریں اور قرآن و حدیث سے بھی کبھی دلائل دے دیا کریں بجائے کہ جذبات کے

    ReplyDelete
  2. کیا طاہر القادری نے کبھی دعوی کیا ہے کہ میری عمر حضور کی عمر کے برابریا ایک سال کم ہو گی.

    ReplyDelete