Wednesday, September 17, 2014
Tuesday, September 16, 2014
کیا عید میلاد النبی ﷺ منانا عیسائیوں کی ایجاد ہے؟
کیا عید میلاد النبی ﷺ منانا عیسائیوں کی ایجاد ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ سرکار دوعالمﷺ کا جشن ولادت منانا کیسا ہے؟ مسلمانوں کو عید میلاد النبیﷺ منانا چاہئے یا نہیں؟ دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں ہے کہ جشن عید میلاد النبیﷺ کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ کرسچن کی ایجاد ہے۔ سرکارﷺ کے چھ سو سال بعد شروع ہوا۔ ہم کو حکم نہیں ہے کہ حضورﷺ کی ولادت (پیدائش) (Birth Day) یا وصال کا دن منائیں۔ یہ دن بھی عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ فتویٰ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کی رو سے صحیح ہے یا نہیں؟ صحیح و تحقیقی جواب سے نوازیں؟ بینوا توجروا۔
جواب: ماہ مبارک ربیع الاول شریف ہو یا کوئی دوسرا مہینہ، اس میں حضورﷺ کی ولادت مقدسہ مبارکہ کا جشن منانا، اظہار فرحت و سرور کرنا، واقعات میلاد کا تذکرہ کرنا نہ صرف جائز و مستحسن بلکہ باعث خیر وبرکت ہے۔ تذکرۂ ولادت پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنت نبی کریمﷺ و سنت صحابہ و تابعین و طریق جملہ مسلمین بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے ’’اولوالامر‘‘ کہا ’’راسخون فی العلم‘‘ فرمایا، ولادت رسولﷺ کے موقع پر محفل ذکر ولادت کرتے اور خوشی و عید مناتے رہے ہیں اور مسلمانان عالم میں یہ رائج عمل مولود مقبول ہے۔
آیت کریمہ ہے:
قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فذالک فلیفرحوا
تم فرماو& اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں
(یونس، آیت 58)
واذکرو نعمۃ اﷲ علیکم
اور اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو
(آل عمران، آیت 103)
واما بنعمۃ ربک فحدث
اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو
(الضحیٰ، آیت 12)
کے تحت داخل ہے۔ حضور اقدسﷺ کی ذات اقدس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلق خدا کو ملی، نہ اس سے بڑا کوئی فضل و رحمت اﷲ تعالیٰ نے انسانوں، جنوں، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمائی۔
سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت کریمہ
’’الذین بدلوا انعمۃ اﷲ کفرا‘‘
(ابراہیم۔ آیت ۲۸)
(جنہوں نے اﷲ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا) کی تفسیر میں فرمایا ’’ہو محمدﷺ‘‘ (اﷲ عزوجل کی نعمت سے مراد محمدﷺ ہیں) اس عظیم و جلیل نعمت پر شکر ادا کرنا خواہ تذکرۂ میلاد کی صورت میں ہو یا جشن و جلوس وغیرہ کی صورت میں، یہ سب اسی حکم ادائے شکر کے تحت داخل ہیں۔
قرآن کریم کی صراحت کے مطابق موقع ولادت (پیدائش کا دن) ان تین موقعوں میں سے ایک ہے جن پر سلامتی کی دعا انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمائی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں بایں کلمات وارد ہوئیں
’’وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا‘‘
سلامتی ہو اس پر جس دن پیدا ہو اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا
(مریم آیت ۱۵)
’’والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا‘‘
اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں
(مریم: آیت ۳۳)
اسی طرح سورہ قصص آیت نمبر ۷ تا ۱۳ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے۔
سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۴ تا ۳۷ میں حضرت مریم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کا ذکر میلاد اس بات کی دلیل ہے کہ سیدالانبیاء نبی اکرمﷺ کا ذکر میلاد ایک اچھا عمل اور باعث خیر وبرکت و قابل اجر و ثواب ہے۔ پھر انبیائے کرام کا یہ تذکرۂ میلاد اور ان کی دعائوں کا بیان ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہوا۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انبیائے کرام و سید الانبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد ان کا ذکر میلاد کوئی برا عمل نہیں بلکہ قرآن کریم کی اتباع و پیروی ہے۔
قرآن کریم میں حضور اکرمﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلاد النبیﷺ کا تذکرہ موجود ہے۔
سورہ آل عمران میں ہے
’’ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘
پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا
(آل عمران آیت ۸۰)
حدیث پاک میں بھی میلاد النبی کا تذکرہ موجود ہے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’’ان رسول اﷲﷺ سئل عن صوم یوم الاثنین، فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی‘‘ (حضور اقدس٭ﷺ سے دوشنبہ (سوموار)کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن میری طرف وحی نازل کی گئی۔
(مسلم شریف، جلد ۱، ص ۳۶۸)
محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی صراحت فرمائی، اس حدیث سے رسول اﷲﷺ کا اپنی ولادت مبارکہ کے دن روزہ رکھنا ثابت ہے جس سے یہ بات بغیر کسی شبہ کے واضح ہے کہ حضور اقدسﷺ کی پیدائش کا دن معظم و لائق احترام ہے۔ اب اگرکوئی ولادت مبارکہ کے دن خوشی مناتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے، واقعہ میلاد کے تذکرہ کے لئے جلسے کرتا ہے، جشن مناتا ہے، اس دن نبی کی یاد میں جلوس نکالتا ہے، کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے تو یہ رسول اﷲﷺ کی متابعت اور پیروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپﷺ کی حیات ظاہری میں بھی اور حیات ظاہری کے بعد بھی ولادت مبارکہ کے حالات و واقعات بیان فرماتے تھے۔
جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ وہ حضور اقدسﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کو ولادت مبارکہ کے حالات وواقعات بتا رہے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا
’’ان اﷲ تعالیٰ فتح لک ابواب الرحمۃ والملئکۃ من فعل ذالک نجح‘‘
اﷲ تعالیٰ نے تم پر رحمت اور فرشتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں جو شخص بھی یہ عمل کرے گا، نجات پائے گا
(التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے
’’انہ کان یحدث ذات یوم فی بیتہ وقائع علیہ السلام‘‘
ایک دن وہ اپنے گھر میں نبی اکرمﷺ کی پیدائش مبارک کے حالات و واقعات بیان فرما رہے تھے
(التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳)
مذکورہ بالا آیت و نصوص و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت مبارک کا تذکرہ کرنا جائزو مستحسن ہے۔ اور یہ کہ یہ قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے۔ میلاد النبیﷺ کے تاریخی واقعات و حالات کا بیان اور اس کے لئے مجلس کا انعقاد عہد صحابہ میں بھی ہوا اور یہی چیز میلاد کی مجلس کا مقصود اعظم اور جزو اہم ہے۔
قرون ثلاثہ کے بعد اس ہیئت کذائیہ میں اضافہ ہوا اور میلاد النبیﷺ کے دن کو عید وخوشی اور گوناگوں نیکی و مسرت اور جشن ولادت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ یہ تفصیلات اور ہیئت میلاد اگرچہ بعد میں رواج پذیر ہوئی مگر یہ بھی اجمالاً یا تفصیلاً ماذونات شرعیہ بلکہ مامورات شرعیہ میں داخل ہیں۔ صاحب مجمع البحار علامہ طاہر فتنی، جو ائمہ محققین واجلہ فقہاء و محدثین میں سے ہیں، اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کے خاتمے میں تحریر فرماتے ہیں:
بحمدہ تعالیٰ اﷲ عزوجل نے جو آسانی پیدا فرمائی اس کی وجہ سے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کا آخری حصہ رحمت و انوار کے سرچشمے کا مظہر مسرت و رونق کا مہینہ ماہ ربیع الاول کی بارہویں شب میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں اظہار مسرت کا حکم دیا گیا ہے۔ الیٰ آخرہ)
یہی وجہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شریعت کے ماذونات و مامورات میں داخل ہو، وہ ہرگز ناجائز و بدعت مذمومہ نہیں ہوسکتی، ایسی چیز کو وہی شخص ممنوع وبدعت سئیہ قرار دے گا جس سے قرآن فہمی، حدیث کی سمجھ اور شرعی معلومات کی توفیق چھین لی گئی ہو، ورنہ جس کام کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو، اصول شرع جس کے جواز کے مقتضی ہوں، اس کے جواز میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ چاہے تفصیلا وہ عمل قرون ثلٰثہ میں نہ رہا ہو، اس لئے علمائے اصول فرماتے ہیں جواز کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا و رسول جل و علا و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا
’’لان الاصل فی الاشیاء الاباحقہ‘‘
کمافی الاشباہ و النظاہر وغیرہا۔ کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا قرآن و حدیث کی مخالفت کرا اور نئی شریعت گڑھتا ہے، الیاقوتتہ الواسطتہ میں ہےباقاعدہ اصول بینہ ذمہ مدعی ہے اور قابل جواز تممسک باصل، جسے ہرگز کسی دلیل کی حاجت نہیں، بعض حضرات جہلاً یا تجاہلاً مانع فقہی و بحثی میں فرق نہ کرکے دھوکہ کھاتے دیتے ہیں کہ تم قائل جواز اور ہم مانع و منکر، تو دلیل تم پر چاہئے۔ حالانکہ یہ سخت ذہول و غفلت یاکید وخذیعت ہے، نہ جانا یا جانا اور نہ مانا کہ قول جواز کا حاصل کتنا؟ صرف اس قدر کہ ’’لم ینہ عنہ یالم یومر بہ ولم ینہ عنہ‘‘ تو مجوز نافی امرونہی ہے اور نافی پر شرعاً و عقلاً بینہ نہیں، جو حرام و ممنوع کہے وہ نہی شرعی کا مدعی ہے، ثبوت دینا اس کے ذمے ہے کہ شرح نے کہاں منع کیا ہے؟(ص ۳۔۴)
اسی میں ہے
’’علامہ عبدالغنی نابلسی ’’رسالۃ الصلح بین الاخوان‘‘ میں فرماتے ہیں
’’ولیس الاحیتاط فی الافتراء علی اﷲ تعالیٰ باثبات الحرمۃ والکراہۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحۃ التی ہی الاصل‘‘
علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں
’’من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ہو الصلحۃ واما القول بالفسادو والکراہۃ فیحتاج الی حجۃ‘‘
’’غرض مانع فقہی مدعی بحثی ہے اور جوا زکاقائل مثل سائل مدعا علیہ، جس سے مطالبۂ دلیل محض جنون یا تسویل، اس کے لئے یہی دلیل بس ہے کہ منع پر کوئی دلیل نہیں‘‘
نفس میلاد و تذکرہ واقعات میلاد تو ہر دور میں رہا۔ عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا۔ اس لئے اس کی اصل کا جواز استحسان تو منصوص ہے۔ رہا جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کا موجودہ طریقہ تو یہ ہیئت کذائیہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ مگر یہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی ایجاد ہے نہ کہ ’’بدعت سیئہ‘‘ یعنی بری ایجاد۔
علامہ سخاوی علیہ الرحمہ، مسلم الثبوت محدث ہیں، وہ اس ہیئت کی ایجاد کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’میلاد النبیﷺ کا مروجہ طریقہ قرون ثلٰثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں، اس کی بنیاد قرون ثلٰثہ کے بعد پڑی پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے، اس میں جشن مناتے ہیں، پرتکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں، اس مہینے کی راتوں میں صدقات بانٹتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اور میلاد النبیﷺ کے واقعات و حالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے برکات و ثمرات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں‘‘
(سبل الہدیٰ والرشاد، ج ۱، ص ۳۶۲)
عید میلاد النبیﷺ کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب حضور اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لئے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔
حضور اقدسﷺ نے فرمایا
’’ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں‘‘
آپ نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں اﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں، لہذا مناسب ہے کہ اہل اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہوجائے‘‘
(الحاوی للفتاویٰ، ج ۱، ص ۲۶۰)
یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں حضور اقدسﷺ کی ولادت کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد، اس کا اعلان و اظہار اور اس عظیم نعمت پر صدقات و خیرات وغیرہ کرکے ادائے شکر بجا لانے کا عمل ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا، چنانچہ چھٹی صدی کے مشہور و معتبر محدث علامہ ابن جوزی اپنی کتاب مولد النبیﷺ میں لکھتے ہیں:
’’عرب کے شرق و غرب، مصر و شام اور تمام آبادی اہل اسلام میں بالخصوص حرمین شریفین میں مولد النبیﷺ کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ ماہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ہیں، قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، قسم قسم کی زیب و آرائش کرتے ہیں، خوشبو اور سرمہ لگاتے ہیں اور ان دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں اور جو ان کو میسر ہوتا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ میلاد النبیﷺ سننے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اس کے عوض اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی کامیابی اور خیروبرکت حاصل کرتے ہیں اور یہ آزمایا ہوا امر ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے خیروبرکت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں سلامتی و عافیت، رزق میں وسعت، مال میں زیادتی، مال و دولت میں ترقی او رامن وامان پایا جاتا ہے، اور تمام گھروں میں سکون آرام حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب رسول اکرمﷺ کی برکت کے سبب سے ہے‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ سواد اعظم جمہور اہل اسلام نے یہ مبارک مجلس منعقد کی ہے اور آج تک پورے عالم اسلام میں یہ تقریب سعید منائی جارہی ہے اور اعازم دین و جمہور اہل اسلام میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔ مشہور محدث امام نووی شافعی استاذ شیخ ابوشامہ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (متوفی ۶۶۵ھ) فرماتے ہیں:
’’نو ایجاد امور میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو ہمارے زمانے میں ہورہا ہے۔ ہر سال یوم عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر اہل اسلام اظہار فرحت و سرور و صدقات و خیرات کرتے ہیں کہ اس میں غریبوں کے ساتھ حسن سلوک اور حضورﷺ کی محبت اور آپ کی تعظیم و توقیر کے ساتھ آپ کی ولادت مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اﷲ کریم نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو اس دن رحمتہ للعالمین بناکر بھیجا‘‘
(السیرۃ الحلبیہ، ج ۱، ص ۱۳۷)
میلاد النبیﷺ کی خوشی پر اجر و نفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں ہے
’’جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا پوچھا، ابولہب! تیرے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہوا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’مجھے تمہاری بعد صرف یہ بھلائی پہنچی کہ (محمدﷺ کی پیدائش کی خوشی میں) ثویبہ باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے کچھ سیراب کردیا جاتا ہوں‘‘
(بخاری، جلد ۲، ص ۳۶۳)
اس حدیث کے ذیل میں حافظ شمس الدین جزری لکھتے ہیں:
’’جب یہ کافر (ابولہب) جس کی مذمت پر قرآن اترا، نبی کریمﷺ کی شب ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کردی گئی تو امت محمدیہ کے اس مسلمان کا کیا کہنا جو میلاد النبیﷺ کے موقع پر خوشی و جشن مناتا ہے، حضورﷺ کی محبت میں استطاعت بھر خرچ کرتا ہے، میری زندگی کی قسم اﷲ کریم کی طرف سے اس کی جزاء یہ ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے گا‘‘
(المواہب اللدنیہ، بشرح الزرقانی، ج ۱، ص ۲۶۱)
علامہ زرقانی کی نقل کا حاصل یہ ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو، جس کی مذمت میں قرآن کی سورت اتری، ثویبہ لونڈی کو آزاد کرکے میلاد النبیﷺ کی خوشی کا اظہار کرنے پر اجر و نفع ملا، جبکہ قرآن کریم کی نص قطعی ہے کہ کافر کا کوئی عمل اجر و نفع کے قابل نہیں، ان کے اعمال باطل کردیئے گئے،
قال اﷲ تعالیٰ ’’وقدمنا الیٰ ماعملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا‘‘
(الفرقان: آیت ۲۳)
جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھری ہوئے ذرے کردیئے کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں
مگر صحیح حدیث میں ابولہب اسی طرح ابوطالب (جمہور کے نزدیک جس کی موت کفر پر ہوئی) کو نفع پہنچنے کا ذکر ہے۔ اس تعلق سے علامہ بدرالدین عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:
’’جس عمل کا تعلق حضورﷺ سے ہو تو یہ آیت کریمہ کے حکم عام سے مخصوص ہے جس پر دلیل ابوطالب کا وہ واقعہ ہے کہ اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے اوپر لایا گیا (یعنی اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی)‘‘
(عمدۃ القاری، ج ۲۹، ص ۲۴۲، المکتبۃ الشاملۃ)
علامہ کرمانی نے بھی شرح بخاری میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق حضور اکرمﷺ کی ذات سے ہو، وہ عمل قابل اجر و نفع ہے۔ یہ خصوصیت اﷲ عزوجل نے اپنے محبوب کی ذات سے متعلق رکھی، عمدۃ القاری ہی میں ہے:
’’اگر آپ کہیں کافروں کے اعمال حسنہ تو نیست و نابود کردیئے گئے، جس میں کوئی فائدہ نفع نہیں ہے، میںکہوں گا کہ (ابو طالب و ابولہب جیسے کافروں کو) اس نفع کا ملنا رسول اﷲﷺ کی برکت اور آپ کی خصوصیت کی وجہ سے ہے‘‘
(عمدۃ القاری، باب قصۃ ابی طالب، ج ۱۱، ص ۵۹۳)
پوری دنیا کے جلیل القدر فقہاء و محدثین و علمائے راسخین نے اپنی معتبر و مستند کتابوں میں عمل میلاد کو جائز و مستحسن اور قابل اجر و نفع قرار دیا ہے جس میں حافظ ابو شامہ استاذ امام نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، علامہ امام برہان الدین صاحب سیرت حلبیہ، علامہ ابن حجر مکی، امام ابن جزری صاحب حصن حصین، حافظ جلال الدین سیوطی، حافظ ابن رجب حنبلی، علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع البحار، ملا علی قاری، شیخ عبدالوہاب متقی مکی، حافظ زین الدین عراقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی جیسے بلند پایہ علمائے معتمدین شامل ہیں تو یہ ازروئے اصول مروجہ عمل مولود کے جواز و استحسان پر صدیوں سے عرف مسلمین قائم ہے اور عرف عام خود حجت شرعیہ ہے
جس کی اصل حدیث پاک
’’مارأہ المسلمون حسناً فہو عنداﷲ حسن‘‘
(جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے) ہے۔
موجودہ میلاد النبیﷺ کی ہیئت کو نئی ایجاد اور بدعت کہہ کر ممنوع قرار دینا، جیسا کہ وہابیہ اور دیابنہ کا نقطہ نظر ہے، سخت محرومی، بددیانتی اور جہل و بے خبری ہے۔ کسی چیز کے حسن و قبح کا مدار اس پر نہیں کہ وہ چیز عہد رسالت میں یا عہد صحابہ و تابعین میں تھی، یا نہیں بلکہ مدار اس پر ہے کہ وہ نئی ایجاد قرآن وسنت کے مزاحم اور اصول شرعیہ سے متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر تمصادم نہیں اور وہ چیز اپنے اندر وصف استحسان رکھتی ہے تو اسی ممنوع و ناجائز کہنا حدیث پاک کا صریح رد ہے۔
حضور اقدسﷺ فرماتے ہیں:
1۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ،
2۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ سئیئۃ فلہ وزرہاووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ
(مشکوٰۃ شریف، ص ۳۵، مجلس برکات)
’’سیرت حلبیہ‘‘ میں ہے
’’خلاصہ بدعت حسنہ کا مندوب و مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔ عید میلاد النبیﷺ منانا اور اس کے لئے لوگوں کا اکھٹا ہونا اچھی ایجاد ہے‘‘
(جلد۱، ص ۱۳۷)
سخت افسوس کی بات ہے کہ ابن تیمیہ اور فاکہانی کی اتباع و پیروی میں وہابیہ و دیابنہ عید میلادالنبیﷺ کو غیر شرعی ایجاد بتاتے ہیں جیسا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی مفتی نے عیدمیلاد النبیﷺ کے تعلق سے اپنے فتوے میں اپنے دل کا بغض اتارا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ اس نام نہاد مفتی نے قرآن و حدیث کے نصوص کو نہیں سمجھا، فقہاء و محدثین اور معتمد سیرت نگاروں کی واضح و غیر مبہم درجنوں عبارتوں سے صرف نظر کیا جن سے عید میلاد النبیﷺ کا جواز و استحسان و باعث خیر وبرکت ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس وہابی مفتی نے اپنے خود ساختہ ضابطے سے محدثین کرام و فقہائے عظام کی نئی ایجادات پر کاری ضرب لگائی۔ یہ وہابی مفتی قرآن و حدیث و شریعت مطہرہ کا پیروکار نہیں بلکہ ابن تیمیہ، فاکہانی، محمد بن عبدالوہاب نجدی، اسماعیل دہلوی جیسے گروہ وہابیہ کی اتباع کرنے والا ہے۔ اگر اس وہابیائی ضابطے کو مان لیا جائے جو استفتے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے حوالے سے درج ہے تو پھر شریعت سے امان اٹھ جائے گا۔ کیا کوئی وہابی دیوبندی مفتی اپنے بیان کردہ ضابطے کے مطابق یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ:
1۔ قرآن کریم میں اعراب و نقطے کا اضافہ بدعت سئیہ اور حرام ہے؟ جبکہ خاص کتاب اﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہد رسالت میں ہوا، نہ عہد صحابہ میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین میں ہوا۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں۔
2۔ مسجدوں میں محراب و مینار کا بنانا ناجائز و حرام ہے؟ جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہد رسالت میں ہوئی نہ عہد صحابہ میں، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی شریف کی تعمیر جدید میں محراب بھی بنوایا، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا۔
3۔ خطبے میں عمین کریمین کے ناموں کا اضافہ بدعت و گناہ ہے؟ جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے؟ کس نے شامل کئے؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے۔
4۔ بیس رکعت نماز تراویح باجماعت پڑھنا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایجاد، بدعت و گناہ ہے؟
5۔جمعہ کے دن اذان اول کا اضافہ بدعت سئیہ ہے؟ جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کی۔
6۔ تثویب (اذان کے بعد جماعت سے قبل صلوٰۃ پکارنا) بدعت و حرام ہے؟ جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے۔
فقہ حنفی کی عام کتابوں میں ہے: ’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں، کیا دارالعلوم دیوبند کا جشن صد سالہ منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا؟ اس مفتی سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشن صد سالہ کرسچن کی ایجاد ہے؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے؟ تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا؟ خاص نماز میں وہابی دیوبندی لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم نے اقامت نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبر الصوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے؟ حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں، وہابی اصول پر یہ تمام بری بدعتیں اور ضلالت ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں۔ اگر وہابیوں کے اعتقاد و عمل، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکار دوعالمﷺ کی ولادت مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی‘‘
غور فرمایئے کہ ایک روایت کے مطابق ۳۷۷ھ میں عید میلاد النبیﷺ کی موجودہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ ایجاد ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ۵۵۰ھ میں ہوئی، وہابیوں دیوبندیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی پیدائش ۶۶۱ھ ہے۔
پہلی روایت کی رو سے ایجاد میلاد اور ابن تیمیہ کے درمیان ۲۸۴ بلکہ اس سے زائد کا زمانہ ہے، اور دوسری روایت کے مطابق ۱۱۱ (ایک سو گیارہ سال) سے بھی زائد کا عرصہ گزرا ہے، مگر پورے عالم اسلام میں ابن تیمیہ سے پہلے کسی نے بھی عید میلاد النبیﷺ کو ناجائز و حرام نہیں کہا، بری بدعت نہیں بتایا، بلکہ تمام علماء فقہائ، محدثین اس کے جائز و مستحسن ہونے کی صراحت فرماتے رہے۔ اب یہ اہل انصاف بتائیں گے کہ جمہور اہل اسلام کے قول و عمل کے بالمقابل پوری ایک صدی یا پونے تین صدی بعد پیدا ہونے والے ابن تیمیہ کی اتباع کی جائے گی؟ ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ سواداعظم، جمہور اہل اسلام کے خلاف ابن تیمیہ کا قول لغو و باطل و مردود ہے اور نبی کریمﷺ سے بغض کی دلیل ہے جبکہ یہود وسعود کے علاوہ پورے عالم اسلام میں رائج عمل جشن عید میلاد النبیﷺ جائز و مستحسن اور باعث خیروبرکت و علامت محبت رسولﷺ ہے۔
واﷲ تعالیٰ اعلم
Sunday, September 14, 2014
قوالی کی شرعی حیثیت
قوالی کی شرعی حیثیت
آج کل بزگانِ دین کے مزار ات پر ان کے عرس کا نام لے کر خوب موج مستیاں ہو رہی ہیں ۔ بد معاش ، بد کردار لوگ اپنی رنگیلیوں ، باجوں تماشوں ، عورتوں کی چھیڑ چھاڑ کے مزے اٹھانے کے لئے اللہ والوں کے مزاروں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ کاش !یہ لوگ موج مستیاں ، ڈھول باجے ، مزامیر کے ساتھ قوالیاں مزارات سے الگ کرتے اور عرس کا نام نہ لیتے تو کم از کم اسلام اور اسلام کے بزرگ بدنام نہ ہوتے ۔ آج کفار مشرکین یہ کہنے لگے ہیں کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ناچ گانوں ، تماشوں ، باجوں اور بے پردہ عورتوں کو اسٹیجوں پر لا کر بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والا مذہب ہے ۔افسوس انھوں نے غلط سمجھا ۔اسلام ہرگز ہرگز ایسا دین نہیں ہے اسلام کا حکم تو یہ ہے کہ ڈھول ، باجے ،سارنگی ، مزامیر وغیرہ آلاتِ موسیقی ، تالیاں ، رقص ، سب حرام ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں :قوالی مع مزامیر چشتیہ سلسلے میں رائج اور جائز ہے ۔ یہ بزرگانِ چشتیہ پر ان کا صریح بہتان ہے بلکہ ان لوگوں نے بھی مزامیر کے ساتھ قوالی سننے کو حرام فرمایا ہے ۔حضرت خواجہ محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءدہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے خاص خلیفہ حضرتِ فخر الدین زرّادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مسئلہ سماع کے متعلق ایک رسالہ لکھوایا جس کا نام ہے : کشف القناع عن اصول السماع ۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ہمار بزرگوں کا سماع مزامیر کے بہتان سے بری ہیں ۔ ( ان کا سماع تو یہ ہے کہ ) صرف قوال کی آواز ان اشعار کے ساتھ ہو جو کمال صنعت الٰہی کی خبر دیتے ہیں قطب الاقتاب حضرت بابا فرید الدین شکر گنج کے مرید اور حضرتِ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ حضرتِ محمد بن مبارک علوی کرمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب ،، سیر الاولیاء،، میں تحریر فرماتے ہیں حضرت خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نےچند شرائط کے ساتھ سماع جائز فرمایا (۱)سنانے والا مرد کامل ہو چھوٹا لڑکا یا عورت نہ ہو ۔(۲) سننے والا یاد خدا سے غافل نہ ہو ۔ (۳) جو کلام پڑھا جائے ، فحش ، بے حیا اور مزاحیہ نہ ہو ۔(۴)آلہ سماع یعنی سارنگی ، مزامیر و رباب سے پاک وہو ،،ان باتوں کے ہوتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ خاندانِ چشتیہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی جائز ہے۔ ہاں !یہ بات وہی لوگ کہیں گے جو نہ چشتی ہیں ، نہ قادری انھیں تو مزے داریا ں اور لطف اندوزیاں چاہئیں ۔ اور اب جب کہ سارے کے سارے قوال بے نمازی اور فاسق و فاجر ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض شرابی تک سننے میں آئے ہیں نیز عورتیں اور امرد لڑکے بھی چل پڑے ہیں ایسے ماحول میں ان قوالیوں کو صرف وہی جائز کہے گا جس کو اسلام و قرآن ، دین و ایمان سے کوئی محبت نہیں ۔ بے حیائی اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئ ہے اور قرآن و حدیث کے فرامین کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے کیا اسی کا نام اسلام پسندی ہےکہ مسلمان عورتوں کو لاکھوں کے مجمع میں لا کر ان سے ڈانس کروائے جائیں ، پھر ان تماشوں کا نام عرس رکھا جائے یہ صرف اور صرف کافروں کے سامنے مسلمانوں اور مذہب کو ذلیل و بدنام کرنے کی سازش ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قوالی اہل کے لئے جائز ہے اور نا اہل کے لئے نا جائز ہے ۔ ایسا کہنے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ آج کل قوالیوں کے سینکڑوں ، ہزاروں کے مجمع میں کیا سب کے سب اہل اللہ اور اصحاب استغراق ہیں ، جنھیں دنیا اور متاع ِ دنیا کا قطعا ہوش نہیں ؟ جنھیں یاد خدا اور ذکر الٰہی سے ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں ؟ خزانے کی نیندوں اور گپوں میں نمازوں کو گنوا دینے والے ، رات دن ننگی فلموں ، گندے گانوں میں مست رہنے والے ، ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور ان کو ستانے والے ، چور چکور، جھوٹے ،فریبی، گرہ کاٹ وغیرہ ؛ کیا یہ سب کے سب تھوڑی دیر کے لئے قوالیوں کی مجلس میں شریک ہو کر اللہ والے ہو جاتے ہیں یا پیر صاحب نے اہل کا بہانہ تلاش کر کے اپنی موج مستیوں کا سامان کر رکھا ہے ؟ کہ پیری بھی ہاتھ سے نہ جائے اور دنیا کی موج مستیوں میں بھی کوئی کمی نہ آئے
Saturday, September 13, 2014
جشنِ عید میلاد النبی ﷺ پر کئے جانے والے اعتراضات کے جوابات
جشنِ عید میلاد النبی ﷺ پر کئے جانے والے اعتراضات کے جوابات
سوال: رسول اﷲﷺ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے محققین میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے یعنی حضور ﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاول ہے ہی نہیں؟
جواب: حضور اکرم نور مجسمﷺ کی تاریخ ولادت میں محققین کا اختلاف ہے مگر جس تاریخ پر جمہور علماء متفق ہیں وہ تاریخ بارہ ربیع الاول ہے چنانچہ علمائے اسلام کی مستند کتب سے دلائل ملاحظہ ہوں۔
(1) دلیل: حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ متوفی 235ھ سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ عفان سے روایت ہے کہ وہ سعید بن مینا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ کی ولادت عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع اول کو ہوئی۔
(بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد دوم صفحہ نمبر 302، بلوغ الامانی شرح الفتح الربانی جلد دوم صفحہ نمبر 189)
(2) دلیل: محدث علامہ ابن جوزی متوفی 597ھ فرماتے ہیں۔ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ حضورﷺ کی ولادت عام الفیل میں پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس کے تاریخ میں اختلاف ہے اور اس بارے میں چار اقوال ہیں چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ولادت باسعادت ہوئی۔ (بحوالہ: صفۃ الصفوہ جلد اول صفحہ نمبر 22)
(3) دلیل: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ اور ابن عباس رضی اﷲ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور سید عالمﷺ عام الفیل روز دوشنبہ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور اسی روز آپﷺ کی بعثت ہوئی۔ اسی روز معراج ہوئی اور اسی روز ہجرت کی اور جمہور اہل اسلام کے نزدیک یہی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہے۔ (بحوالہ: سیرت ابن کثیر جلد اول صفحہ نمبر 199)
(4) دلیل: امام ابن جریر طبری علیہ الرحمہ جوکہ مورخ ہیں، اپنی کتاب تاریخ طبری جلد دوم صفحہ نمبر 125 پر فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی ولادت پیر کے دن ربیع الاول شریف کی بارہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔
(5) دلیل: علامہ امام شہاب الدین قسطلانی شافعی شارح بخاری علیہ الرحمہ (متوفی 923ھ) فرماتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بارہ ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور اسی پر اہل مکہ ولادت کے وقت اس جگہ کی زیارت کرتے ہیں اور مشہور یہ ہے کہ آپﷺ بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے اور یہ ابن اسحق کا قول ہے (بحوالہ: المواہب اللدینہ مع زرقانی جلد اول صفحہ نمبر 247)
(6) دلیل: علامہ امام محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی علیہ الرحمہ (متوفی 1122ھ) فرماتے ہیں (ربیع الاول ولادت) کا قول محمد بن اسحق بن یسار امام الغازی کا ہے اور اس کے علاوہ کا قول بھی ہے کہ ابن کثیر نے کہا۔ یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے۔ امام ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، اسی پر عمل ہے۔ (بحوالہ: زرقانی شریف شرح مواہب جلد اول صفحہ نمبر 248)
(7) دلیل: علامہ امام نور الدین حلبی علیہ الرحمہ (متوفی 624ھ) فرماتے ہیں۔ تاجدار کائناتﷺ کی ولادت بارہ ربیع الاول شریف کو ہوئی اس پر اجماع ہے اور اب اسی پر عمل ہے شہروں میں خصوصا اہل مکہ اسی دن حضورﷺ کی ولادت کی جگہ پر زیارت کے لئے آتے ہیں (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول صفحہ نمبر 57)
(8) دلیل: علامہ امام قسطلانی وفاضل زرقانی رحمہم اﷲ فرماتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ حضور پرنورﷺ بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے۔ امام المغازی محمد بن اسحق وغیرہ کا یہی قول ہے۔
(9) دلیل: علامہ ابن خلدون علیہ الرحمہ جو علم تاریخ اور فلسفہ تاریخ میں امام تسلیم کئے جاتے ہیں بلکہ فلسفہ تاریخ کے موجد بھی یہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں حضورﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل کو ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔ نوشیرواں کی حکمرانی کا چالیسواں سال تھا (بحوالہ: تاریخ ابن خلدون صفحہ نمبر 710 جلد دوم)
(10) دلیل: مشہور سیرت نگار علامہ ابن ہشام (متوفی213ھ) عالم اسلام کے سب سے پہلے سیرت نگار امام محمد بن اسحق سے اپنی السیرۃ النبوۃ میں رقم طراز ہیں۔ حضور اکرم نور مجسمﷺ سوموار بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (السیرۃ النبوۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ نمبر 171)
(11) دلیل: علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی فرماتے ہیں۔ واقعہ اصحاب فیل کے پچاس روز بعد اور آپ کے والد کے انتقال کے بعد حضورﷺ بروز سوموار بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے (بحوالہ: اعلام النبوۃ صفحہ نمبر 192)
(12) دلیل: امام الحافظ ابوالفتح محمد بن محمد بن عبداﷲ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔ ہمارے آقا و مولیٰﷺ سوموار کے روز بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (بحوالہ: عیون الاثر جلد اول صفحہ نمبر 26)
(13) دلیل: گیارہویں صدی کے مجدد شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ جمہور اہل سیر وتواریخ کی یہ رائے ہے کہ حضورﷺ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور یہ واقعہ فیل کے چالیس روز یا پچپن روز بعد اور یہ دوسرا قول سب اقوال سے زیادہ صحیح ہے۔ مشہور یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور بارہ تاریخ تھی۔ بعض علماء نے اس قول پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے۔ یعنی سب علماء اس پر متفق ہیں (بحوالہ: مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ 15)
(14) دلیل: امام محمد ابوزہرہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علماء روایت کی ایک عظیم کثرت اس بات پر متفق ہے کہ یوم میلاد عام الفیل ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہے (بحوالہ: خاتم النبیین جلد اول صفحہ نمبر 115)
(15) دلیل: چودھویں صدی کے مجدد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا۔ اس میں اقوال بہت مختلف ہیں۔ دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس سات قول ہیں مگر اشہر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔ کمافی المواہب والمدارج (جیسا کہ مواہب اللدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے) اور خاص اس مکان جنت نشان میں اس تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے (فتاویٰ رضویہ
(16) دلیل: دور حاضر کے سیرت نگار محمد الصادق ابراہیم عرجون، جو جامعہ ازہر مصر کے کلیۃ اصول الدین کے عمید رہے ہیں، اپنی کتاب ’’محمد رسول اﷲ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ کثیر التعداد ذرائع سے یہ بات صیح ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اکرمﷺ بروز دوشنبہ بارہ ربیع الاول عام الفیل کسریٰ نوشیروان کے عہد حکومت میں تولد ہوئے اور ان علماء کے نزدیک جو مختلف سمتوں کی آپس میں تطبیق کرتے ہیں۔ انہوں نے عیسوی تاریخ میں 20 اگست 570ھ بیان کی ہے (بحوالہ: محمد رسول اﷲ جلد اول صفحہ نمبر 102)
سوال: رحمت کائنات ﷺ کی ظاہری حیات میں ربیع الاول کا مہینہ کم و بیش 63 مرتبہ آیا۔ کس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے اپنی ولادت کا دن منایا؟
جواب: سب سے پہلے میلاد کا لغوی معنی اور اصطلاحی معنی ملاحظہ فرمائیں:
لفظ میلاد کی لغوی تحقیق
میلاد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’ولد (و۔ل۔د)‘‘ ہے۔ میلاد عام طور پر اس وقت ولادت کے معنوں میں مستعمل ہے۔ میلاد اسم ظرف زمان ہے۔ قرآن مجید میں مادہ ولد کل 93 مرتبہ آیا ہے اور کلمہ مولود 3 مرتبہ آیا ہے۔
(المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ص 764-763)
احادیث نبویﷺ میں لفظ میلاد و مولد کا استعمال
احادیث نبویﷺ میں مادہ ولد (و۔ل۔د) بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی میں موجود ہے
(المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الجز السابع ص 320-308)
اردو میں لفظ میلاد
نور اللغات میں لفظ میلاد مولود۔ مولد کہ یہ معنی درج کئے گئے ہیں
1: میلاد ۔۔۔ پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت
2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبر کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
اصطلاحی مفہوم
میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔ حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ’’حضور اکرم نور مجسم محمدﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺ کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺ ہے۔
(سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ء (جلد دوم) ص 445)
قرآن مجید سے جشن ولادت منانے کے دلائل
* اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ (سورۂ تکاثر، پارہ 30 رکوع 18)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (پ 13رکوع 17)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’اﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران آیت 164)
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔
* قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ اﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 58)
لیجئے! اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ (پارہ 17 رکوع 7)
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔
احادیث مبارکہ سے جشن منانے کے دلائل
* اپنی آمد کا جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)
نبی کے غلامو! خوش ہوجاؤ اور خوشی سے اپنے نبی کی آمد کا جشن منایا کرو کیونکہ یہ جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبیﷺ کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبیﷺ نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی علیہ السلام کے غلام اپنے آقا کا جشن نہ منائیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کرکے، کوئی نعت پڑھ کر، کوئی درود شریف پڑھ کر، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقاﷺ کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا کی ولادت کا جشن مناتاہے۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقاﷺ کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے۔ پس جو شخص نبیﷺ کو مانتا ہے تو وہ سنت نبویﷺ سمجھ کر اپنے آقا کی ولادت کاجشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا۔
* نبی اکرمﷺ کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ (بخاری شریف جلد 2ص 764)
اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے؟
(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی اکرمﷺ کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیاہے۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے‘‘ (تذکرہ میلاد رسول ص 18)
(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:
’’میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرتﷺ کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے‘‘ (مدارج النبوۃ دوم ص 26)
(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:
’’جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریمﷺ کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا۔ جو حضورﷺ کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو۔ مجھے اپنی جان کی قسم اﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)
(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲعلیہ کا فرمان مبارک:
’’جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپﷺ کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپﷺ کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپﷺ کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے‘‘ (بیان المولد النبوی ص 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول ص 23)
ان محدثین کرام اور اسلاف کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲﷺ کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول اﷲﷺ کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا۔ سبحان اﷲ
سوال: جشن ولادت کو ’’عید‘‘ کیوں کہتے ہو۔ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی، یہ تیسری عید، عید میلاد النبی کہاں سے آگئی؟
جواب: اصل میں آپ لوگ ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیاہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔
عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ
ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں‘‘ اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے جیسا کہ اﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لئے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو‘‘
علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں
1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو
2: جس میں اﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو۔
3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔
الحمدﷲ عزوجل جل علی احسانہ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریمﷺ کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے۔
آپﷺ جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لئے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبیﷺ کا نام دیں اور عید منائیں۔
کہتے ہیں کہ ’’کسی معتبر کتاب میں یوم میلاد کو عید نہیں لکھا گیا‘‘ فی الوقت میرے پاس موجود کتاب کے اعتبار کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کے لئے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب لدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں۔
* جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ * جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند * جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند * جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند * جناب محمد انور معلم، دارالعلوم دیوبند
اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت ﷺ کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے۔ معتبر کتاب سے مطلوبہ لفظ ’’عید‘‘ ملاحظہ فرمالیا۔ اگر امام قسطلانی کی تحریر سے اتفاق نہیں تو مذکورہ علمائے دیوبند کو ملامت کیجئے جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اور اس کے ترجمہ کو بہت بڑی نیکی لکھا ہے۔
سوال: صحابہ کرام علیہم الرضوان جو آپﷺ سے مثالی اور بے لوث محبت کرتے تھے۔ آپﷺ کے وصال کے بعد کبھی جشن عید میلاد النبی منایا؟
جواب: جی ہاں! صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرنورﷺ کا میلاد منایا اور سرور کونینﷺ کے سامنے منعقد کیا۔ میرے رسولﷺ نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا۔
جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ بارگاہ رسالتﷺ میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔
حدیث: سرکارﷺ خود حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکارﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعارپڑھیں۔ سرکارﷺ حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے فرماتے اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (بحوالہ: بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 65)
حدیث: حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکارﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کوحضورﷺ کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سرکارﷺ نے اس وقت فرمایا اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے اس کو نجات ملے گی۔ (بحوالہ رضیہ التنویر فی مولد سراج المنیر)
میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے جو ہم نے دو حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ آپ لوگ میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر دکھادو، جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے۔ حالانکہ کئی ایسے کام ہیں جوصحابہ کرام نے نہیں کئے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے لہذا وہ کام جائز ہیں۔
سوال: کیا علمائے امت کے اقوال و افعال سے جشن عیدمیلاد النبیﷺ کا ثبوت ملتا ہے؟
جواب: اس امت کے بڑے بڑے مفتیان کرام، علماء کرام، مفسرین، محدثین، شارحین اور فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب لکھا ہے، چنانچہ علمائے امت کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
1۔ حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ (المتوفی 150ھ) آپ رحمتہ اﷲ علیہ کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی دینی خدمات اس قدر ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان ان شاء اﷲ عزوجل تا قیامت کے علم سے مستفید رہیں گے۔ آپ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنے ’’قصیدہ نعمانیہ‘‘ میں حضور نبی اکرمﷺ کا میلاد شریف یوں بیان کرتے ہیں:
یعنی! ’’آپﷺ ہی وہ ہیں کہ اگر آپﷺ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا اور آپ پیدا نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ پیدا کیا جاتا۔ آپﷺ وہ ہیں جن کے نور سے چودھویں کا چاند منور ہے اور آپﷺ ہی کے نور سے یہ سورج روشن ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام آپ کی خوشخبری سنانے آئے اور آپﷺ کے حسن صفات کی خبر لے کر آئے‘‘ (قصیدۂ نعمانیہ، صفحہ 196، 195ء)
2۔ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ (المتوفی 204ھ) آپ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میلاد شریف منانے والا صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا‘‘ (النعمتہ الکبریٰ بحوالہ ’’برکات میلاد شریف‘‘ ص 6)
3۔ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (المتوفی 241ھ) آپ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں ’’شب جمعہ، شب قدر سے افضل ہے کیونکہ جمعہ کی رات سرکار علیہ السلام کا وہ نور پاک اپنی والدہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے مبارک رحم میں منتقل ہوا جو دنیا و آخرت میں ایسی برکات و خیرات کا سبب ہے جوکسی گنتی و شمار میں نہیں آسکتا‘‘ (اشعتہ اللمعات)
4۔ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (المتوفی 606ھ) فرماتے ہیں کہ ’’جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا۔ اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا تو ایسا شخص برکت نبوی سے محتاج نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا ہاتھ خالی رہے گا‘‘ (النعمتہ الکبری، بحوالہ برکات میلاد شریف ص 5)
5۔ حضرت امام سبکی رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 756ھ) آپ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے ’’قصیدہ تائیہ‘‘ کے آخر میں حضور نبی کریمﷺ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔
ترجمہ ’’میں قسم اٹھاتا ہوں کہ اگر تمام دریا و سمندر میری سیاہی ہوتے اور درخت میرا قلم ہوتے اور میں آپﷺ کی عمر بھر نشانیاں لکھتا تو ان کا دسواں حصہ بھی نہ لکھ پاتا کیونکہ آپ کی آیات و صفات ان چمکتے ستاروں سے بھی کہیں زیادہ ہیں‘‘ (نثرالدرر علی مولد ابن حجر، ص 75)
6۔ حافظ ابن کثیر (المتوفی 774ھ) فرماتے ہیں ’’رسول اﷲﷺ کی ولادت کی شب اہل ایمان کے لئے بڑی شرافت، عظمت، برکت اور سعادت کی شب ہے۔ یہ رات پاکی ونظافت رکھنے والی، انوار کو ظاہر کرنے والی، جلیل القدر رات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس رات میں وہ محفوظ پوشیدہ جوہر ظاہر فرمایا جس کے انوار کبھی ختم ہونے والے نہیں‘‘ (مولد رسولﷺ، صفحہ 262)
7۔ امام حافظ بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 852ھ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ’’میرے لئے اس (محفل میلاد) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے:
ترجمہ ’’حضور نبی کریمﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے، جس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004،
ص 321)
(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، ص 462)
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی معین دن میں احسان فرمانے پر عملی طور پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ پھر فرماتے ہیں حضور سرور کائنات نبی رحمتﷺ کی تشریف آوری سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے (نثرالدر علی مولد ابن حجر، ص 47)
8۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (المتوفی 911ھ) آپ فرماتے ہیں کہ میلاد النبیﷺ کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی یہ تقریب سعید (مروجہ محافل میلاد) بدعت حسنہ ہے جس کا اہتمام کرنے والے کو ثواب ملے گا۔ اس لئے کہ اس میں حضور نبی کریمﷺ کی تعظیم، شان اور آپ کی ولادت باسعادت پر فرحت و مسرت کا اظہار پایا جاتا ہے (حسن المقصد فی عمل المولد، ص 173)
9۔ امام ملا علی قاری علیہ رحمتہ الباری (المتوفی 1014ھ) آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’جب میں ظاہری دعوت وضیافت سے عاجز ہوا تو یہ اوراق میں نے لکھ دیئے تاکہ یہ معنوی ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ رہے، سال کے کسی مہینے سے مختص نہ ہو اور میں نے اس کا نام ’’الموردالروی فی مولد النبیﷺ‘‘ رکھا ہے (المورد الروی ص 34)
10۔ حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’ہمیشہ مسلمان ولادت پاک کے مہینے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں اور اس ماہ کی راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، نیکی زیادہ کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں‘‘ (انوار محمدیہ ص 29)
11۔ مفتی مکہ مکرمہ حضرت سید احمد زینی شافعی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’میلاد شریف کرنا اور لوگوں کا اس میں جمع ہونا بہت اچھا ہے‘‘ (سیرۃ نبوی ص 45)
ایک اور جگہ حضور مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں ’’محافل میلاد اور افکار اور اذکار جو ہمارے ہاں کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بھلائی پر مشتمل ہیں جیسے صدقہ ذکر، صلوٰۃ و سلام، رسول خداﷺ پر اور آپ کی مدح پر‘‘ (فتاویٰ حدیثیہ ص 129)
12۔ محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’یہ عمل حسن (محفل میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں‘‘ (المیلاد النبوی ص 35-34)
13۔ استاد مسجد حرام مکہ مکرمہ شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’حضورﷺ اپنی میلاد شریف کے دن کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اسے بہت بڑا اور عظیم واقعہ قرار دیتے ہیں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے کہ یہ آپ کے لئے بہت بڑا انعام و اکرام و نعمت ہے۔ نیز اس لئے کہ تمام کائنات پر آپ کے وجود مسعود کو فضیلت حاصل ہے‘‘ (حوال الامتفال بالمولد النبوی شریف ص 9,8)
14۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی فرماتے ہیں ’’حضورﷺ کے پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں۔ اور ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے اور سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)
15۔ حضرت امام ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ کے پوتے فرماتے ہیں ’’مجھے لوگوں نے بتایا کہ جو ملک مظفر (بادشاہ وقت) کے دسترخوان پر میلاد شریف کے موقع پر حاضر ہوئے کہ اس کے دسترخوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر، دس ہزار مرغ، ایک لاکھ پیالی مکھن کی اور تیس طباق حلوے کئے تھے اور میلاد میں اس کے ہاں مشاہیر علماء اور صوفی حضرات حاضر تھے۔ ان سب کو خلعتیں عطا کرتا تھا۔ اور خوشبودار چیزیں سنگھاتا تھا اور میلاد پاک پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا (سیرۃ النبوی 45)
16۔ حضرت شاہ احمد سعید مجددی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’جس طرح آپ خود اپنی ذات پر درود وسلام بھیجا کرتے تھے، ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں (ان کے) ذریعے شکر بجالائیں‘‘ (اثبات المولد والقیام ص 24)
17۔ پیران پیر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو سرکار دوعالمﷺ کے حضور نذرونیاز پیش فرماتے تھے (قرۃ الناظر ص 11)
18۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم رحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ میں عید میلاد النبیﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگدست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو سرکار دوعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں‘‘ (درثمین ص 8)
19۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے (الدرالمنظم ص 89)
20۔ مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ 12 ربیع الاول کو ہر سال بڑے تزک احتشام سے محفل میلاد منعقد کراتے، جو نماز عشاء سے نماز فجر تک جاری رہتی پھر کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا جاتا اور مٹھائی تقسیم ہوتی، کھانا کھلایا جاتا (تذکرہ مظہر مسعود ص 176)
علامہ ابن جوزی مولد العروس کے ص 9 پر فرماتے ہیں:
وجعل لمن فرح بمولدہ حجابا من النار و سترا، ومن انفق فی مولدہ درہما کان المصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم لہ شافعا ومشفعا
(اور جو پیارے مصطفیﷺ کے میلاد شریف کی خوشی کرے، وہ خوشی، دوزخ کی آگ کے لئے پردہ بن جائے اور جو میلاد رسول اﷲﷺ میں ایک درہم بھی خرچ کرے، حضورﷺ اس کی شفاعت فرمائیں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہوگی)
اور ص 28پر محدث ابن جوزی یہ اشعار لکھتے ہیں
یا مولد المختار کم لک من ثنا۔۔۔ ومدائح تعلو وذکر یحمد
یالیت طول الدھر عندی ذکرہ۔۔۔ یالیت طول الدھر عندی مولد
(اے میلاد رسولﷺ تیرے لئے بہت ہی تعریف ہے اور تعریف بھی ایسی جو بہت اعلیٰ اور ذکر ایسا جو بہت ہی اچھا ہے۔ اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس نبی پاکﷺ کا تذکرہ ہوتا، اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس ان کا میلاد شریف بیان ہوتا)
اور ص 6 پر یہ شعر لکھتے ہیں
فلوانا عملنا کل یوم۔۔۔ لاحمد مولدا فدکان واجب
(اگر ہم رسول کریمﷺ کا روزانہ میلاد شریف منائیں تو بلاشبہ یہ ہمارے لئے واجب ہے)
23۔محدث ابن جوزی اپنے رسالہ المولد کے آخر میں لکھتے ہیں
اہل حرمین شریفین اور مصرویمن اور شام اور عرب کے مشرق ومغربی شہروں کے لوگ نبیﷺ کے میلاد کی محفلیں کرتے ہیں، ربیع الاول کا چاند دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں، غسل کرکے اچھے کپڑے پہنتے ہیں طرح طرح کی زینت کرتے ہیں اور خوشبو لگاتے ہیں اور نہایت خوشی سے فقراء پر صدقہ خیرات کرتے ہیں اور نبیﷺ کے میلاد شریف کا ذکر سننے کے لئے اہتمام بلیغ کرتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے سے بے پناہ اجر اور عظیم کامیابی پہنچتی ہے جیسا کہ تجربہ ہوچکا کہ نبیﷺ کے میلاد شریف منانے کی برکت سے اس سال میں خیروبرکت کی کثرت، سلامتی و عافیت، رزق میں کشادگی، اولاد میں مال میں زیادتی اور شہروں میں امن اور گھروں میں سکون و قرار پایا جاتا ہے (الدرالمنظم ص 101-100)
24۔ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ایشاں فرموند کہ دوازدہم ربیع الاول‘‘ بہ حسب دستور قدیم ’’قرآن واندم و چیزے نیاز آں حضرتﷺ قسمت کردم وزیارت موئے شریف نمودم، در اثنائے تلاوت ملاء اعلیٰ حاضر شدند وروح پرفتوح آن حضرتﷺ بہ جانب ایں فقیر و دست واران ایں فقیر بہ غایت التفات فرموداراں ساعت کہ ملاء اعلیٰ و جماعت مسلمین کہ بافقیر بود بہ ناز ونیائش صعودی کنندہ برکات ونفحات ازاں حال نزول می فرماید‘‘ (ص 74، القول الجلی)
(حضرت شاہ ولی اﷲ نے فرمایا کہ قدیم طریقہ کے موافق بارہ ربیع الاول (یوم میلاد مصطفیﷺ) کو میں نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور آنحضرتﷺ کی نیاز کی چیز کھانا وغیرہ) تقسیم کی اور آپﷺ کے بال مبارک کی زیارت کروائی۔ تلاوت کے دوران (مقرب فرشتے) ملاء اعلیٰ (محفل میلاد میں) آئے اور رسول اﷲﷺ کی روح مبارک نے اس فقیر (شاہ ولی اﷲ) اور میرے دوستوں پر نہایت التفات فرمائی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ملاء اعلیٰ (مقرب فرشتے) اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت (التفات نبویﷺ کی برکت سے) ناز ونیائش کے ساتھ بلند ہورہی ہے اور (محفل میلاد میں) اس کیفیت کی برکات نازل ہورہی ہیں)
فیوض الحرمین میں حضرت شاہ ولی اﷲ نے مکہ مکرمہ میں مولد رسولﷺ میں اہل مکہ کا میلاد شریف منانا اور انوار وبرکات منانے کی برکتیں پانے کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی کی اپنی زبان سے ملاحظہ کرنے کے بعد خود کو ولی اللہی افکار و نظریات کے پیروکار کہلانے والے مزید ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ الدلائل مولانا شیخ عبدالحق محدث الہ آبادی نے میلاد و قیام کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا نام ’’الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم‘‘ﷺ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں علمائے دیوبند کے پیرحضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی فرماتے ہیں:
’’مولف علامہ جامع الشریعہ والطریقہ نے جو کچھ رسالہ الدر المنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم میں تحریر کیا، وہ عین صواب ہے، فقیر کا بھی یہی اعتقاد ہے اور اکثر مشائخ عظام کو اسی طریقہ پر پایا، خداوند تعالیٰ مولف کے علم و عمل میں برکت زیادہ عطا فرماوے‘‘ (الدرالمنظم ص 146)
یہ کتاب ’’الدرالمنظم‘‘ علمائے دیوبند کی مصدقہ ہے۔ جناب محمد رحمت اﷲ مہاجر مکی، جناب سید حمزہ شاگرد جناب رشید احمد گنگوہی، جناب عبداﷲ انصاری داماد جناب محمد قاسم نانوتوی، جناب محمد جمیل الرحمن خان ابن جناب عبدالرحیم خان علمائے دیوبند کی تعریف وتقاریظ اس کتاب میں شامل ہیں۔ جناب محمد قاسم نانوتوی کے داماد نے اپنی تحریر میں جناب احمد علی محدث، جناب عنایت احمد، جناب عبدالحئی، جناب محمد لطف اﷲ، جناب ارشاد حسین، جناب محمد ملا نواب، جناب محمد یعقوب مدرس، اکابر علمائے دیوبند کا محافل میلاد میں شریف ہونا، سلام وقیام اور مہتمم مدرسہ دیوبند حاجی سید محمد عابد کا اپنے گھر میں محفل میلاد کروانے کا تذکرہ کیا اور جناب محمد قاسم نانوتوی کے لئے اپنی اور پیر جی واجد علی صاحب کی گواہی دی ہے کہ نانوتوی صاحب محفل میلاد میں شریک ہوتے تھے۔
الدر المنظم کتاب کا ساتواں باب ان اعتراضات کے جواب میں ہے جو میلاد شریف کے مخالفین کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں۔ جی تو میرا یہی چاہتا ہے کہ یہ باب پورا ہی نقل کردوں تاہم مولانا عبدالحق محدث الہ آبادی نے اپنی کتاب کے ساتویں باب میں جن اہل علم ہستیوں کی تحریروں سے میلاد شریف کا جواز (جائز ہونا)پیش کیا ہے، ان تمام کے نام اور ان کی کتابوں کے نام اسی ترتیب سے نقل کررہا ہوں جس ترتیب سے مولانا عبدالحق نے نقل کئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
1۔ مولانا محمد سلامت اﷲ مصنف اشباع الکلام فی اثبات المولد والقیام
2۔ امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسمٰعیل المعروف ابی شامہ، المصنف الباعث علی انکار البدع والحوادث
3۔ علامہ محمد بن یوسف شامی، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد (سیرۃ شامی)
4۔ علامہ امام جلال الدین سیوطی، مصباح الزجاجہ علی سنن ابن ماجہ، الرسالہ حسن المقصد فی عمل المولد
5۔ امام حافظ ابو الخیر شمس الدین الجزری، عرف التعریف بالمولد الشریف
6۔ شیخ ابوالخطاب بن عمر بن حسن کلبی المعروف ابن وجیہ اندلسی، سماہ التنویر فی مولد البشیر النذیر
7۔ امام ناصر الدین المبارک المعروف ابن بطاح، فی فتویٰ
8۔ امام جمال الدین بن عبدالرحمن بن عبدالملک
9۔ امام ظہیر الدین بن جعفر
10۔ علامہ شیخ نصیر الدین طیالسی
11۔ امام صدر الدین موہوب بن عمر الشافعی
12۔ امام محدث ابن جوزی، المولد العروس، المیلاد النبوی
13۔ امام ملا علی قاری حنفی، المورد الروی فی موالد النبوی
14۔ امام شمس الدین سخاوی
15۔ علامہ شیخ شاہ عبدالحق محدث دہلوی، ماثبت من السنہ ومدارج النبوۃ
16۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، الدر الثمین، فیوض الحرمین، الانبتاہ
17۔ شاہ اسماعیل دہلوی فی فتویٰ
18۔ علامہ شاہ محمد اسحق، فی فتویٰ
19۔ علامہ جمال الدین مرزا احسن علی لکھنؤی فی فتویٰ
20۔ مفتی محمد سعد اﷲ فی فتویٰ
21۔ علامہ شیخ جمال الفتنی حفنی، مفتی مکہ فی فتویٰ
22۔ علامہ شہاب الدین خفاجی، رسالہ عمل المولد
23۔ علامہ عبدالرحمن سراج بن عبداﷲ حنفی، مفتی مکہ فی فتویٰ
24۔ علامہ ابوبکر حجی بسیونی مالکی، مکہ فی فتویٰ
25۔ علامہ محمد رحمتہ اﷲ مفتی مکہ فی فتویٰ
26۔ علامہ محمد سعید بن محمد باصیل شافعی، مفتی مکہ فی فتویٰ
27۔ علامہ خلف بن ابراہیم حنبلی، مفتی مکہ فی فتویٰ
28۔ شاہ عبدالغنی نقشبندی فی فتویٰ
29۔ علامہ حافظ شمس الدین ابن ناصر الدین الد مشقی، مورد الصاوی فی مولد الہادی، جامع الاسرار فی مولد النبی المختار، اللفظ الرائق
30۔ علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی، شرح مواہب لدنیہ
31۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی، فی فتویٰ
32۔ شاہ رفیع الدین دہلوی، فی فتویٰ
33۔ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی،مکتوبات
34۔ مولانا محمد مظہر، مقامات سعیدیہ
35۔ مولانا کرامت علی جون پوری، رسالتہ الفیصلہ
36۔ امام بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح بخاری
کتاب المدرالمنظم کا ساتواں باب ص 93 سے شروع ہوکر ص 136 تک چالیس صفحات کی ضخامت میں سمایا ہوا ہے۔ اہل علم شخصیات کے ناموں کی مذکورہ فہرست میں ان ہستیوں اور کتابوں کے نام نہیں لکھے گئے جن کی تحریروں سے دلائل کو ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا گیا ہے۔
اب آپ کے سامنے غیر مقلدین اہلحدیث فرقے کے پیشوا نواب صدیق حسن خان کی کتاب کا عکس پیش کرتے ہیں جنہوں نے میلاد کی برکات کا اقرار کیا
سوال: اگر انبیاء کرام کی تاریخ ولادت پر ہر سال جشن منانا جائز تھا، تو کیا آپﷺ نے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام یا کسی دوسرے نبی کایوم ولادت منایا؟
جواب: جی ہاں! سرور کونینﷺ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا یوم ولادت بھی منایا اور ان کی یاد بھی منائی اور صحابہ کرام کو بھی تعلیم دی
حدیث: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب سرکار اعظمﷺ مدینہ شریف تشریف لائے۔ یہود کو آپﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا ہم اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں (غور فرمائیں! حضورﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے صحابہ گواہ ہوجاؤ! ہم کبھی عاشورہ کا روزہ نہیں رکھیں گے کیونکہ یہ روزہ یہودیوں کا شعار بن گیا ہے بلکہ اس پر سرکار اعظمﷺ نے فرمایا) ہم تم سے موسیٰ کے زیادہ چاہنے والے ہیں پھر آپ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔( سرکار اعظمﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خوشی منائی)
(بحوالہ: بخاری شریف، جلد دوم، کتاب المناقب، رقم الحدیث 1126، ص 537، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)
الحدیث: ابوالاشعت صنعانی نے حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا تمہارے تمام دنوں میں جمعہ کا روز سب سے افضل ہے کہ اسی میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میں سب بے ہوش ہوں گے۔ پس اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲﷺ اس وقت بھلا ہمارا درود پڑھنا کس طرح پیش ہوگا جبکہ آپﷺ انتقال کرچکے ہوں گے؟ فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے جسم کو زمین پر حرام فرمادیا ہے۔ (ابو داؤد جلد اول، کتاب الصلوٰۃ، رقم الحدیث 1034، ص 399، مطبوعہ فرید بک لاہور)
حدیث: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلام کوپیدا کیا گیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
ہم ہر جمعہ حضرت آدم علیہ السلام کا میلاد مناتے ہیں کیونکہ سرکار اعظمﷺ نے فرمایا ہے۔
حدیث: سرکار اعظمﷺ شب معراج جب براق پر تشریف رکھ کر جانے لگے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بیت اللحم پر آپ سے عرض کرتے ہیں کہ یہاں اتر کردو رکعت نما زپڑھئے کیونکہ یہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت گاہ ہے (بحوالہ، نسائی ،طبرانی)
جب مقام ولادت انبیاء کی زیارت اور نماز پڑھنا سنت ہے تو پھر یوم ولادت منانا کتنا افضل ہوگا۔
سرکار اعظمﷺ نے خود میلاد منایا
حدیث: حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالتﷺ میں عرض کی گئی یارسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی (بحوالہ صحیح مسلم)
حدیث: بیہقی اور طبرانی شریف میں ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے اعلان نبوت کے بعد ایک موقع پر بکرے ذبح کرکے دعوت کی۔ اس حدیث کے معنی لوگ یہ لینے لگے کہ سرکار اعظمﷺ نے اپنا عقیقہ فرمایا، اس کا جواب امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ دیتے ہیں۔ سرکار اعظمﷺ کا عقیقہ آپ کے دادا عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ نے ساتویں دن کردیا تھا۔ سرکار اعظمﷺ کا بکرے ذبح کرکے دعوت کرنا حقیقت میں اپنا میلاد منانا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ میلاد منانا سنت رسولﷺ ہے۔
جہاں تک مروجہ طریقے سے میلاد منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا، صحابہ کرام اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے۔
سوال: کیا برصغیرپاک و ہند کے محدثین نے کبھی جشن عید میلاد النبیﷺ کا انعقاد کیا؟
جواب: جی ہاں! برصغیر پاک و ہند کے جید محدثین نے بڑے اہتمام کے ساتھ میلاد کا انعقاد کیا اور اس پر فخر بھی کیا۔
گیارہویں صدی کے مجدد حضرت محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی دعا
اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت عاجزی اور انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاکﷺ پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔
اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیروبرکت کا نزول ہوتا ہے، اس لئے ارحم الرحمین! مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ یقیناًتیری بارگاہ میں قبول ہوگا اور جو کوئی درود وسلام پڑھے اور اس کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوگی (بحوالہ: اخبار الاخیار، مصنف، شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اپنے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی کا واقعہ بیان کرتے ہیں
میرے والد ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتے تھے۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہوا، انہوں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو خواب میں حضور سیدعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار اعظمﷺ کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپﷺ بے حد خوش اور مسرور ہیں (بحوالہ: الدرالثمین ص 8)
قارئین کرام! ہم نے آپ کے سامنے برصغیر پاک و ہند کے دو محدثین کے معرکتہ الآراء کتب سے میلاد منانے کا ثبوت پیش کیا۔یہ وہ دو ہستیاں ہیں جن کے ذریعے سے حدیث کی سند ہم برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں تک پہنچی ہے اگر (معاذ اﷲ) میلاد النبیﷺ کا انعقاد بدعت ہے تو پھر یہ دونوں محدث بدعتی ٹھہرے؟ اگر یہ دونوں محدث بدعتی ہیں تو پھر احادیث کاکیا بنے گا؟ لہذا ماننا پڑے گا کہ جشن میلاد النبیﷺ کے موقع پر محافل کا انعقاد بدعت نہیں بلکہ باعث اجروثواب، مستحب اور جائز عمل ہے۔
عیدمیلادالنبیﷺ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی نظر میں
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ (وصال 1052ھ) برصغیر کی وہ عظیم ہستی گزری ہیں کہ جنہیں فن حدیث کے حوالے سے اہل سنت، بلکہ ہر مکتبہ فکر ایک مستند اور قابل اعتماد محدث تسلیم کرتا ہے۔ عید میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ہم آپ کے سامنے انہیں شیخ محدث علیہ الرحمہ کی ایک مشہور عربی کتاب ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’مومن کے ماہ و سال‘‘ سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ جو ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے اس کی تصدیق دیوبند تبلیغی جماعت مکتبہ فکر کے مفتی محمد شفیع صاحب (دارالعلوم کراچی) نے کی ہے۔
نانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی اسی کتاب میں فرماتے ہیں
شب ولادت شب قدر سے افضل ہے
(1) سرور عالمﷺ کی شب ولادت یقیناًشب قدر سے زیادہ افضل ہے کیونکہ شب ولادت آپﷺ کی پیدائش و جلوہ گری کی شب ہے اور شب قدر آپﷺ کو عطا کی ہوئی شب ہے (مومن کے ماہ و سال، صفحہ نمبر 84)
ہر نعمت و رحمت نبی کریمﷺ کے وسیلہ سے
(2) ذات رسالت مآبﷺ کو اﷲ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنایا ہے اور آپﷺ ہی کی ذات والا صفات کے سبب سے آسمانی و زمینی تمام مخلوقات کو اﷲ نے عام نعمتیں سرفراز کی ہیں (صفحہ نمبر 84)
جہنم میں ابولہب کافر کا حال
(3) ابولہب کی باندیوں میں سے ثویبہ لونڈی نے ابولہب کو رسول اکرمﷺ کی ولادت کی خوشخبری دی جسے سن کر ابولہب نے اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی ساتھی نے اسے خواب میں دیکھ کر اس کاحال پوچھا تو جواب دیا جہنم میں پڑا ہوں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات کو عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور اپنی ان دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان انگلیوں سے میں نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس لئے آزاد کیا تھا کہ اس نے رسول اکرمﷺ کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ اس صلہ میں ان دونوں انگلیوں سے کچھ پانی پی لیتاہوں‘‘ (صفحہ 84-85)
عید میلاد النبیﷺ منانا مسلمانوں کا عمل ہے
(4) ابن جوزی نے لکھا کہ ابولہب کافر جس کی مذمت قرآن کریم میں وارد ہے جبکہ اس کو ولادت رسول اکرمﷺ کی خوشی منانے میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کرنے کا یہ بدلا ملا کہ وہ دوزخ میں بھی ایک رات کے لئے فرحت و مسرت سے ہمکنار ہوجاتا ہے تو ان مسلمانوں کے حال پر غور کیا جائے جو آپﷺ کی ولادت باسعادت پر مسرتوں کا اظہار کرتے اورآپﷺ کی محبت میں بقدر استطاعت خرچ کرتے ہیں۔ مری جان کی قسم! شب ولادت رسالت مآبﷺ میں اظہار مسرت کے سبب اﷲ تعالیٰ اپنے عام فضل وکرم سے اظہار مسرت کرنے والوں کو جنت کے باغوں میں داخل کرے گا۔ مسلمان ہمیشہ سے محفل میلاد النبیﷺ منعقد کرتے آئے ہیں۔ محفل میلاد کے ساتھ ہی دعوتیں دیتے کھانے وغیرہ پکواتے اور غریبوں کی طرح طرح کے تحفہ تحائف تقسیم کرتے۔ خوشی کا اظہار کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ نیز ولادت باسعادت پر قرآن خوانی کراتے اور اپنے مکانوں کو مزین کرتے ہیں۔ ان تمام افعال حسنہ کی برکت سے ان لوگوں پر اﷲ کی برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ (ص 85)
محفل میلاد منعقد کرنے کے خصوصی فضائل
(5) محفل میلاد النبیﷺ منعقد کرنے کے خصوصی تجربے یہ ہیں کہ میلاد کرنے والے سال بھر تک اﷲ کی حفظ وامان میں رہتے اور حاجت روائی ومقصود برآری کی خوشیوں سے جلد ترہم آغوش ہوتے ہیں (ص 85)
میلاد النبیﷺ مسلمانوں کی عید ہے
(6) اﷲ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل کرتا ہے جو میلاد النبیﷺ کی شب کو عید مناتے ہیں اور جس کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے (ص 86)
جھنڈے و پرچم لگانے کا ثبوت
(7) حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں نے تین پرچم اس طرح دیکھے کہ ان میں سے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں اور تیسرا خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا (ص 75)
تاریخ ولادت کے متعلق
(8) 12 ربیع الاول تاریخ ولادت رسالت مآبﷺ مشہور ہے اور اہل مکہ کاعمل یہی ہے کہ وہ اس تاریخ کو مقام ولادت رسالت مآبﷺ کی اب تک زیارت کرتے ہیں (ص 81)
(9) علامہ طیبی رحمتہ اﷲ علیہ کا بیان ہے ’’تمام مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رسالت مآبﷺ 12 ربیع الاول کو اس دنیا میں رونق افروز ہوئے‘‘ (ص 82)
(شیخ محدث رحمتہ اﷲ علیہ کی کتاب سے لئے گئے اقتباسات ختم ہوئے)
فوائد
شیخ محدث رحمتہ اﷲ علیہ کے ان اقتباسات کی روشنی میں درج ذیل فوائد حاصل ہوئے۔
1۔ 12 ربیع الاول ولادت مصطفیﷺ کی تاریخ پر مسلمانوں کااتفاق ہے
2۔ میلاد النبیﷺ مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے
3۔ عید میلاد النبیﷺ کی خوشی کرنا مسلمانوں کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے
4۔ خاص کر اہل مکہ کا عمل رہا ہے کہ 12 ربیع الاول کو مقام ولادت رسولﷺ کی زیارت کرتے رہے۔
5۔ محفل میلاد النبیﷺ کی برکت سے سال بھر امن وامان رہتا ہے اور مصیبتیں وتکالیف دور ہوتی ہیں۔
6۔ عید میلاد النبیﷺ میں اپنے گھروں کو سجانا اور قرآن خوانی وغیرہ جیسے نیک اعمال کرنا خوشی کی علامات ہیں
7۔ ان تمام افعال حسنہ کی برکت سے اﷲ تعالیٰ کی برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
الحمدﷲ!
غور فرمایئے! گیارہویں صدی کے مجددشیخ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ ان تمام اعمال کو ’’افعال حسنہ‘‘ یعنی نیک و مستحب اعمال فرما رہے ہیں اور مسلمانوں کا برسوں سے معمول قرار دے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ ان نیک اعمال کے سبب اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
سوال: کیا تیس، پینتیس سال پہلے ہمارے بھائی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی کے بجائے بارہ وفات قرار نہیں دیتے تھے؟
جواب: ہم نے تو صرف چند بوڑھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول کو بارہ وفات کہتے ہیں۔ چند بوڑھوں کی بات سند نہیں ہے اور نہ ہی شریعت ہے، علماء کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے سلسلہ میں لفظ میلاد و مولد کا اولین استعمال
1۔ دلیل: نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے احوال کے اظہار و برکات کے سلسلہ میں لفظ میلاد کا اولین استعمال جامع ترمذی میں ہے۔ جامع ترمذی صحاح ستہ میں سے ہے۔ اس میں ایک باب بعنوان ’’ماجاء فی میلاد النبیﷺ‘‘ ہے۔ اس بات سے لفظ میلاد کے اولین استعمال کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ اس باب میں بیان ہے کہ قیس بن محزمہ صحابی رضی اﷲ عنہ نے میلاد النبیﷺ کا ذکر بیان فرمایا ’’پیدا ہوا میں اور رسول اﷲﷺ اس سال میں قصہ اصحاب فیل کا واقع ہوا‘‘ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے قباث بن اثیم صحابی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا (تم بڑے ہو یا رسول اﷲﷺ، سو انہوں نے کہا کہ حضرت محمدﷺ مجھ سے بڑے ہیں لیکن پیدائش میں میں مقدم ہوں (جامع ترمذی شریف جلد دوم ص 637)
2۔ صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ شریف میں باب باندھا اور اس باب کا نام ’’میلاد النبیﷺ‘‘ رکھا۔
3 سعودی عرب کا موجودہ اسلامی کلینڈر آپ ملاحظہ فرمائیں اس کلینڈر میں ربیع الاول کے مہینے کی جگہ ’’میلادی‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی یہ میلاد کا مہینہ ہے۔
4۔ پوری دنیا کے تعلیمی نصاب دیکھ لیں، تمام نصاب میں اسلامیات کے باب میں ’’میلاد النبیﷺ‘‘ کے نام سے باب ملے گا، بارہ وفات کے نام سے نہیں ملے گا۔
اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ چند بوڑھوں کی بات مانی جائے یا اکابر محدثین کی بات مانی جائے۔
سوال: کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ کی عقلوں پر ماتم کرنا چاہئے کہ اپنے نبیﷺ کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو؟
جواب: یہ بات پچھلے سوال کے جواب میں بھی عرض کی کہ بارہ ربیع الاول حضورﷺ کی تاریخ وصال نہیں ہے۔
اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپﷺ کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔
حدیث شریف: ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی (بحوالہ: بخاری جلد اول ص 804، مسلم جلد اول ص 486)
فائدہ: ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے۔ نبی کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو تاجدار کائناتﷺ ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو۔
حدیث شریف: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالمﷺ نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا (بحوالہ: ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف)
الحمدﷲ! قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام، شہداء اور صالحین اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں۔ جب حضورﷺ حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا؟ خود حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔
حدیث شریف: حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا:
حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم
میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لئے باعث خیر ہے (بحوالہ کتاب الشفاء از: امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ)
الزام لگانے والو! ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں۔
سوال: کیا تاجدار کائناتﷺ کے وصال کا دن تمام اہلسنت کے نزدیک متفقہ طور پر بارہ ربیع الاول نہیں ہے؟
جواب: یوں لگتا ہے کہ آپ نے اہلسنت کی کوئی کتاب نہیں پڑھی، اس لئے ایسا سوال کیا ہے۔ علمائے اہلسنت کا تاریخ وصال میں اختلاف ہے کسی کے نزدیک یکم ربیع الاول، دو ربیع الاول، پانچ ربیع الاول ہے۔
دلیل: علامہ ابوالقاسم السھیلی علیہ الرحمہ نے الروض الانف یہی استدلال فرمایا کہ نو ذوالحجہ جو جمعتہ المبارک کا دن تھا (جس میں آپﷺ نے حجتہ الوداع کا خطبہ دیا تھا) اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس حساب سے ذوالحجہ، صفر المظفر کے ایام کی تعداد انتیس اور تیس تصور کرکے ممکنہ آٹھ صورتوں میں حساب کیا تاہم کسی صورت میں بھی ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو پیر کا دن نہیں آتا۔ (بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد پنجم ص 296)
اسی دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے دیوبندی فرقے کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں لکھتے ہیں تاریخ وصال کی تحقیق نہیں ہوئی اور بارہ ربیع الاول جو مشہور ہے وہ حساب درست نہیں ہوتا، تھانوی صاحب کی کتاب کا عکس ملاحظہ ہو
سوال: مروجہ میلاد النبیﷺ ایک ظالم، عیاش بادشاہ شاہِ اربل کی ایجاد ہے؟
جواب: شاہ اربل مظفر الدین بن زین الدین عیاش نہیں عادل تھا
عید میلاد النبیﷺ کا انکار کرنے والے ایک من گھڑت بات یہ بھی پیش کرتے ہیں۔ میلاد کی ابتداء عیاش اور ظالم بادشاہ مظفر الدین نے کی حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مظفر الدین شاہ اربل عیاش نہ تھا بلکہ عادل تھا چنانچہ ابن کثیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
شاہ اربل مظفر الدین بن زین الدین ربیع الاول میں میلاد شریف مناتا اور عظیم الشان جشن برپا کرتا تھا، وہ ایک نڈر، بہادر، جانباز، عاقل، عالم اور عادل بادشاہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور انہیں بلند درجہ عطا فرمائے۔ شیخ ابوالخطاب ابن دحیہ نے ان کے لئے میلاد شریف کی ایک کتاب تصنیف کی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا تو انہوں نے شیخ کو ایک ہزار دینار پیش کیا۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی اور سات سو تیس ہجری میں جب وہ عکا شہر میں فرنگیوں کے گرد حصار ڈالے ہوئے تھے۔ ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ اچھی سیرت وخصلت کے حامل تھے (بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد سوم ص 136)
سبط ابن جوزی نے مرأۃ الزمان میں ذکر کیا ہے کہ شاہِ اربل کے یہاں میلاد شریف میں بڑے بڑے علماء و صوفیاء شرکت کرتے تھے۔ (بحوالہ: الحاوی للفتاویٰ جلد اول ص 190)
میلاد کا انکار کرنے والے اپنے علم کو ذرا وسیع کریں تاکہ انہیں ذلیل نہ ہونا پڑے۔
سوال: آپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محافل میلاد میں حضورﷺ کی آمد ہوتی ہے، اس لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں؟
جواب: ہم حضورﷺ کی آمد کے لئے نہیں بلکہ ذکر رسول ﷺ کے ادب کے لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام کھڑے ہوتے ہیں
القرآن: والصفت صفاہ (سورۂ الصفت، آیت 1 پارہ 23)
ترجمہ: قسم صف بستہ جماعتوں کی کہ صف باندھیں۔
تفسیر: اس آیت کے تحت مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو سرکار اعظمﷺ کی بارگاہ میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔
حدیث شریف: جب آپﷺ کا وصال ہوا تو آپﷺ کے جسم اطہر کو کفنا کر تخت پر لٹادیا گیا تو اس موقع پر حضرت جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام نے فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ (کھڑے ہوکر) صلوٰۃ وسلام پیش کیا (بحوالہ، بیہقی، حاکم، طبرانی شریف)
دلیل: ہر مسلمان مرد، عورت اور بچیوں نے باری باری کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا (بحوالہ: مدارج النبوت جلد دوم ص 440)
دلیل: حضرت امام تقی الدین سبکی علیہ الرحمہ کی محفل میں کسی نے یہ شعر پڑھا ’’بے شک عزت و شرف والے لوگ سرکار اعظمﷺ کا ذکر سن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت امام سبکی علیہ الرحمہ اور تمام علماء و مشائخ کھڑے ہوگئے۔ اس وقت بہت سرور اور سکون حاصل ہوا (بحوالہ: سیرت حلبیہ ، جلد اول ص 80)
دلیل: برصغیر کے معروف محدث اور گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں محفل میلاد میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں۔ میرا یہ عمل شاندار ہے (بحوالہ: اخبار الاخیار ص 624)
معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پڑھنا حضورﷺ کی ذکر کی تعظیم و ادب ہے۔ اہل حق یعنی اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام آج بھی دنیاوی حیات کی طرح زندہ ہیں، ان کی دنیاوی اور موجودہ زندگی میں یہی فرق ہے کہ ذمہ داری کا دور ختم ہوگیا تو وہ اپنے پروردگار جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور دنیا والوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہی اجماعی عقیدہ رہا ہے۔ جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
الحدیث: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں، میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرمﷺ کو خواب میں دیکھا۔آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سرانور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں (بحوالہ: ترمذی ابواب المناقب، حدیث 1706، ص 731، مطبوعہ فرید بک لاہور)
فائدہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا بلاشبہ اس نے مجھے ہی دیکھا، شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا لہذا حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا نے یقیناًحضورﷺ کو ہی دیکھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ بعد از وصال بھی اپنے غلاموں پر ہونے والے ظلم سے آگاہ ہیں۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ بعد از وصال بھی جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں اور جب چاہیں، جہاں چاہیں اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی ہوئی طاقت سے تشریف لے جاسکتے ہیں ورنہ مقتل حسین (کربلا) میں کیسے تشریف لاتے۔
سوال: جس طرح عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا دن مناتے ہیں، اسیطرح آپ لوگ بارہ ربیع الاول کے دن حضورﷺ کا یوم ولادت مناتے ہیں، لہذا یہ عیسائیوں کی رسم ہے؟
جواب: مسلمانوں پر اتنا بڑا بہتان لگانے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ چنانچہ مالکی فقہاء اور شافعی فقہاء مثلا زین العراقی، امام جلال الدین سیوطی، ابن حجر الہیتمی، علامہ سخاوی، ابن جوزی، حنبلیوں میں سے حضورﷺ کی ولادت کی تقریب منانے اور اس میں جمع ہونے کو بہتر عمل قرر دیتے ہیں لیکن جو لوگ اس میں غلو کرتے ہیں اور اس کو نصرانیوں کی طرح عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کی تقریب سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔ وہ قیاس مع الفارق کرتے ہیں (اور غلط مثال دیتے ہیں) کیونکہ (عیسائی) حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یوم (نعوذ باﷲ) ان کے خدا ہونے یا خدا کا بیٹا ہونے یا تیسرا خدا ہونے کے لحاظ سے مناتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’بے شک کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ تین میں تیسرا ہے‘‘ اﷲ تعالیٰ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
لیکن مسلمان اپنے آقا و مولیٰﷺ کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو تمام انسانوں میں افضل بنایا اور آپﷺ کو وہ سب کچھ عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں عطا فرمایا۔
محترم حضرات! کتنا بڑا فرق ہے مسلمانوں کا اپنے مولیٰﷺ کا یوم ولادت منانے اور عیسائیوں کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا دن منانے میں۔ وہ خدا کا بیٹا مان کر مناتے ہیں اور ہم مسلمان اﷲ تعالیٰ کا بندہ، رسول اور محبوب مان کر مناتے ہیں۔
سوال: عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر آپ لوگ جو جھنڈے لگاتے ہیں اس کی کیا اصل ہے؟
جواب: عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر جھنڈے لگانا ملائکہ (فرشتوں) کا طریقہ ہے۔
عید میلاد النبیﷺ پر جھنڈے لگانے کی اصل
دلیل: سیدتنا آمنہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول ص 109)
دلیل: آپﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جھنڈے لہرائے گئے۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا کعبتہ اﷲ کی چھت پر (بحوالہ: بیان المیلاد النبی، محدث ابن جوزی ص 51، خصائص الکبریٰ جلد اول ص 48، مولد العروس ص 71، معارج النبوت جلد دوم ص 16)
سوال: جو نبیﷺ بہتے دریا سے وضو کرنے والوں کو بھی پانی کے اسراف سے بچنے کی تعلیم دے کر گئے ، آپﷺ کا نام لے کر وسائل کا اسراف (چراغاں) کہ اگر اس خرچ کو جمع کیا جائے تو ہزاروں، بیروزگاروں کوکاروبار کرایا جاسکتاہے، جائز ہے؟
جواب: محسن انسانیتﷺ کی ذات اور آپﷺ کا مرتبہ و مقام اس قدر بلند ہے کہ جس قدر ان کی ولادت کی خوشی میں چراغاں کیا جائے، کم ہے جہاں تک اسراف (فضول خرچی) کا تعلق ہے تو یاد رکھئے جو کام کسی نیک مقصد کے لئے کیا جائے وہ اسراف (فضول خرچی) نہیں ہوتا۔
سال کے بارہ مہینوں میں صرف ایک ربیع الاول کے مہینے کے بارہ دن غریبوں کا خیال آنے والے مالداروں سے ہمارے سوالات:
پوری دنیا کے یتیم، مسکین، بیوہ، نادار، بے روزگار اور غریبوں کا خیال صرف ربیع الاول میں ہی آتا ہے؟
* اپنے بیٹے یا بیٹی کی منگنی میں لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کے موقع پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* روزانہ ہوٹلوں پر اور اپنے دفاتر میں ہزاروں روپے لنچ اور ڈنر پر خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* اپنی اولاد کی سالگرہ کے موقع پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* اپنے محلات، بنگلوں، کوٹھیوں اور گھروں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
اپنے گھر کے ہر فرد کے لئے علیحدہ علیحدہ گاڑیاں رکھتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* اپنے گھروں میں پارٹیوں کے انعقاد پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* اپنے جلسوں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
* ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں بیرون ملک پکنک پر جانے کی غرض سے لاکھوں روپے خرچ کرتے وقت یہ خیال نہیں آتا؟
کیسے آئے گا؟ اور کیوں کر آئے گا؟ اس لئے کہ وہاں واہ واہ ہوتی ہے۔
نادانو! ذرا سوچو! جس محسن انسانیت کے صدقے تمہیں سب کچھ ملا، اس کی ولادت کی خوشی میں خرچ تمہیں اسراف نظر آتا ہے، یقیناًیہ تمہاری بدبختی ہے۔
سوال: کیا رحمت کائناتﷺ کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو عظیم نعمت عطا فرمائی ہے اس نعمت پر اﷲ کی شکر گزاری کرنے کا طریقہ اس رسولﷺ کے اسوہ کو اور اس کی لائی ہوئی شریعت کو اختیار کرنا نہیں ہے؟
جواب: میلاد منانا ہی اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ عید میلاد النبیﷺ میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت رسولﷺ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ذکر رسولﷺ کرکے محفلیں منعقد کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچہ کرتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ نعمت ہیں، اس نعمت کا ذکر کرتے ہیں، نئے کپڑے پہن کر، چراغاں کرکے صدقہ و خیرات کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت پر خوشی مناتے ہیں۔ اس کا حکم قرآن مجید میں خود اﷲ تعالیٰ دیتا ہے۔
ترجمہ: تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔
(سورہ یونس آیت 58 پارہ11)
سوال: کیا رحمت عالمﷺ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت زندگی گزارنے کے لئے آپ کے طریقوں پر چلنا نہیں ہے؟
جواب: سرکارﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا واقعی میں محبت کی بنیاد ہے مگر یاد رہے جس سے محبت ہو، اس سے نسبت رکھنے والی ہرچیز سے محبت ہونی چاہئے، میلاد سے عداوت رکھ کر سنتوں پر عمل کرنا یہ سچی محبت نہیں ہے، عیب والی محبت ہے۔
سوال: کیا ایسا کوئی عمل جو سرور کونینﷺ کے اسوہ سے ثابت نہیں ہے کرنا دین میں اضافہ اور بدعت نہیں ہے؟
جواب: الحمدﷲ ہم نے میلاد کو سنت سے ثابت کردیا ہے، اب بدعت سے متعلق تفصیلا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
بدعت کا لغوی معنی
نیا کام، نئی ایجاد، نئی بات
بدعت کاشرعی معنی
ہر وہ کام جو سرکار اعظمﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں
(1) بدعت حسنہ (2) بدعت سیہ
اب ان دو اقسام پر روشنی ڈالتے ہیں
(1) بدعت حسنہ کی تعریف
ہر وہ طریقہ جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہ ہو ، بعد میں ایجاد ہوا ہو اور وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو جیسے نماز تراویح، جماعت کے ساتھ ادا کرنا، قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے بہت سے دوسرے علوم و فنون پڑھنا اور سیکھنا، دینی مدارس قائم کرنا، قرآن مجید کے اعراب کا لگایا جانا، قرآن مجید پر غلاف چڑھانا، قرآن مجید کی اعلیٰ طباعت کے ساتھ شائع کرنا، مساجد میں محرابیں بنانا، مساجد کے بلند مینار تعمیر کروانا، جمعہ کے دن دو اذانیں دینا، دانے والی تسبیح پڑھنا وغیرہ وغیرہ
کتاب کشاف اصطلاحات الفنون جلد اول صفحہ 122 میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کے حوالے سے ہے کہ وہ بدعت جو کتاب اﷲ، سنت، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے۔
بدعت حسنہ پر عمل کرنا باعث اجروثواب ہے
الحدیث۔۔۔ من سنن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا من غیر ان ینقص من اجورہم شئ
ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس کا ثواب ملے گا اور اس کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگی (ابو داؤد شریف)
فائدہ: یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر وہ اچھا کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ اقدس میں نہ ہو، بعد میں ایجاد ہوا ہو اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اور ایجاد کرنا دونوں باعث اجر ہیں۔
الحدیث: عن ابی سلمہ ان النبیﷺ عن الامر یحدث لیس فی کتاب ولا سنۃ فقال ینظر فیہ العابدون من المومنین
ترجمہ: حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار اعظمﷺ سے ایسے نئے کام جس کی وضاحت کتاب وسنت میں ہو کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس امر محدث کے بارے میں عابدین مومنین کو غوروفکر کرنا چاہئے (سنن دارمی باب النورع عن الجواب فی مالیس فیہ کتاب ولا سنتہ جلد اول ص 54)
فائدہ: اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر نئے کام کو برا سمجھ کر رد نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے یہ واضح حکم موجود ہے کہ مجتہدین اور اہل اﷲ اس کے بارے میں فیصلہ کریں۔
اسی بناء پر حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اور دوسرے بہت سے ائمہ نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں۔
(1) بدعت واجب، (2) بدعت مندوبہ، (3) بدعت مباحہ، (4) بدعت مکروہہ، (5) بدعت حرام
الحدیث: ماراہ المسلمون حسنا فہو عنداﷲ حسن
ترجمہ: جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے (موطا امام محمد باب قیام شہر رمضان ص 144)
(1) امام کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:
اتباع مااشتہر العمل بہ فی الناس واجب
ترجمہ: جو عمل لوگوں میں مشہور ہوجائے جبکہ شریعت کے مطابق ہو، اس کی اتباع ضروری ہے (بحوالہ: بدائع الصنائع فصل فی بیان یامستحب فی یوم العید، جلد اول)
(2) علامہ بدرالدین عینی (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو کام شریعت کے مخالف نہ ہو تو وہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی بدعت ہے۔
(3) علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ، شامی کے مقدمے میں فرماتے ہیں ’’یہ حدیث اسلام کے قوانین ہیں کہ جو شخص کوئی بری بدعت ایجاد کرے، اس پر تمام پیروی کرنے والوں کا گناہ ہے اور جو شخص اچھی بدعت نکالے، اسے قیامت تک اس عمل کی پیروی کرنے والوں کا ثواب ہوگا‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت کوئی چیز نہیں ہے تو یہ بات مسلم شریف کی حدیث کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔
(4) شیخ وحید الزماں جوغیر مقلدین اہلحدیث کے امام ہیں، حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کے حوالے سے اپنی کتاب ہدیۃ المہدی ص 117 میں لکھتے ہیں کہ بدعت حسنہ (اچھی بدعت) کو دانتوں سے (مضبوطی سے) پکڑ لینا چاہئے کیونکہ سرکار اعظمﷺ نے اس کو واجب کئے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے نماز تراویح۔
(5) حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ماہ رمضان میں نماز تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا تو کسی نے عرض کیا کہ یہ ’’بدعت‘‘ ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے جواب میں فرمایا ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے
فائدہ: ان تمام احادیث اور علمائے امت کے اقوال سے یہ بات نہایت آسانی سے معلوم ہورہی ہے کہ ہر وہ ایسا عمل جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہیں تھا بلکہ بعد میں ایجاد ہوا، اگر وہ شریعت مطہرہ اور سنت رسولﷺ کے مخالف نہیں تو اس پر عمل کرنا مستحب اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔
الحدیث: سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اس کے لئے اس کا ثواب ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب بھی (بحوالہ مسلم شریف، جلد تیسری، ص 718)
فائدہ: مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر وہ اچھا کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانہ میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہوا اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اور ایجاد کرنا دونوں باعث اجر ہیں۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ وہ کام جسے علماء اور عارفین ایجاد کریں اور وہ سنت کے خلاف نہ ہو تو یہ اچھا کام ہے۔
(2)بدعت سیۂ کی تعریف
ہر وہ کام جو سرکار اعظمﷺ کے زمانے میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو اور وہ شریعت کے مخالف ہو۔
(1) کتاب اصطلاحات الفنون ص 133 جلد اول میں ہے کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ بدعت جو کتاب، سنت، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف ہو تو یہ بدعت سیۂ یعنی بری بدعت ہے۔
(2) کتاب نیل الادطارباب صلوٰۃ جلد سوم ص 57 میں ہے کہ اگر بدعت ایسے وصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیۂ ہے۔
(3) امام حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ دین میں کسی ایسی نئی چیز کا ایجاد کرنا جس کی اصل (دلیل) شریعت میں نہ ہو)
(4) علامہ ابن منظور افریقی فرماتے ہیں کہ وہ نئی بات جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو، بدعت سیۂ ہے۔
(5) مشکوٰۃ المصابیح باب الاعتصام جلد اول میں ہے کہ جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نیا عقیدہ ایجاد کیا کہ جو دین کے خلاف ہو تو ہو مردود ہے۔
(6) علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ ’’ہر نیا کام بدعت ہے‘‘ سے مراد وہ نیا کام ہے جو شریعت کے مخالف ہو اور سنت کے موافق نہ ہو۔
معلوم ہوا کہ جو چیز اسلام سے ٹکرائے وہ بدعت سیۂ یعنی بری بدعت ہے اور جو دین اسلام سے نہ ٹکرائے اور جن کاموں کو قرآن و سنت میں منع نہیں کیا گیا، وہ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہل بیت اطہار نے سرکار اعظمﷺ کے ظاہری زمانے میں اور بعد میں اپنے دل سے بہت سی ایسی اچھی بدعتیں یا نئے کام بھی کئے، جن کا حکم نہ قرآن مجید میں آیا، جو نہ سرکار اعظمﷺ نے خود کئے اور نہ کرنے کا حکم دیا۔
(1) حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ کو قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیا تو حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے عرض کیاکہ آپ رضی اﷲ عنہ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو سرکار اعظمﷺ نے نہیں کیا؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ یہ کام اچھا ہے (بخاری شریف)
(2) نماز تراویح ایک عبادت ہے جو سرکار اعظمﷺ کی ظاہری حیات میں ہر سال پورے رمضان جماعت سے نہیں ہوئی تھی مگر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اسے رائج کرتے ہوئے اس کے لئے ’’بدعت‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے‘‘ (بخاری شریف)
(3) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے جمعہ میں دو اذانوں کا طریقہ شروع کیا
(4) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ایک ہی شہر میں نماز عید کے دو اجتماعات شروع کئے
(5) حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے علم نحو ایجاد کیا
(6) حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے علم صرف ایجاد کیا
(7) حضرت حباب رضی اﷲ عنہ نے پہلی مرتبہ شہید کئے جانے سے پہلے دو رکعت نفل ادا کئے
(8) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے وعظ کے لئے جمعرات کا دن متعین کیا (بخاری شریف)
(9) حضرت بلال رضی اﷲ عنہ وضو کے بعد دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے حالانکہ سرکار اعظمﷺ نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا
(10) حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے قرآن مجید کو جمع کرکے ایک کتابی صورت تشکیل دی۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایجاد کردہ کام ’’بدعت‘‘ ہیں یا ’’سنت‘‘؟ کچھ علماء کا خیال ہے کہ ’’سنت‘‘ ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقوں پر چلنے کی ہدایت سرکار اعظمﷺ کے فرمان میں موجود ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایجاد کردہ کام ’’بدعت حسنہ‘‘ ہیں۔ حدیث شریف میں خلفائے راشدین کی ’’سنت‘‘ کا مطلب ان کا طریقہ ہے اور یہ طریقہ ان معنوں میں ’’سنت‘‘ نہیں جس طرح کہ سرکار اعظمﷺ کی سنت ہے۔
سوال: آپ لوگ شب میلاد النبی کو شب قدر سے بھی افضل کہتے ہیں؟
جواب: ہم لوگ نہیں کہتے بلکہ علمائے اسلام کا فتویٰ ہے کہ شب میلاد، شب قدر سے بھی افضل ہے۔
1۔ گیارہویں صدی کے مجدد محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’ماثبت من السنہ‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
شب میلاد، شب قدر سے بلاشبہ افضل ہے اس لئے کہ میلاد کی رات خود حضورﷺ کے ظہور کی رات ہے اور شب قدر حضورﷺ کو عطا کی گئی ہے اور ظاہر ہے جس رات کو ذات مقدسہ سے شرف ملا وہ، اس رات سے ضرور افضل قرار پائے گی جو حضورﷺ کو دیئے جانے کی وجہ سے شرف والی ہے۔ نیز شب قدر نزول ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہوئی اور شب میلاد حضورﷺ کے ظہور سے شرف یاب ہوئی اور اس لئے بھی کہ شب قدر امت مسلمہ پر فضل واحسان ہے اور شب میلاد میں تمام موجودات عالم پر اﷲ تعالیٰ نے فضل و احسان فرمایا کیونکہ حضورﷺ رحمتہ للعالمین ہیں جن کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں تمام خلائق اہل سمٰوٰت والارض پر عام ہوگئیں (بحوالہ: ماثبت من السنہ صفحہ نمبر 78)
2۔ امام قسطلانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب مواہب اللدنیہ جلد اول ص 27/26 پر فرماتے ہیں کہ شب میلاد، شب قدر سے بھی افضل ہے۔
سوال: کیا عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر چراغاں کرنا اور پھر چوری کی بجلی سے کرنا جائز ہے؟
جواب: خوشی کے مواقع پر خوشی کا اظہار چراغاں کے ذریعے کرنا جائز ہے، ہر دور میں اس دور کے مطابق موجود سامان مسرت کے ذریعے خوشی کا اظہار کیاجاتا تھا۔ کسی دور میں چراغ روشن ہوتے تھے، کسی دور میں فانوس روشن کئے جاتے تھے، کسی دور میں قندیلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں مشعلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں شمعیں روشن کی جاتی تھیں اور موجودہ دور میں بجلی موجود ہے لہذا ہر مقام پر چراغاں کے ذریعہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر میں مساجد پر لائٹنگ کی جاتی ہے، ختم قرآن کی محافلوں میں بڑی بڑی لائٹیں لگائی جاتی ہیں، مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات کے مواقع پر لائٹیں لگائی جاتی ہیں، اولاد کی منگنی کے موقع پر گھر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر خوب روشنی کی جاتی ہے۔ اولاد کی شادی کے موقع پر شادی ہال، شادی لانز اور گلیوں اور عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور یہ سب خوشی کے اظہار کے لئے کیاجاتا ہے۔
یاد رہے! یہ ساری خوشیاں جو اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اس نعمت کی آمد پر چراغاں کیاجاتا ہے تو پھر جو نعمت عظمیٰ و نعمت کبریٰ (سب سے بڑی نعمت) یعنی سرکار کائناتﷺ کی ذات ہیں، اس نعمت کبریٰ کی آمد کی خوشی اور یاد میں کس قدر چراغاں کرنا چاہئے۔
لیکن چوری کی بجلی استعمال نہ کی جائے کیونکہ بجلی چوری کرنا حرام ہے اور حرام کام کرنے سے بچنا چاہئے۔ الحمدﷲ! ثم الحمدﷲ! گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے بھائی میلاد النبیﷺ کے موقع پر ہونے والے چراغاں کا بل کے ای ایس سی/واپڈا کو ادا کرتے ہیں اور اس بل کی کاپی اسی مقام پر ہمارے بھائی چسپا کردیتے ہیں، ہر شہر، ہر علاقے میں پابندی کے ساتھ یہ کام ہونا چاہئے۔
میلاد منانے والے جہاں اپنی حلال طیب کمائی میں سے کرائے پر چراغاں کا سامان لیتے ہیں، وہاں بجلی کے بل کی ادائیگی کا بھی اہتمام کریں۔ کئی علاقوں میں تو ہوچکا ہے، ہر جگہ کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی توجہ دیں کہ صبح ہوتے ہی لائٹیں بند کردیں تاکہ بجلی بھی ضائع نہ ہو اور کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہ ملے۔
سوال: جشن عید میلاد النبیﷺ پر چراغاں کرنے کے حوالے سے علمائے عرب خصوصا مکۃ المکرمہ کے علماء کے معمولات سے دلیل پیش کریں؟
جواب: مسجد حرام کے اردگرد رہنے والے مکۃ المکرمہ کے علماء و مشائخ ہر سال جشن عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر محافل اور چراغاں کا اہتمام کرتے تھے۔
دلیل: امام قطب الدین الحنفی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام‘‘ کے صفحہ نمبر 196 پر تحریر کرتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول کی رات ہر سال باقاعدہ مسجد حرام میں اجتماع کا اعلان ہوجاتا ہے، تمام علاقوں کے علماء، فقہاء، گورنر اور چاروں مسالک کے قاضی نماز مغرب کے بعد مسجد حرام میں اکھٹے ہوجاتے ہیں، ادائیگی نماز کے بعد سوق اللیل سے گزرتے ہوئے مولد النبیﷺ (ولادت گاہ رسول اﷲﷺ) کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں تھامے ہوتے ہیں۔
دلیل: امام محمد بن جار اﷲ ابن ظہیر علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الجامع اللطیف‘‘ کے صفحہ نمبر 201 پر لکھتے ہیں کہ ہر سال مکہ شریف میں بارہ ربیع الاول کی رات کو اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ جوکہ شافعی ہیں، مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف (جاء ولادت گاہ) کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ان لوگوں میں دیگر تینوں مذاہب فقہ کے ائمہ، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔
اگر تعظیم اسلام اور دشمنوں پر رعب و دبدبہ کے لئے کعبہ کی آرائش و زیبائش کی جاسکتی ہے، سونے اور چاندی کی قنادیل، شمعیں اور لائٹس کے ساتھ بیت اﷲ کو سجایا جاسکتا ہے، بہترین ریشم کو کعبہ کی زینت بنایا جاسکتا ہے، تو پھر جان کائنات حضور پرنورﷺ کی ولادت باسعادت پر محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اور والہانہ عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلی، محلوں، بازاروں اور مسجدوں کو کیوں نہیں سجایا جاسکتا؟ حالانکہ حضور اکرم نور مجسمﷺ کی ذات کائنات کی جان ہے۔ اگر یہ جان جلوہ گر نہ ہوتی تو نہ عرش و فرش ہوتے اور نہ کعبۃ اﷲ۔ آپﷺ کے صدقے سے ہی کعبۃ اﷲ ملا، اگر کعبۃ اﷲ کو سجایا جاسکتا ہے تو سید عالمﷺ کے میلاد پر چراغاں کیوں نہیں ہوسکتا؟
لہذا معلوم ہوا کہ تاجدار کائناتﷺ کے میلاد پر آرائش و زیبائش کا اہتمام کرنا بدرجہ اتم مستحسن عمل ہے۔
سوال: جشن عید میلادالنبیﷺ صرف پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں منایا جاتا ہے؟
جواب: یہ بات بالکل غلط اور گمراہ کن ہے۔ الحمدﷲ! ثم الحمدﷲ! جشن میلاد مصطفیﷺ پوری دنیا میں منایا جاتاہے۔
بین الاقوامی سطح پر محافل میلاد کا انعقاد
الحمدﷲ عزوجل! دنیا بھر میں ہر سال محافل میلاد کا انعقاد بڑے جوش و خروش سے کیا جاتا ہے اور جشن میلاد النبیﷺ کے سلسلے میں پروگرام ڈیڑھ دو ماہ تک مختلف تاریخوں اور اوقات میں کہیں نہ کہیں جاری رہتے ہیں اور ان محافل میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مسلمان امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا ماتحت، ہر کوئی بلاامتیاز رنگ و نسل و قومیت اس میں شریک ہوتے ہیں۔ بلامبالغہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو میلاد شریف منانے کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ حسب استطاعت اس کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ سعودی عرب، یمن، شام، مصر، لبنان، لیبیا، ترکی، عراق، ایران، نائیجیریا، پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، انڈیا، سری لنکا وغیرہم ممالک میں باقاعدہ میلاد النبی کا دن منایا جاتا ہے۔
مکہ شریف میں بڑے اہتمام کے ساتھ جشن عید میلاد النبیﷺ منایا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ اسے عید یوم ولادت رسولﷺ کہتے ہیں۔
سوال: کیا موجودہ دور میں بھی علمائے عرب جشن عید میلاد النبیﷺ مناتے ہیں؟
جواب: یہ صرف عجم میں ہی نہیں بلکہ عرب شریف میں مفتیان کرام اور علماء کرام خود محفل میلاد مناتے ہیں اور 12 ربیع الاول کو میلاد منانے پر جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔
موجودہ دور کے علمائے عرب جنہوں نے میلاد النبیﷺ منانے کو جائز قرار دیا
1۔ شیخ علامہ سید محمد بن علوی مالکی علیہ الرحمہ (متوفی 1425ھ) (استاد مکۃ المکرمہ) نے اپنی کتاب ’’حول الاحتفال بذکری المولد الشریف‘‘ میں میلاد النبی منانے کو جائز قرار دیا (بحوالہ : ذخائر محمدیہ ص 319-309)
2۔ حصرت شیخ عبداﷲ ہرری علیہ الرحمہ (متوفی 1429ھ) (حبشہ، اریٹیریا، عرب شریف) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا (بحوالہ: الروائح الذکیۃ فی مولد خیر البریۃ ص 32-29)
3۔ شیخ محمد سعید رمضان بوطی مدظلہ العالی (مدرس جامعۃ الازہر،مصر) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا (بحوالہ www.bouti.com)
4۔ شیخ سید علی جمعہ مدظلہ العالی (مفتی اعظم مصر) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا (بحوالہ: پیغام رضا ممبئی صفحہ 22-19)
(www.darallifta.org)
5۔ شیخ حبیب سالم بن عبداﷲ بن عمر شاطری مدظلہ العالی (مہتمم جامعہ رباط، عرب شریف) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا ۔
(www.rubat-tareem.net)
6۔ شیخ حبیب عمر بن محمد بن سالم بن حفیظ مدظلہ العالی (مبلغ اسلام، مہتمم دارالمصطفی تریم یمن، عرب شریف) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا ۔
(www.alhabibomar.com)
7۔ شیخ احمد بن عبدالعزیز حداد مدظلہ العالیٰ (مفتی اعظم عرب امارات) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا (بحوالہ: روزنامہ جنگ کراچی، 29 دسمبر 1981ء)
8۔ حضرت شیخ سید محمد بن عبدالغفار الشریف الحسنی مدظلہ العالی (مفتی، کویت) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا ۔
(بحوالہ: www.daralsherif.net)
9۔ حضرت شیخ محمود احمد الزین مدظلہ العالیٰ (مدرس، دارالبحوث المدراسات الاسلامیہ عرب امارات) نے میلاد النبی منانے کو جائز اور مستحب عمل قرار دیا ۔
(بحوالہ: www.dralzain.com)
سوال: کیا کبھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آمد رسولﷺ کا جلوس نکالا؟
جواب: جب بھی حضورﷺ کی مدینہ منورہ آمد ہوتی، صحابہ کرام علیہم الرضوان جلوس کی شکل میں حضور سرور کونینﷺ کا استقبال جلوس کی شکل میں فرماتے اور فتح مکہ کے موقع پر بھی جلوس کی شکل میں سیاہ عمامہ باندھ کر آپﷺ مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے۔
حدیث شریف: بنو نجار نے (آپﷺ کے استقبال کے وقت) اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی تھیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں وہ منظر آج بھی میری نگاہ میں ہے۔ حضور سید عالمﷺ اپنی اونٹنی پر تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ آپﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار کے سرکردہ افراد آپﷺ کے آس پاس چل رہے تھے، یہاں تک کہ حضورﷺ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر میں آکر ٹھہر گئے (مسلم شریف، جلد اول، کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ، حدیث نمبر 1075، ص 417، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور پاکستان)
حدیث شریف: جب تاجدار کائناتﷺ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے۔ یہ سب باآواز بلند کہہ رہے تھے ’’یامحمدﷺ، یارسول اﷲﷺ، یارسول اﷲﷺ‘‘ (صحیح مسلم شریف ، جلد دوم، باب الھجرۃ)
حدیث شریف: مورق عجلی سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ جب حضورﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے تو لوگ ہمیں استقبال کے لئے لے جاتے جو استقبال کرنے والوں میں سب سے آگے ہوتا، آپﷺ اسے اپنے آگے بٹھالیتے۔ پس میرے ساتھ استقبال کیا گیا تو مجھے اپنے آگے بٹھالیا۔ پھر حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما نے استقبال کیا تو انہیں اپنے پیچھے بٹھالیا۔ پس ہم مدینہ منورہ میں اسی طرح (جلوس کی شکل میں) داخل ہوئے (بحوالہ: ابو داؤد، جلد دوم، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 794، ص 300، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)
فائدہ: جب تاجدار کائناتﷺ کی مکہ سے مدینے آمد ہو، غزوہ یا سفر سے آمد ہو یا فتح مکہ کے موقع پر مکہ شریف میں آمد ہو تو جلوس نکالا جائے اورآپﷺ منع بھی نہ فرمائیں تو ثابت ہوا کہ آمد رسولﷺ کی خوشی میں جلوس نکالنا جائز ہے۔
ہاں اگر کوئی شخص جشن آمد رسولﷺ کے موقع پر جلوس میں شامل ہوکر خرافات کا ارتکاب کرتا ہے، نیاز پھینکتا ہے تو ایسا شخص غلط ہے، جلوس نکالنا غلط نہیں ہے۔ پھر سال میں ایک ہی دن نکلتا ہے ورنہ ہمارے ملک میں تو ہر تیسرے دن سیاسی، سماجی، مذہبی جلوس نکالے جاتے ہیں جن پر کوئی فتویٰ نہیں لگتا
مفتی محمد نعیم کو پیشکش
: مفتی صاحب! آپ تو صرف سال میں ایک دن میلاد مصطفیﷺ کے جلوس پر پابندی کی بات کرتے ہو۔ ہم آپ کو موقع دیتے ہیں کہ سارا سال جماعت اسلامی کے جلوس، ریلیاں، ملین مارچ، کالعدم سپاہ صحابہ کے جنازوں کے جلوس، عظمت صحابہ کے جلوس، ریلیاں، مظاہرے اور اجتماعات ، سیاسی، سماجی جلوس بند کرو ادو، ہم سال میں صرف ایک دن نکلنے والا عید میلاد النبی کا جلوس بند کردیں گے؟
منافقانہ پالیسی
جلوس پر پابندی اور عبادت گاہوں تک محدود رکھنے کی بات کرنے والی کالعدم سپاہ صحابہ جوکہ آج کل نام بدل کر اہلسنت والجماعت کا لیبل لگا کر کام کررہی ہے، ان کے لیڈر کے جنازے کا جلوس یہی نہیں بلکہ سبز پرچم اٹھائے موٹر سائیکل پر بھی الگ سے جلوس نکالا گیا۔ تصویر آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں، کیا یہ منافقانہ پالیسی نہیں؟
میلاد مصطفیﷺ کے جلوس اور میلاد کے پرچم کو بدعت قرار دینے والے جواب دیں کہ مولوی امین کے جنازے کا جلوس، موٹر سائیکل پر جلوس اور ہاتھوں میں پرچم کس حدیث سے ثابت ہیں؟
جس مولوی محمد امین کے جنازے کا جلوس نکالا گیا، ٹریفک جام کیا گیا، راستے میں فائرنگ کی گئی، وہ خود بھی مفتی نعیم صاحب کے جامعہ بنوریہ کے استاد تھے، اب نعیم صاحب جواب دیں
سوال: آپ لوگ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے حضورﷺ کا نور پیدا کیا گیا اور آپﷺ اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق بھی نہ ہوئی تھی، یہ بات دلائل سے ثابت کریں؟
جواب: یہ بات قصہ کہانی نہیں بلکہ صحاح ستہ اور دیگر مستند کتابوں سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
حدیث پاک: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا، یارسول اﷲﷺ! آپﷺ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا اس وقت جبکہ حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔
(بحوالہ: ترمذی، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1543، ص 667)
علماء عرب کی میلاد النبیﷺ پر لکھی جانیوالی چند معروف کتب
* الدر المنظم فی مولد النبی الاعظمﷺ
شیخ ابو العباس احمد اقلیشی (م 550ھ)
* بیان المیلاد النبویﷺ * مولد العروس
شیخ علامہ ابن جوزی (597ھ)
* التنویر فی مولد البشیر النذیرﷺ
شیخ ابن دحیہ کلبی (م 233ھ)
* عرف التعریف بالمولد الشریف
شیخ حافظ شمس الدین جزری (660ھ)
*المورد العذب المعین فی مولد سید الخلق اجمعینﷺ
شیخ ابوبکر جزائری (م 707ھ)
* الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید
شیخ امام کمال الدین الادفوی (748ھ)
*مناسک الحجر المنتقی من سیر مولد المصطفیٰﷺ
شیخ سعید الدین الکازرونی (م 758ھ)
*الدریۃ السنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ
شیخ ابو سعید خلیل بن کیکلدی (761ھ)
* ذکر مولد رسول اﷲﷺ ورضاعہ
شیخ امام عماد الدین بن کثیر (774ھ)
* وسیلۃ النجاۃ
شیخ سلیمان برسوی حنفی
* مولد البرعی
شیخ امام عبدالرحیم برعی (م 803ھ)
* المورد الہنی فی المولد السنی
شیخ حافظ زین الدین عراقی (808ھ)
* میلاد نامہ
شیخ سلیمان برسونی
* النفحۃ العنبریہ فی مولد خیر البریۃ ﷺ
شیخ امام محمد بن یعقوب فیروز آبادی (817ھ)
*جامع الآثار فی مولد النبی المختار * اللفظ الرائق فی مولد خیر الخلائقﷺ * مورد الصادی فی مولد الہادی ﷺ
شیخ امام شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی (842ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ عفیف الدین التبریزی (م 855ھ)
* در المنظم فی مولد النبی المعظمﷺ
* اللفظ الجمیل بمولد النبی الجلیلﷺ
شیخ محمد بن فخر الدین (م 867ھ)
* درج الدرر فی میلاد سید البشرﷺ
شیخ سید اصیل الدین ہروی (م 883ھ)
* درج الدرر فی میلاد سید البشر
امام عبداﷲ حسینی شیرازی (م 884ھ)
* المنہل العذب القریر فی مولد الہادی البشیر النذیرﷺ
شیخ علاء الدین المرداوی (م 885ھ)
* فتح اﷲ حسبی وکفی فی مولد المصطفیﷺ
شیخ برہان الدین ابو الصفاء (م 887ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ عمر بن عبدالرحمن باعلوی (م 889ھ)
*الفخر العلوی فی مولد النبویﷺ
امام شمس الدین السخاوی (م 902ھ)
* المورد الہنیۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ
امام نور الدین سمہودی (911ھ)
* حسن المقصد فی عمل المولد
امام جلال الدین سیوطی (911ھ)
* مولود النبویﷺ
عائشہ بنت یوسف باعونیہ (922ھ)
*الکواکب الدریۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ
شیخ ابوبکر بن محمد حلبی (م930ھ)
* مولد النبی ﷺ
شیخ ملا عرب الواعظ (م 938ھ)
* میلاد النبیﷺ
شیخ ابن دیبع الشیبانی (944ھ)
* میلاد نامہ
شیخ عبدالکریم الادرنتوی (م 965ھ)
* تحریر الکلام فی القیام عند ذکر مولد سید الانامﷺ
* تحفۃ الاخیار فی مولد المختارﷺ
* مولد النبیﷺ
* اتمام النعمۃ علی العالم بمولد سید ولد آدمﷺ
امام ابن حجر بیشمی مکی (973ھ)
* مولد النبیﷺ
امام خطیب شربینی (م 977ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ ابو الثناء احمد الحنفی
* المورد الروی فی مولد النبویﷺ
شیخ ملا علی قاری (م 1014ھ)
* مولد المناوی
امام عبدالرؤف المناوی (1031ھ)
* المنتخب المصفی فی اخبار مولد المصطفیٰﷺ
شیخ محی الدین عبدالقادر عید روسی (1038ھ)
*الکواکب المنیر فی مولد البشیر النذیرﷺ
امام علی بن ابراہیم الحلبی (1044ھ)
* مورد الصفی فی مولد المصطفیٰﷺ
امام محمد بن علان صدیقی (1057ھ)
* الجمع الزاہر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیرﷺ
شیخ زین العابدین خلیفتی (م 1130ھ)
* المولد النبویﷺ
* تحفہ ذوی العرفان فی مولد سیدینی عدنانﷺ
امام عبدالغنی بن اسماعیل بن عبدالغنی النابلسی (متوفی 1143ھ)
*مولد النبیﷺ
شیخ جمال الدین بن عقلیہ المکی الظاہر (م 1130ھ)
* میلاد نامہ
شیخ سلیمان نحیفی رومی (م 1151ھ)
* الکلام السنی المصفی فی مولد المصطفیٰﷺ
شیخ یوسف زادہ رومی (1167ھ)
*رسالۃ فی مولد النبیﷺ
شیخ حسن بن علی مدابغی (1170ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ عبداﷲ کاشغری (1174ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ احمد بن عثمان حنفی (1174ھ)
* عقد الجوہر فی مولد النبی الازہرﷺ
امام جعفر بن حسن بن عبدالکریم البرزنجی (متوفی 1177ھ)
* القول المنجی علی مولد البرز نجی
شیخ محمد بن احمد علیش (م 1299ھ)
* الکوکب الانور علی عقد الجوہر
شیخ جعفر بن اسماعیل برزنجی (متوفی 1317ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ سید محمد بن حسین حنفی جعفری (1186ھ)
* میلاد نامہ
شیخ اشرف زادہ برسوی (1202ھ)
* تذکرۃ اہل الخیر فی المولد النبویﷺ
شیخ محمد شاکر عقاد السالمی (م 1202ھ)
* حاشیہ علی مولد النبیﷺ
شیخ عبدالرحمن بن محمد مقری (م 1210ھ)
* میلاد نامہ
شیخ سلامی الازمیری (م 1228ھ)
* الجواہر السنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ
شیخ محمد بن علی شنوانی (م 1233ھ)
* مطالع الانوار فی مولد النبی المختار ﷺ
شیخ عبداﷲ سویدان (م 1234ھ)
* تانیس ارباب الفصا فی مولد المصطفیٰﷺ
شیخ ابن صلاح الامیر (1236ھ)
* مولد النبیﷺ
امام محمد مغربی (م 1240ھ)
* تحفۃ البشیر علی مولد ابن حجر
شیخ ابراہیم بن محمد باجوری (م 1276ھ)
* بلوغ المرام لبیان الفاظ مولد سید الانامﷺ
* عقیدۃ العوام، تحصیل نیل المرام
شیخ سید احمد مرزوقی
* مولد النبیﷺ
شیخ عبدالہادی آبیاری (م 1305ھ)
* سرور الابرار فی مولد النبی المختار ﷺ
شیخ عبدالفتاح بن عبدالقادر دمشقی (1305ھ)
* منظومۃ فی مولد النبیﷺ
شیخ ابراہیم طرابلسی حنفی (1308ھ)
* مولد النبیﷺ
شیخ ہبۃ اﷲ محمد بن عبدالقادر دمشقی (1311ھ)
* بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام ﷺ
شیخ ابو عبدالمعطی محمد نویر جاوی (م 1315ھ)
* اثبات المحسنات فی تلاوت مولد سید السادات ﷺ
مفتی آدرنہ محمد فوزی رومی (م 1318ھ)
* نثر الدرر علی مولد ابن حجر
شیخ سید احمد بن عبدالغنی دمشقی (م1320ھ)
* الیمن والاسعاد بمولد خیر العبادﷺ
شیخ محمد بن جعفر کتانی (م 1345ھ)
* جواہر النظم البدیع فی مولد النبی الشفیعﷺ
امام یوسف بن اسماعیل نہبانی (1350ھ)
* استحباب القیام عند ذکر ولادتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام
شیخ محمود عطار دمشقی ( 1362ھ)
* مختلف مقالہ جات
علامہ محمد زاہد کوثری (م 1371ھ)
* ذکر المولد وخلاصۃ السیرۃ النبویۃ ﷺ
شیخ محمد رشید رضا مصری
* حول الاحتفال بذکر مولد النبی الشریفﷺ
* الاعلام بفتاویٰ ائمۃ الاسلام حولہ مولدہ علیہ الصلوٰۃ والسلام
شیخ محمد بن علوی مالکی (م 1425ھ)
* بعثۃ المصطفیٰ ﷺ فی مولد المصطفیٰﷺ
شیخ عبدالعزیز بن محمد
* بشائر الاخیار فی مولد المختار ﷺ
شیخ سید ماضی ابو العزائم
* مولد النبیﷺ
شیخ سید محمد عثمان میر غنی
* شرح اقتناس الشوارد من موارد الموارد
شیخ محمد بن محمد منصوری شافعی خیاط
* مولد النبیﷺ
شیخ احمد بن قاسم مالکی بخاری حریری
* الانوار فی مولد النبیﷺ
شیخ ابو حسن بکری
* مولد رسول اﷲﷺ
شیخ ابراہیم آبیاری
* المولد النبوی شریفﷺ
شیخ صلاح الدین بواری
* ابتغاء الوصول لحب اﷲ بمدح الرسولﷺ
شیخ ابو محمد ویلتوری
* البنیان المرصوص فی شرح مولد المنقوص
شیخ زین الدین مخدوم فتانی
* المولد النبیﷺ
شیخ عبداﷲ عفیفی
* المولد النبیﷺ
شیخ عبداﷲ حمصی شاذلی
* المولد النبیﷺ
شیخ خالد بن والدی
* المولد النبیﷺ
شیخ محمد وفا صیادی
* المولد النبیﷺ
شیخ محمد محفوظ دمشقی
* المولد الجلیلﷺ
شیخ عبداﷲ بن محمد مناوی
* المولد النبیﷺ
شیخ الحافظ عبدالرحمن بن علی شیبانی
* الحقائق فی قرأۃ مولد النبیﷺ
شیخ سید عبدالقادر اسکندرانی
* المولد العزب
شیخ محمد بن محمد دمیاطی
* المولد النبیﷺ
شیخ محمد ہاشم رفاعی
* المولد فی الاسلام بین البدعۃ والایمان
شیخ محمد ہشام قبانی
* تعریب المتقی فی سیرۃ مولد النبیﷺ
شیخ سعید بن مسعود بن محمد کازرونی
* الابریز الدانی فی مولد سیدنا محمد العدنانیﷺ
* بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی
* الجمع الزاہر المنیر فی ذکر مولد البشیرالنذیرﷺ
شیخ زین العابدین محمد عباسی
* الدر المنظم شرح الکنز المطلسم فی مولد النبی المعظمﷺ
شیخ ابو شاکر عبداﷲ شلبی
* الدر النظیم فی مولد النبی الکریمﷺ
شیخ سیف الدین ابو جعفر عمر بن ایوب بن عمر حمیری
* احراز المزیۃ فی مولد النبی خیر البریۃﷺ
شیخ ابو ہاشم عمر شریف نوری
* فتح القدیر فی شرح مولد الدر دیر ﷺ
شیخ بدر الدین یوسف المغربی
* الفوائد البہیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ
شیخ ابو الفتوح الحلبی
* مطالع الانوار فی مولد النبی المختارﷺ
شیخ سویدان عبداﷲ بن علی وملجیی
* مورد الصفیٰ فی مولد المصطفیٰﷺ
شیخ ابن علان محمد علی صدیقی مکی
* مولد النبیﷺ
شیخ سید محمد بن خلیل اطرابلسی المعروف قادقجی
* الورد العزب المعین فی مولد سید الخلق اجمعینﷺ
شیخ ابو عبداﷲ محمد بن احمد بن محمد العطار الجزائری
* کتاب الانوار و مفتاح السرور والافکار فی مولد محمدﷺ
شیخ ابوالحسن احمد بن عبداﷲ بکری
* طل الغمامۃ فی مولد سید التہامۃﷺ
شیخ احمد بن علی بن سعید
* المولد الجسمانی والمورد الروحانی
شیخ ابن الشیخ آق شمس الدین حمداﷲ
* الدر الثمین فی مولد سید الاولین والآخرینﷺ
شیخ محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن، جمال الدین خلوتی سمنودی
* بلوغ المامول فی الاحتفاء والاحتفال بمولد الرسولﷺ
شیخ عیسٰی بن عبداﷲ بن مانع الحمیری
* مولد انسان الکاملﷺ
شیخ سید محمد بن مختار الشنقیطی
* الہدی التام فی موارد المولد النبی وما اعتید فی من القیامﷺ
علامہ محمد علی بن حسین المالکی المکی متوفی 1367ھ
* سمط الدرر فی اخبار مولد خیر البشیر ومالہ من اخلاق
اوصاف وسیرﷺ
شیخ علی بن محمد بن حسین الحبشی متوفی 1333ھ
* اسعاف ذوی الوفا بمولد النبی المصطفیٰﷺ
شیخ محمد بن محمد بن الطیب التافلاتی المغربی
* اظہار السرور بمولد النبی المسرورﷺ
ابی حامد محمد بن محمد متوفی 1140ھ
*بہجۃ السامعین والناظرین بمولد سید الاولین والاخرینﷺ
شیخ ابی المواہب محمد بن احمد بن علی الغیطی متوفی 981ھ
* التجلیات الحقیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ
محمد بن ناصر الدین المغربی الاداوی متوفی 1240ھ
* تحفۃ الاسماع بمولد حسن الاخلاق والطباع
*نظم بمختصر النعمۃ الکبریٰ علی العالم بمولد
سید ولد آدم لابن حجر الہیثمی متوفی 974ھ
* تکلمۃ الدرر المنظم فی مولد النبی المعظمﷺ
احمد بن محمد العزفی متوفی 633ھ
* مختصر شرح مولد السید الاہدل
شیخ محمد حسین بن الصدیق بن البدر حسین بن عبدالرحمن الاہدل متوفی 860ھ
* منحۃ الصفا ونفخۃ الشفا بمولد المصطفیٰﷺ
شیخ مصطفی بن محمد العرضی الشافعی الحلبی ثم الدمشقی
* المنہل الاوفی فی میلاد المصطفیٰﷺ
صالح بن محمد بن محمد الدسوقی الدمشقی الحسینی الشافعی متوفی 1246ھ
* مولد الظمآن فی مولد سید ولد عدنانﷺ
شیخ قطب الدین مصطفی البکری متوفی 1162ھ
* مورد الناہل بمولد النبی الکاملﷺ
قاسم افندی الشافعی القادری الشہیر بالحلاق
* المولد الاکبر فی اصل وجود سید البشیرﷺ
شیخ محمد بن محمد بن علی الداوودی متوفی 1345ھ
* مولد سید الاولین والاخرین وحبیب و خلیل رب العالمینﷺ
شیخ جمال الدین بن محمد بن عمر الحمیری متوفی 930ھ
* المولد العاطر الشریف والسفر الزاہر المنیفﷺ
محمد مرتضیٰ الحسینی
* المولد الکبیرﷺ
محمد العقاد
* مولد النبیﷺ
شیخ ابو عبداﷲ محمد بن عمر بن واقدالسہمی متوفی 207ھ
* مولد النبیﷺ
شیخ ابو عبداﷲ محمد بن عبدالکریم السمان متوفی 1189ھ
* مولد النبیﷺ
صدیق بن عمر خان تلمیذ الشیخ محمد السمان المتوفی 1189ھ
* مولد النبیﷺ
عقیل بن مصطفی العمری
* الورد اللطیف فی المولد الشریف
عبدالسلام بن عبدالرحمن بن مصطفی
* الروض الرحیب بمولد الحبیبﷺ
محمد بن ابراہیم بن محمد مقبل
* موعد الکرام فی مولد النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام
شیخ برہان الدین ابراہیم بن عمر
* مولد البشیر النذیر االسراج المنیرﷺ
احمد ابو الوفا الحسینی
* مولد المصطفیٰ العدنانیﷺ
نظم ،لعطیۃ بن ابراہیم الشیبانی متوفی 1311ھ
* المولد الجلیل حسن الشکل الجمیلﷺ
شیخ عبداﷲ بن محمد المناوی الاحمدی الشاذلی
* العلم الاحمدی فی المولد المحمدیﷺ
* مواکب الربیع فی مولد الشفیعﷺ
احمد الحلوانی
* مولد النبوی الشریفﷺ
محمد سعید البانی
* نظم المولد الشریف
حسین السمان
* مختصر سعادۃ العالمین بمولد سید المرسلینﷺ
محمد شاکر بن محمد المصری
* حدیقۃ الندیۃ فی الولادۃ الشریفیۃ المحمدیۃﷺ
سلیمان بن علی عباد
* فضل شہر ربیع الاول وما یتعلق بولادۃ النبیﷺ
محمد بن رجب بن عبدالعال بن موسیٰ بن حجر الشافعی
* البدر التمام فی مولد خیر الانامﷺ
شیخ حسین الجسر
* المولد النبوی المسمی النشاۃ المحمدیۃﷺ
ناصر الرواحی
* المورد الندی فی المولد المحمدیﷺ
عبداﷲ العلمی الحسینی
* مولد النبیﷺ
سید محمد عثمان بن ابن ابی بکر بن عبداﷲ المکی متوفی 1370ھ
* احسن القصص من الروایات المرضیۃ فی مولد واسراء ومعراج الحضرۃ المحمدیۃﷺ
شیخ عبدالمعطی الحجاجی الحسنی الصعیدی
* مولد النبیﷺ
الشیخ حسن کلیب المالکی
* مولد النبیﷺ
شیخ محمد البہانی
* مولد الرسولﷺ
شیخ محمد بن احمد بن جعفر القاضی الدمیاطی
* الابریز الدانی فی مولد سیدنا محمدالعدنانیﷺ
شیخ محمدالنووی
* مولد النبیﷺ
محمد امین بن علی السویدی
* الدرالنظیم فی مولد النبی الکریمﷺ
امام عمر بن ایوب ترکمانی
* القول المبین فی حکم مولد سید المرسلینﷺ
شیخ مفتاح بن صالح
* تاریخ الاحتفال بالمولد النبویﷺ
شیخ حسن سندوبی
* الضیاء الامع بذکر مولد النبی الشافعﷺ
شیخ حبیب عمر بن محمد بن سالم بن حفیظ
* البیان النبوی عن فضل الاحتفال بمولد النبیﷺ
شیخ محمود احمد الزین
* تنبیہ المادح المقلد علی ماکان علیہ سلف تنبتکوفی المولد
شیخ محمود بن محمد ددب تنبتکی
* القول اجلی فی الرد علی منکر مولد النبویﷺ
شیخ ابو ہاشم سید احمد الشریف
* مولد النبیﷺ المسمیٰ الاسرار الربانیہ
دکتور محمد عثمان میر غنی
* مولد النبویﷺ
شیخ غیث بن عبداﷲ غالبی
* اجوبۃ فی شان الاحتفال للمولد النبویﷺ
شیخ محمد فقیہ بن عبداﷲ
مجلس مولود میں ممنوعہ امور
مجلس مولود میں ہر اس چیز کو منع کیا جائے گا جو شریعت سے متصادم ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ محافل میلاد ہی کو بند کردیا جائے بلکہ طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کہ جو منکرات شرعیہ نظرآئے، ان کا خاتمہ کردیا جائے لیکن محافل مولود کا سلسلہ جاری رہے جیسا کہ کعبۃ اﷲ میں بتوں کے ہونے کی وجہ سے وہاں پر عبادت کرنے کو منع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس برائی (یعنی بتوں) کو دور کردیا گیا۔ لہذا اگر کسی جگہ خلاف شرع بات نظر آئے تو آپ اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدام کریں مثلا:
1۔ کسی جگہ میوزک کے ذریعے مجلس مولود سجائی گئی ہو تو اس کو منع کیا جائے گا اور اگر ایسا کرنا ناممکن یا مشکل ہو تو وہاں جانے سے گریز فرمائیں۔
2۔ اسی طرح عورتوں کی اتنی آواز سے پڑھنا کہ اجنبی مردوں تک آواز پہنچے منع ہے
3۔ مجلس مولود میں اتنی تاخیر کرنا کہ نماز کا وقت ہی جاتا رہے ناجائز و حرام ہے، ہاں اگر نماز باجماعت کا اہتمام ہو تو حرج نہیں ہے۔
4۔ مولود بیان کرنے کے لئے داڑھی منڈے غیر عالم نام نہاد اسکالرز کو ہرگز نہ لائیں بلکہ کوئی باعمل عالم دین مستند واقعات مولود بیان کرے۔
5۔ اسی طرح کفار و مشرکین سے مولود شریف کے لئے رقم یا چندہ لینا منع ہے
6۔ ایسے راستے میں مجلس مولود کرنا جوکہ عوام الناس کی عام آمدورفت کے لئے استعمال ہوتا ہو، اس کو رکاوٹ کھڑی کرکے محفل مولود کرنا مکروہ تحریمی ہے کہ حقوق العباد کا معاملہ ہے
7۔ اتنی بلند آواز سے مجلس مولود کرنا کہ ضرورت سے زائد ہو، مناسب نہیں ہے کہ اس کی تیز آواز کی وجہ سے گھروں میں بیمار لوگ، بچے، بوڑھے اور کاروباری لوگ جن کو صبح دفتر جانا ہوتا ہے، ان کے آرام میں خلل واقع ہوتا ہے۔ اس معاملہ کا خاص خیال رکھا جائے کہ حقوق العبادکے معاملے میں بروز قیامت پوچھ گچھ ہوگی۔
8۔ جس وقت مولود شریف پڑھا جائے تو حاضرین و سامعین کو متوجہ ہوکر اور دھیان سے سننا چاہئے تاکہ سرکارﷺ کا ذکر خیر ہو اور ہماری توجہ نہ ہو اور ہم اپنے عمل سے بے اعتنائی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہوں، یہ مناسب نہیں
Subscribe to:
Posts (Atom)