Friday, March 27, 2015

مسئلہ بدعت پر دیوبندیوں، وہابیوں سے 25 لاجواب سوالات

مسئلہ بدعت پر دیوبندیوں، وہابیوں سے 25 لاجواب سوالات

bidat par dio bandio or wahabio se suwalat

 لفظ بدعت جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے ایسا واضح ہے کہ جس نے فقہائے کرام کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا وہ ضرور اس لفظ کے صحیح مفہوم سے واقف ہوگا لیکن اس پرفتن زمانہ میں دو لفظ (۱) بدعت (۲) شرک ایسے ہر کسی کی زبان پر جاری ہیں کہ اس کی مثال پہلے نہیں دیکھی۔ ان وہابیوں، دیوبندیوں کو اس کا صحیح مطلب معلوم نہیں یا پھر یہ جان بوجھ کر بدعت اور شرک کا غلط معنی بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مطلب ان دو لفظوں (بدعت اور شرک) کا اس زمانے میں وہابیوں، دیوبندیوں نے لیا ہے وہ بالکل اس مطلب کے خلاف ہے جو فقہائے کرام وغیرہم نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اسلام کو تیرہ سو چون (1354) سال کا عرصہ ہوا ہے، تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علہم اجمعین اور ان کے بعد غوث قطب ابدال ہمیشہ یہ حضرات یہی فرماتے رہے کہ اﷲ عزوجل کے ذکر کے بعد حضور اکرمﷺ کے ذکر کا مرتبہ ہے اور رسول اﷲ کی تعظیم اور آپ کی محبت تمام امت پر واجب اور مدارِ ایمان ہے لیکن تیرہ سو چون (1354) سال کے بعد دیوبندی وہابی فرقوں نے بدعت اور شرک کا بہت عجیب اور نرالا مطلب نکالا ہے۔ یہ مطلب نہ ان کانوں نے کبھی سنا تھا اور نہ ان آنکھوں نے دیکھا تھا۔ آپ دیکھیں کہ حضور اکرمﷺ کے ذکر کا مرتبہ اﷲ کے ذکر کے بعد ہے لیکن دیوبندی وہابی اسے بدعت کہتے ہیں۔ وہ بھی محض دو وجہ سے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب کسی سنی بھائی نے اپنے ہاں میلاد کروایا (جس کو دوسرے معنوں میں ذکر رسولﷺ بھی کہتے ہیں) اور میلاد میں روشنی کی اس روشنی کی وجہ سے دیوبندیوں، وہابیوں نے اس پر فضول خرچی ہونے کا حکم صادر کردیا اور اگر ربیع الاول کے مہینے میں کیا تو اس کو تخصیص یعنی اس مہینے میں خاص کرنے کی وجہ سے بدعت کہا۔ یہ دو وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ذکر رسول ک حرام قرار دیا گیا۔ رہا مسئلہ قیام میلاد کا جو کہ اصل میں تعظیم رسول ہے، اس کو شرک قرار دے دیا لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرمﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے ایک ہستی قبلہ عالم اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اﷲ عنہ کو مامور فرمایا۔ متاخرین میں ایسی ہستی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آپ چونکہ عاشق خدا و عزوجل مصطفیﷺ تھے، دیوبندیوں، وہابیوں کی گستاخانہ تحریروں کو دیکھ کر چپ نہ رہ سکے۔ اس لئے آپ ہر باطل مذہب کا رد کیا لیکن دیوبندیوں کا وہابیوں کا رد ایسا لاجواب کیا کہ اعلیٰ حضرت کی زندگی میں کسی کو اس کا جواب لکھنے کی جرات نہ ہوئی۔ آپ کے وصال کے بعد دیوبندیوں، وہابیوں نے سوچا کہ اب کوئی جواب دینے والا نہیں اور اہل سنت و جماعت پر اعتراضات شروع کردیئے۔ جب حد سے زیادہ اعتراضات ہوگئے تو اس فقیر نے اس بات کا ارادہ کیا کہ جو شخص یا فرقہ حضور پرنور فخر موجودات سلطان دوسرا سرور کائناتﷺ کی شان مبارک میں گستاخی کرے گا جب تک میری زندگی باقی ہے اس کے رد میں انشاء اﷲ میرا قلم چلتا رہے گا اور ہر وہ مسئلہ جس میں ہمارے اور دیوبندیوں، وہابیوں کے درمیان اختلاف ہے، اس کو نہایت وضاحت سے لکھ کر مسلمانوں کے سامنے پیش کروں گا جس کو دنیا دیکھے گی کہ کون حق پر ہے۔ انشاء اﷲ الغرض چند سوالات ہر اس شخص کو سامنے یہ فقیر پیش کرتا ہوں جوکہ دیوبندی وہابی خیالات رکھتا ہو۔ امید ہے تسلی بخش جواب دیا جائے گا۔
سوال ۱: بدعت کس کوکہتے ہیں؟
سوال۲: کیا بدعت کی ایک ہی قسم ہے یا فقہا کے نزدیک اس کی چند قسمیں ہیں؟
سوال ۳: کیا بدعت سیۂ کا کرنا ہی حرام ہے یا ہر بدعت کا یہی حکم ہے؟
سوال ۴: کیا ہر وہ کام جس پر بدعت کا اطلاق ہوگا وہ حرام ہوگا یا نہیں؟
سوال ۵: حدیث مبارکہ میں من سن سنۃ حسنۃ الخ (مشکوٰۃ شریف) کا کیا مطلب ہے؟
سوال ۶: حدیث مبارکہ کل محدث بدعتہ وکل بدعتہ ضلالۃ اور سوال نمبر ۵ کی ذکر کردہ حدیث میں کیا فرق ہے؟ اس احداث (نئے کام) سے کون سا احداث مراد ہے؟
ہر احداث (نیا کام) مراد ہے یا کوئی خاص احداث (نیا کام)؟
سوال ۷: کیا ہر وہ کام جو حضور اکرمﷺ کے زمانہ اقدس میں نہ ہو آپ کے زمانہ اقدس کے بعد نکالا جائے وہ کل محدث کے تحت میں داخل ہوگا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
سوال ۸: کیا حضور اکرمﷺ کے زمانہ مبارکہ میں ختم حدیث شریف کے بعد طلباء کو پگڑیاں پہنائی جاتی تھیں جیسے کہ آپ مدارس میں طلباء کو ختم حدیث شریف کے بعدپگڑیاں بندھوائیں جاتی ہیں یا نہیں؟
سوال ۹: کیا زمانہ مبارکہ حضور اکرمﷺ میں ختم حدیث کے بعد جبہ مبارک بھی دیا جاتا تھا؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں رواج ہے؟
سوال ۱۰: کیا زمانہ اقدس میں حدیث شریف کے ختم ہونے پر سالانہ امتحان لیا جاتا تھا؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں نہایت اہتمام سے لیا جاتا ہے؟
سوال ۱۱: اپنے مدرسہ میں ۷ دن پڑھا کہ آٹھویں دن جمعہ کی چھٹی دینا کیا یہ طریقہ زمانہ اقدس حضور اکرمﷺ میں بھی تھا؟
سوال ۱۲: ختم حدیث شریف کے بعد آپ کے مدارس میں جو اسناد تقسیم کی جاتی ہیں، کیا یہ طریقہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں؟
سوال ۱۳: ہر سال شعبان کے مہینہ میں جلسہ کرنا اور علماء کو جمع کرنا، یہ طریقہ جلسے وغیرہ کا خاص سرکار مدینہ درود شریف کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں؟
سوال ۱۴: نکاح کے لئے خاص دن مقرر کرنا، تاریخ مقرر کرنا، اور خطوط بھیج کر لوگوں کو بلانا، کیا یہ طریقہ زمانہ نبوی درود شریف میں تھا یا نہیں؟ اور ایسی سنت جس میں بدعت شامل ہوجائے، اس کا کیا حکم ہے؟
سوال ۱۵: علماء کے آنے پر بڑے بڑے اخبارات اور اشتہارات شائع کرنا اور ان میں ’’حد سے زیادہ بڑھا کر‘‘ علماء کے القاب لکھنا کیا یہ باتیں ان پابندیوں اور اہتمام سے زمانہ نبوی میں تھیں یا نہیں؟ اگر تھیں تو ثبوت دیجئے کیونکہ آپ صاحبان کا دعویٰ ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جو زمانہ مبارک میں ہوا ہو اور ہم بغیر سنت کے قدم نہیں اٹھاتے۔ اگر یہ باتیں زمانہ اقدس میں نہ تھیں اور بعد میں نکالی گئی ہیں تو فرمایئے کہ یہ طریقے آپ کے استدلال کل محدث بدعت کے تحت میں داخل ہوئے یا نہیں؟ اس دعوے سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے یہ جتنے کام جو اوپر بیان ہوچکے ہیں کل محدث بدعۃ کے تحت میں داخل ہیں۔ اس کے باوجود ان کو کرنا جن کی اصل کسی زمانہ میں بھی موجود نہیں تھی، بدعت ضلالۃ ہے یا نہیں اور اگر ان کاموں کا حدیث شریف میں الستثغا ہوتو وہ فرمادیجئے اور اگر بعض داخل اور بعض خارج ہیں تو پھر اہل سنت و جماعت کے ہر کام پر آپ کااس حدیث شریف کو پیش کردینا درست ہے یا نہیں؟
سوال ۱۶: آپ (دیوبندی وہابی) کہتے ہیں کہ جو کام زمانہ نبوی میں جیسے تھا، ویسے ہی کرنا چاہے اس کو نئے اور مخصوص طریقے سے کرنا ناجائز ہے چنانچہ میلاد شریف اس کے باوجود کہ اس کی اصل زمانہ اقدس میں موجود تھی مگر مخصوص نہ تھی آپ نے اس کے باوجود کہ اﷲ کے ذکر کے بعد ذکر رسول کا درج ہہے بہت کم امور کی وجہ سے اس کو ناجائز کردیا جن امور کی وجہ سے اسے ناجائز کیا وہ یہ ہیں (۱) وقت مخصوص کرنا (۲) فرش وغیرہ بچھانا (۳) ہار اور پھول لاکر مجلس میں رکھنا (۴) محفل میلاد میں روشنی کرنا (۵) لڑکوں کا نعتیں پڑھنا (۶) یہ وہ کام ہیں جن کی وجہ سے محفل میلاد کو حرام کہا گیا حتی کہ یہاں تک بے ادبی کی کہ اس کو کنھیا (ہندو) کے جنم دن منانے کی طرح کہا حالانکہ (دیوبندی، وہابی) اس سے زیادہ کاموں کو مخصوص کرکے انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ علم زمانہ نبویﷺ سید پڑھنے یا پڑھانے کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں تھا لیکن دیوبندیوں نے اس علم کو اتنی قیدیوں میں مقید کیا کہ چار دیواریاں پکی بنوانا جس میں لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے جو بالکل سراسر فضول خرچی ہے اس کے اندر چند کمرے بنوانا اس میں قالین وغیرہ بچھانا پھر چند مولویوں کو چندہ جمع کرکے اس میں پڑھانے کے لئے مقرر کرنا پھر اس کو کسی زمانہ کے مخصوص کرنا صبح مثلا ۱۰ بجے سے لے کر ۲ بجے سے شام تک پڑھانا۔ غرض یہ ساری باتیں آپ نے اس علم کے ساتھ مخصوص کی ہیں۔ یہ زمانہ حضور اقدس میں انہیں پابندیوں اور اہتمام کے ساتھ تھیں یا نہیں؟ لہذا یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے نزدیک بدعت ہوئیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ پابندیان آپ کے قاعدے کے مطابق سخت بدعت ہوئیں اور بدعت کرنا آپ کے نزدیک حرام ہے یا نہیں؟ تو فرمایئے کہ آپ کے مدارس بدعت ہوئے یا نہیں؟ اگر یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے مدارس میں جائز ہیں تو میلاد شریف ان امور کی وجہ سے کیوں ناجائز اور حرام ہے؟ ان دونوں میں فرق اور وجہ ترجیح تفصیل سے بیان کریں۔
سوال ۱۷: جب کوئی آپ پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے جواب میں آپ کا آخری جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان باتوں کو عادتاً کرتے ہیں اور تم میلاد شریف عبادتاً کرتے ہو لہذا ہمارے کام جائز اور تمہارے ناجائز ہیں لہذا آپ کے اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب محض مسلمانوں کو دکھانے کے لئے گڑھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ بات ثابت نہ ہو کہ دیوبندی وہابی لاجواب ہوگئے ہیں۔ تمہارے اس جواب میں چند اعتراضات لازم آتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اس جواب سے معلوم ہوتا ہ ے کہ آپ کے نزدیک جو کام عادتاً کیا جائے اگرچہ وہ شریعت میں منع ہو تب بھی اس کا کرنا جائز ہے لہذا اگر کوئی شخص زنار (یعنی وہ دھاگا جو ہندو گلے اور بغل کے درمیان ڈالے رہتے ہیں) پہنے اور آپ سے فتویٰ طلب کرے کہ میں ان چیزوں کو عادتاً کرتا ہوں میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ اس کو جائز کہیں گے؟ اگرآپ کے نزدیک یہ کام بصورت فتویٰ جائز ہوسکتے ہیں، تب تو پھر ایک اور نئی شریعت بنانی پڑے گی اور پہلے علماء کے تمام فتاویٰ جات آپ کو دریا میں پھینکنے پڑیں گے چنانچہ آپ نے ایک نئی شریعت اور نیا دین تعظیم رسول اکرمﷺ کے خلاف کھینچ تان کر نکال ہی لیا کیونکہ جن کی تعظیم تمام انبیاء اور رسل اور ملائکہ حتی کہ تمام کائنات نے کی تھی۔ ان کی تعظیم تو آپ کے نزدیک فضول کام ہے اور جو کام شریعت میں منع ہو پھر اس کو عادتاً کرنا کیسے جائز ہے؟ اس واسطے کہ جیسے پکڑ عبادت میں ہے، ویسے ہی عادت میں بھی ہے دوسری بات یہ کہ حدیث کل محدث بدعۃ (ہر نیا کام بدعت ہے) کا مطلب عام ہے اس میں تمام نئے کام (خواہ وہ عادتاً ہوں یا عبادتاً) شامل ہیں۔ حدیث پاک جوکہ واضح ہو اس میں اپنی رائے سے پابندی لگانا باطل ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر آپ کہیں کہ اس کے برعکس عبادت اور عادت میں یہ فرق ہے کہ عبادت میں ثواب ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عادت میں ثواب نہیں ہوتا تو مجھے بتایئے کہ اگر کوئی آدمی اپنے بچوں کے کانوں میں کوئی زیور پہنا دے اور کہے کہ میں عادتاً اس کو پہناتا ہوں تو کیا اس کا یہ کام آپ کے نزدیک جائز ہوگا؟ چوتھی بات یہ کہ اگر آپ کی مراد عادت اور عبادت سے یہ ہے کہ ان کاموں کو ہم رسماً کرتے ہیں تو جواب دیجئے کہ آپ کے بیان سے کیا رسموں کا کرنایا ان کی پیروی کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ حالانکہ آپ کی کتابوں میں رسموں کاکرنا اوران کی پیروی کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے پھر یہاں کیوں ان رسموں کا کرنا یا ان کی پیروی جائز ہوئی؟ اگر آپ اس کا جواب یوں دیں کہ ہمارے یہاں رسوم جاہلیت کا کرنا اور ان کی پیروی کرنا منع ہے، بزرگوں کی رسم کی پیروی کرنا ہمارے یہاں منع نہیں، ان کاموں میں ہم رسم بزرگان کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ کسی کام میں پابندی اور اہتمام بدعت ہے۔ اس کے باوجود رسم صالحین پابندیوں اور اہتمام کے باوجود درست ہے۔ تو بتایئے کہ میلاد شریف (جوکہ اصل میں ذکر رسولﷺ ہے اس سے زائد کون سا کارخیر ہے اور کون سی رسم صالحین ہوسکتی ہے جس پر تمام حرمین شریفین کے علماء اور تمام امت متفق ہے) کو کیوں حرام کردیا؟ آپکے نزدیک تلک ہندو کی برسی میں شامل ہونا(جوکہ اﷲ و رسول اور دین اسلام کا بدترین دشمن تھا) اور ہندوئوں کے لیڈروں کی دہلی کی جامع مسجد کے ممبروں پر چڑھ کر تعریفیں کرنا جائز ہے اور میلاد رسول آپ کے نزدیک ایک فضول کام ہے (نعوذ باﷲ) یہ فقیر کہتا ہے کہ جومولوی صاحبان دین فروش ہیں ایسے علماء کا مسلمانوں کو خطاب سننا اور ان کی پیروی کرنی حرام ہے، ایسے ہی ہر اس عالم کا ذکر ہے جو کسی کافر سے ملے۔
سوال ۱۸: آپ (دیوبندی و وہابی) کہتے ہیں کہ یہ کام عادتاً اور عبادتاً ناجائز ہیں۔ کسی خاص مہینے یا تاریخوں میں کوئی کام کرنا بدعت ہے چنانچہ میلادشریف کو آپ نے صرف ربیع الاول کے مہینے میں کرنے کی وجہ سے ناجائز قرار دیا اور جس شخص نے اس میں اپنی ذاتی کمائی کے ثند روپے خرچ کئے، اس پر آپ نے فضول خرچی کا حکم دے دیا لہذا یہ دوسری وجہ ہے اس کے حرام ہونے کی، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیوبندی اس سے زیادہ پابندی اور اہتمام سے فضول خرچی کرتے ہیں مگر وہ تمام کام یا تو مستحب تصور کرتے ہیں یا فعل مسنون جن کو پابندی سے کرتے کئی سال گزر گئے۔ یہ فقیر ان کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ شعبان کے مہینے میں جلسہ کرنا اور طلباء کے لئے چندہ مانگا جاتا ہے اس چندے سے بڑے بڑے اشتہارات چھپوانا جس میں ہزاروں روپیہ فضول خرچ ہوتا ہے۔ ان پیسوں سے جلسہ میں کرایہ کی کرسیاں لاکر ڈالنا، بڑے بڑے شامیانے لگوانا لوگوں کو دکھانے کے لئے، اعلیٰ فرض بچھانا، بجلی کی روشنی کرانا اب آپ ہی بتایئے کہ یہ پابندیاں اور اہتمام ہیں یا نہیں؟ اور یہ سب فضول خرچی ہیں یا نہیں؟ اور یہ بدعات ہیں یا نہیں؟ اب ملاحظہ کریں کہ وہ چندہ جو طلباء کا حق ہے اس سے علماء کو سفر کے لئے پیسے دینا اور علماء کا س خرچ کو لیناجائز ہے یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مانگا کسی اور کام کے لئے جائے اور خرچ کہیں کیا جائے، کیا یہ خدا کی مخلوق کے سامنے جھوٹ بول کر لینا ہے یا نہیں؟ بتایئے کہ دیوبندیوں، وہابیوں کے جلسوں میں ایسے ناجائز کام جمع ہیں مگر ہمیشہ ان کو نہایت اہتمام سے کیا جاتا ہے۔ ان کے جلسوں میں سب پابندیاں اور اہتمام مستحب ہیں لیکن میلاد شریف میں ایک پابندی بھی آپ کے نزدیک اس قدر حرام ہے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اپنے جلسوں اور محافل میلاد میں وجہ فرق بتایئے۔
سوال ۱۹: حدیث شریف پڑھا ذکر رسول ہے یا نہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ بھی ذکر رسول ہے تو بتایئے کہ اس کے لئے اہتمام کرنا فرش بچھانا، جگہ صاف کرانا، خاص کمرے مخصوص کرنا (جن کو دارالحدیث کہتے ہیں) حرام ہے یا نہیں؟ اگر یہ اہتمامات اس اس ذکر رسول میں کرنا حرام نہیں تو فرمایئے کہ میلاد شریف آپ کے نزدیک اہتمام سے کرنا کیوں حرام ہوا، وجہ فرق بتایئے۔
سوال ۲۰: حدیث شریف پڑھانا ذکر رسولﷺ ہے یا نہیں۔ اس کو آپ صاحبان عبادتاً کرتے ہیں یا عادتاً؟ اگر آپ نے اس کو عادتاً کیا اور اس سے آپ کو ثواب مطلوب نہیں تھا۔ تب بھی بتایئے اور اگر آپ نے اس فعل کو ثواب کی نیت سے کیا تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ذکر رسولﷺ بغرض ثواب کرتے ہیں۔ تب تو یہ عبادت بھی شامل ہوا، پوچھنا یہ ہے کہ اگر کسی نے میلاد شریف بغرض ثواب کیا تووہ کیوں عبادت میں شامل ہوکر حرام ہوگیا اور حدیث شریف بھی ذکر رسولﷺ ہے۔ یہ بطور عبادت کیوں جائز کرلیا گیا ہے؟
سوال ۲۱: آپ (دیوبندی، وہابی) صاحبان سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مدارس میں خرچ کیوں کرتے ہو۔ یہ فضول خرچی نہیں ہے؟ تو آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ دین کا کام ہے۔ اس لئے نیک کام کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذکر رسولﷺ آپ کے نزدیک دنیا کا کام ہے اور فضول کام ہے؟ کہ جس میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے، اس کام کو کیا الفاظ دیئے جائیں۔
سوال ۲۲: سوئم کہلواتے اور چالیسویں کے کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
کیا آپ جیسے علماء کوجو ’’صاجی بدعت‘‘ اس کا کھانا جائز ہے؟ اور غرباء کو اس کا کھانا حرما ہے؟ یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ اس فقیر نے بچشم خود سوئم اور چالیسویں کا کھانا (ان کو) کھاتے دیکھا ہے جس کا کھانا اغنیاء کو بالکل حرام ہے، تفصیلی جواب دیں۔
سوال ۲۳: کیا تعویذ گنڈوں کے بہانے سے لوگوں سے روپیہ لینا جائز ہے یا نہیں؟
سوال ۲۴: جب انبیاء علیہم السلام کو باری تعالیٰ مخلوقات پر بھیجتا ہے تو اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو کوئی صلاحیت اور قابلیت ایسی عطا فرمائی جاتی ہے جس سے وہ علوم اور حقائق بغیر فرشتوں کے دریافت کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یا انبیاء علیہم السلام فرشتوں کے رحم پر چھوڑے جاتے ہیں کہ اگر فرشتے ان کے کان میں کچھ کہہ دیں تب تو ان کو خبر ہوجاتی ہے اور بغیر فرشتوں کے بالکل بے خبر اور ہر علم سے مبرا ہوتے ہیں جیسا کہ آپ کے عقائد سے بالکل واضح ہے۔
سوال ۲۵: خاص کر شعبان کے مہینے میں جلسہ معہ اہتمام اور پگڑیاں وغیرہ بندھوانا یہ تمام افعلا آپ صاحبان کے فعل مباح ہیں یا مستحب یا واجب؟ اگر مستحب یا واجب ہیں تو دلیل دیجئے اور اگر فعل مباح ہیں تو ان افعال کوہر سال الترام سے کرنا سنت یا واجب ہونے کا شبہ ڈالتا ہے یا نہیں؟ لہذا ان کا چھوڑنا لازم ہے یا نہیں۔ امید ہے کہ ۲۵ سوالوں کا جواب تفصیل سے تحریر فرمائیں گے۔

Wednesday, March 18, 2015

دم درود اور تعویزات کی شرعی حیثیتtaweez ki sharai haisiyat

دم درود اور تعویزات کی شرعی حیثیت

taweez ki sharai haisiyat
بعض شیطانی قوتیں ہر وقت یہی سوچتی اور منصوبہ بندی کرنے میں مصروف رہتی ہیں کہ اختلافات و تعصبات کی ماری ہوئی اس امت کو کہاں کہاں مذہبی، سیاسی اور مسلکی تنازعات میں الجھانے کے امکانات ہیں۔ چنانچہ وہ مذہب و مسلک کے نام پر اور کبھی سیاست و ثقافت کے نام پر صرف عوام ہی نہیں بلکہ نام نہاد خواص کو بھی گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈا سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دیکھاتے ہیں۔
دنیا میں موت و حیات اور صحت و بیماری کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بیماری بھی اﷲ ہی پیدا کرتا ہے اور صحت و شفاء بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُسی نے ہمیں دواء و علاج کا حکم دیا ہے اور اُسی نے دواؤں میں اثر رکھا ہے۔ جس طرح دواؤں میں شفاء کا اثر رکھا ہے اسی طرح دُعاء اور دم درود میں بھی شفاء کا اثر رکھا ہے۔ دواؤں اور دعاؤں میں وہ چاہے تو شفاء ہے نہ چاہے تو کچھ نہیں۔ ہر دواء میں ہر وقت ہر ایک کیلیے شفاء ہی ہوتی تو ہسپتالوں سے علاج کے بعد شفایاب ہو کر ہی نکلتا، کسی کی میت گھر نہ پہنچتی۔ یہی حال دم درود اور جھاڑ پھونک کا ہے۔ جیسے صحیح تشخیص کے بعد معیاری دواؤں کے استعمال سے امید کی جا سکتی ہے کہ مریض شفایاب ہو اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے نام و کلام سے کسی بیمار کو کسی بھی بیماری سے شفایاب ہونے کے لیے قرآن و حدیث میں موجود پاک کلام سے جھاڑ پھونک یعنی دم کرنے سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ شفاء دینا، نہ دینا اس کا کام ہے۔ چارہ علاج کرنا ہمارا کام ہے۔ جیسے طبی طریقہ ہائے علاج اختیار کرنے میں کوئی کسی کو طعن و طنز نہیں کرتا۔ اﷲ کے نام و کلام سے دم کرنے کے طریقہ علاج پر زبان طعن و تشنیع دراز کیوں کی جائے ؟
اچھے بُرے کلمات میں اثر کا کون انکار کر سکتا ہے؟ جَزاکَ اﷲ خَيْرًا، السَّلَامُ عَلَيْکُمْ. بھی کلام ہے جس کے سننے والے کہنے والے پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ لعنتی، خبیث، شیطان بھی کلام ہے جس کے سننے والے پر بُرے اثراث مرتب ہوتے ہیں۔ یونہی کسی بیمار پر کلماتِ طیّبات جن کا معنٰی و مفہوم بھی جانتا ہے جن میں کفر و شرک کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا۔ اگر پڑھ کر کسی بیمار کو جھاڑا جائے۔ پانی دودھ وغیرہ پر دم کر کے اُسے استعمال کیا جائے۔ اس میں کیا حرج ہے؟ اس میں کونسا کفر و شرک پایا جاتا ہے۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ، ملائکہ اور انبیاء و اولیاء کا طریقہ حقہ ہے۔ پھر اس کے خلاف محاذ آرائی اور مخالفت فی سبیل اﷲ فتنہ و فساد نہیں تو کیا ہے؟ یہ جہالت و تعصب نہیں تو کیا ہے ؟اسے بدعت و شرک کہا جائے تو ہمیں بتایا جائے کہ پھر توحید و سنت کیا ہے ؟اس مضمون میں اسی کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔

لغوی تحقیق

قال ابن الأثير : الرُّقْيَةُ العُوذة الّتی يُرْقیٰ بها صاحبُ الآفةِ کالحُمَّی والصَّرَع وغير ذلک من الآفات، و قد جاء فی بعض الأَحاديث جوازُها و فی بعضِها النَّهْيُ عنها.
ابن اثیر الجوزی نے کہا’’رُقْيَۃُ‘‘وہ دُعا جس سے مصیبت زدہ کو جھاڑا جائے۔ مثلاً بخار، بے ہوشی وغیرہ، آفات۔ بعض احادیث میں اس کا جواز اور بعض میں ممانعت آئی ہے۔
فمنَ الجواز قوله : استَرْقُوا لَها فاِنَّ بها النَّظْرَة، أی اطْلبُوا لها من يَرْقِيها.
’’جواز کی ایک مثال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے : اسے جھاڑ پھونک کرو اس عورت کو نظربد لگ گئی ہے، مطلب یہ کہ اس کے کوئی جھاڑ پُھونک کرنیوالا تلاش کرو!‘‘ اور ممانعت کی ایک مثال یہ ہے :
لا يَسْتَرْقُون ولا يَکْتَوُون.
 ’’نیک لوگ نہ جھاڑ پھونک کریں نہ داغیں۔‘‘

احادیث کے مابین مطابقت

جھاڑ، پھونک اوردم درود کی تائید اور مخالفت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ دونوں اطرف کی ان احادیث میں مطابقت یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ جھاڑ پھونک مکروہ ہے : (1)جو عربی زبان میں نہ ہو (2) اﷲ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے اس کی صفات اور کلام سے نہ ہو، اس کی نازل کردہ کتابوں میں نہ ہو اور عقیدہ یہ رکھا جائے کہ دم درود لازمی فائدہ دیگا اور اسی پر توکل کر لیا جائے۔ یہی مطلب فرمان پاک کا ہے :
ماتوکّلم من استرقیٰ.
’’جس نے جھاڑ پھونک کیا اس نے توکل نہیں کیا‘‘
اس کے خلاف جو جھاڑ پھونک ہے وہ مکرہ نہیں :
کالتعوّذ بالقرآن وأَسمآء اﷲ تعالٰی والرَُّقَی المَرْوِيَةِ.
’’جیسے قرآن کریم اور اﷲ تعالیٰ کے اسمائے مقدسہ اور اس کی صفات اور اس کی نازل کی گئی کتابوں میں جو کلام پاک ہے اور جو دم جھاڑ حدیث پاک میں مروی ہے۔‘‘
اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا : ’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی (مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ)‘‘اور جیسے حضور کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اعْرِضُو ْهَا عَلَيَ فعرَضْناها فقال لا باْس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّا کانوا يتلفظون به و يعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لا يعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله.
’’وہ دم جھاڑ میرے سامنے لاؤ ! ہم نے پیش کر دیا فرمایا کوئی حرج نہیں یہ تو وعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولا کرتے اور جس شرک کا دورِ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے یا جو عربی زبان میں نہ ہو جس کا ترجمہ نہ آئے اور نہ اس کا مفہوم تک پہنچنا ممکن ہو ایسا دم جائز نہیں۔ رہا سرکار کا یہ فرمان کہ : ’’نظربد اور بخار کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے دم درود نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کر کوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا۔ اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اور آپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔ الخ
  1. علامه ابن منظور افريقی، متوفی711ه، لسان العرب، 5 : 294، طبع بيروت
  2. علامه سيد مرتضي الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، تاج العروس شرع القاموس، 10 : 154، طبع بيروت

احادیث مقدسہ کی روشنی میں

1۔ حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما أنزل اﷲ داء اِلَّا أنزلَ له شفاء.
’’اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کے لیے شفاء نہ اتاری ہو۔‘‘
  1. بخاری، المتوفی 256ه، الصحيح، 5 : 2151، کتاب الطب، رقم : 5354، دار ابن کثيراليمامة. بيروت، سن اشاعت 1987ء
  2. ابن ماجه، المتوفی 275ه، السنن، 2 : 1138، کتاب الطب، باب لمريض يشتهی الشی، رقم : 3439، دارلفکر. بيروت
  3. بزار، المتوفی 292ه، المسند، 4 : 282، رقم : 1450، مؤسسة علوم القرآن، بيروت، سن اشاعت 1409ه
2۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لِکُلِّ دائٍ دواءٌ، فاذا اُصِيْبَ دواءٌ برَأ باذن اﷲ عزوجل.
’’ہر بیماری کیلیے دواء ہے جب دواء بیماری کو پہنچتی ہے، بیماری اﷲ عزوجل کے حکم سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘‘
  1. مسلم، المتوفی 261ه، الصحيح، 4 : 1729، رقم : 2204، داراحياء التراث العربي. بيروت
  2. حاکم، المتوفی 405ه، المستدرک، 4 : 445، رقم : 8219، دارلکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1990ء
  3. ابن حبان، المتوفی 354ه، الصحيح، 13 : 428، رقم : 6063، مؤسسة الرسالة. بيروت، سن اشاعت 1993ء
  4. بيهقی، المتوفی 458ه، السنن الکبری، 9 : 343، رقم : 19342، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1994ء
  5. حميدی، المتوفی 488ه، الجمع بين الصحيحين، 2 : 386، رقم : 1627، دار ابن حزم لبنان. بيروت، سن اشاعت 2002ء
3۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :
 رخَّصَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الرُّقْيَةَ مِنَ العين وَالحُمَةِ والنَّمْلة.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی
(1) نظربد
(2) بچھو وغیرہ کے کاٹے پر
(3) پھوڑے پھنسی کیلیے۔‘‘
  1. مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2196
  2. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 2 : 655، رقم : 2164
  3. نسائی، المتوفی 303ه، السنن، 4 : 366، رقم : 7541، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1991ء
  4. ابن ابی شيبه، المتوفی 235ه، المصنف، 5 : 43، رقم : 23536، مکتبة الرشد. الرياض، سن اشاعت 1409ه
  5. احمد بن حنبل، المتوفی 241، المسند، 3 : 118، رقم : 12194، مؤسسة قرطبة. مصر
4۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
 أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان يأمرها أن تسترقی من العين.
’’کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) کو نظربد سے بچنے کیلیے جھاڑ پھونک کا حکم دیا کرتے تھے۔‘‘
متفق علیہ
  1. بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5406
  2. مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2195
  3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1161، رقم : 3512
  4. هندي، المتوفی 975ه، کنزالعمال، 7 : 51، رقم : 18369، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1998ء
5۔ امّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
انَّ النّبیّ صلی الله عليه وآله وسلم رَأی فی بيتها جاريةً فی وَجْهِهَا سَفْعَةً فقال اِسْتَرْقُوْا لها فانّ بها النظرة.
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے گھر ایک لڑکی دیکھی جس کا چہرہ زرد تھا۔ فرمایا : اسے جھاڑ پھونک کرو، اسے نظر لگ گئی ہے۔‘‘
متفق علیہ
  1. بخاری، الصحيح، 5 : 2167، رقم : 5407
  2. مسلم، الصحيح، 4 : 1725، رقم : 2197
  3. حاکم، المستدرک، 4 : 236، رقم : 7486
  4. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4 : 228، رقم : 3441
6۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :
نهٰی رسُولُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم عنِ الرُّقی، فجاء آل عمرو بن حزم اِلی رسول صلی الله عليه وآله وسلم فقالوا يارسول اﷲ اِنّه کانت عندنا رقيةً نرقی بها من العقرب وانک نهيت عن الرقی قال فَعَرضُوْهَا عليه فقال ما أری بأسا من استطاع منکم أنْ ينفعَ اُخاه فَلْيَنْفَعْهُ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا، عمرو بن حزم کے خاندان والوں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یا رسول اﷲ ! ہمارے پاس ایک دم (ورد) تھا، جس سے ہم بچھو کے کاٹے کو جھاڑتے تھے اور آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرما دیا ہے، ان لوگوں نے وہ ورد وظیفہ سرکار کے سامنے پیش کیا، فرمایا مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، تم میں جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے اسے ضرور نفع پہنچائے۔‘‘
  1. مسلم، الصحيح، 4 : 1726، رقم : 2199
  2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 315، رقم : 14422
7. عوف بن مالک الاشجعی سے روایت ہے : ہم لوگ دور جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے :
فَقُلْنَا يارَسُولَ اﷲ کَيْفَ تَری فِيْ ذٰلک؟
’’تو ہم نے عرض کی یا رسول اﷲ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
فرمایا :
اِعْرِضُوْا عَلَيَ رُقاکم، لَا بأسَ بالرُّقیٰ ما لَمْ يکُنْ فِيْهِ شِرکٌ.
’’اپنا جھاڑ پھونک مجھ پر پیش کرو (پھر فرمایا) جب تک شرک نہ ہو جھاڑ پھونک میں حرج نہیں۔‘‘
  1. مسلم، الصحيح، 4 : 1727، رقم : 2200
  2. حاکم، المستدرک، 4 : 236، رقم : 7485
  3. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 3 : 452، رقم : 2974
  4. بيهقی، السنن، 9 : 349، رقم : 19380
  5. عبد اﷲ بن وهب، المتوفی197ه، الجامع فی الحديث، 2 : 792، رقم : 714، دارابن الجوزی السعودية، سن اشاعت 1996ء
  6. طبرانی، المتوفی 360ه، المعجم الکبير، 18 : 49، رقم : مکتبة الزهراء، الموصل 1983ء
8. عن الشفاء بنت عبد اﷲ قالت دخل علٰی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم و أنا عند حفصة فقال لي الا لتُعَلِّميْنَ هٰذه رقية النملة کما عَلَّمْتِيها الکتابة.
’’سیدہ شفاء بنت عبد اﷲ سے روایت ہے میں ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھی، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ فرمایا : شفاء ! بی بی حفصہ کو پھوڑے پھنسی کا دم کیوں نہیں سکھاتیں ؟ جیسے تم نے اسے لکھنا سکھایا۔‘‘
  1. أبوداؤد، المتوفی 275ه، السنن، 4 : 11، رقم : 3887، دارالفکر
  2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 372، رقم : 27140
  3. هندی، کنزالعمال، 10 : 25، رقم : 28359
9. حضرت عثمان بن عبد اﷲ بن موھب سے مروی ہے :
 أرْسَلَنِی أَهْلِی اِلٰی أُمِّ سَلَمَةَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ وَقَبَضَ اِسْرَائِيلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ فِضَّةٍ، فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَر ِالنَّبِی ِّصلی الله عليه وآله وسلم وَ کانَ اِذَا أَصَابَ الْاِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْئٌ بَعَثَ اِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فاطَّلَعْتُ فی الجُلْجُلِ فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.
’’میرے گھر والوں نے ایک پیالے میں پانی ڈال کر مجھے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت بھیجا اسماعیل نامی راوی نے تین انگلیوں کے ذریعے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ اتنا چھوٹا تھا۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک موجود تھا۔ جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا برتن سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں بھیج دیتا اور وہ اس بال مبارک کو اس پانی میں ڈبو دیتی تھیں، میں نے پیالے میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اس میں کچھ سرخ بال نظر آئے۔‘‘
1.بخاری، الصحيح، 5 : 2210، رقم : 5557
10۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے :
 أنّ النّبی ّصلی الله عليه وآله وسلم کانَ ينفث علٰی نفسه فی المرض الّذی مات فيه بالْمُعَوِذاّتِ. فلمّا ثقَل کُنْتُ أنفث عليه بهنّ واَمْسَحُ بيد نفسه لبرکتها فسألت الزّهری کيف ينفث؟ قال کانَ يَنْفِثُ علٰی يديه ثم يَمْسَح بهما وجهه.
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض موت میں معوّذات (سورہ خلق، سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے۔ جب کمزور ہو گئے تو وہی کلمات پڑھ کر میں دم کرتی تھی اور میں حصول برکت کیلیے آپ سرکار کے ہاتھ مبارک چُھوتی۔ معمر کہتے ہیں میں نے امام زہری رحمہ اﷲ سے پوچھا حضور اپنے اوپر کیسے دم کرتے تھے؟ انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کر کے چہرہ اقدس پر مل لیتے تھے۔
بخاری، الصحيح 5 : 2165، رقم : 5403
امام بخاری رحمہ اﷲ نے صحیح بخاری میں : الرُّقیٰ بفاتحۃ الکتاب ’’فاتحہ سے دم کرنا‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک باب قائم کیا ہے۔
11۔ ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے :
 أنّ ناسًا من أصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم أتَوْا علیٰ حيّ مِّنْ أحْياء العرب فلم يقرو هم فبينما هم کذٰلک اِذْ لُدِغ سَيد أوليئِکَ فقالوا هل معکم من دواء أوراقٍ، فقالوا : انّکم لم تَقْرُونا و لانفعلُ حتٰی تَجْعَلُوا لنا جُعْلًا فجعلوا لهم قطيعًا من الشاء فجعل يقرأُ بأم القرآن و يجمع بُزاقه ويتفلُ فبرأ فاُتُوْا بالشاء فقالوا لا ناخذه حتٰی نسأل النّبیّ صلی الله عليه وآله وسلم. فسألوه فضحک و قال مأ ادرٰک أنها رُقْيَة ٌخذوها واضربوا لی بِسَهْمٍ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام کا قبائل عرب میں سے ایک قبیلہ پر گذر ہوا۔ انہوں نے ان صحابہ کرام کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی اثناء میں ان لوگوں کے سردار کو سانپ یا بچھّو کا ڈنگ لگا۔ بستی والوں نے کہا تمہارے پاس کوئی دواء یا دم کرنے والا ہے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا : تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی (کھانا نہیں کھلایا) ہم (بھی) دم نہیں کریں گے جب تک بکریوں کا پورا ریوڑ ہمیں نہ دو اب ان لوگوں نے بکریوں کا ریوڑ ان حضرات کو دیا حضرت ابو سعید خُدری رضی اﷲ عنہ نے سورہ فاتحہ پڑھ کر دم، جھاڑ شروع کر دیا۔ لعاب دہن جمع کر کے زخم پر لگاتے جاتے۔ وہ شخص ٹھیک ہو گیا۔ بکریوں کا ریوڑ ان کے سپرد کرنے لگے تو صحابہ کرام کہا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر نہیں لیں گے۔ پھر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا آپ ہنس پڑے۔ فرمایا : تجھے کیسے پتہ چل گیا کہ یہ دم ہے ؟ لو ! اور میرا حصہ مجھے دو !
بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5404
12۔ ابن عباس رضی اﷲعنہما کی روایت میں اتنا اضافہ ہے :
فکرهوا ذلک وقالوا أخذت علٰی کتاب اﷲ أجرا حتی قدموا المدينة فقالوا يا رسول اﷲ أخذ علی کتاب اﷲ أجرا، فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم انّ أحقّ ما أخذتم عليه أجرا کتاب اﷲ.
’’ساتھیوں نے اسے ناپسند کیا اور کہا آپ نے اﷲ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ یہاں تک کہ مدینہ منورہ پہنچے اور کہا یا رسول اﷲ (ابو سعید خدری ) انہوں نے اﷲ کی کتاب ہے۔ اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک جس چیز پر تم اجرت لینے کے زیادہ حقدار ہو، وہ اﷲ کی کتاب ہے۔‘‘
1.بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5405
2.حميدی، جمع بين صحيحين، 2 : 75، رقم : 1082
یعنی لوگ جادو ! شرکیات، شیطانی ٹونے ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک کے ذریعہ پیسہ کماتے ہیں جو باطل اور شیطنت ہے۔ تم نے تو ستھرا سودا کیا۔ قرآن کریم سے دم کیا اور اس پر اُجرت لی جو سیدھا راستہ ہے۔
13۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
 أمرنی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أو أمر أن يسترقیٰ من العين.
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا (یا حکم دیا) کہ نظر بد سے بچنے کیلیے دم کیا جائے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5 : 2166، رقم : 5406
14۔ اسود بن زید رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے :
سأَلت عائشة عن الرُّقْيَة من الْحُمَةِ. فقالت : رخّص النبی صلی الله عليه وآله وسلم الرُّقْيَةَ من کل ذی حُمَة.
’’میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے سانپ یا بچھو وغیرہ کے کاٹے پر دم کرنے کا پوچھا تو آپ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر بچھو، سانپ وغیرہ کے ڈسے پر دم کرنے کی اجازت دی۔‘‘
  1. بخاری، الصحيح، 5 : 2167، رقم : 5409
15۔ عبد العزیز بن صہیب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے میں اور ثابت بنانی حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ ثابت نے کہا اے ابوحمزہ (انس کی کُنیت) میں بیمار ہوں۔ حضرت انس نے فرمایا : کیا آپ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والا دم نہ کروں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ انہوں نے یہ دم کیا :
اللّٰهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاس اِشْفِ أنْتَ الشَّافِيْ لَا شَافِيَ اِلَّا اَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا.
’’اے اﷲ لوگوں کے پروردگار تکلیف دُور فرمانے والے شفاء عطا فرما، تُو ہی شفاء دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفاء دینے والا نہیں، ایسی شفاء جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘
  1. بخاری، الصحيح، 5 : 2167، رقم : 5410
  2. حميدی، جمع بين صحيحين، 2 : 630، رقم : 2076
  3. بيهقی، الدعوات الکبير، 2 : 296، رقم : 508، منشورات مرکز المخطوطات الکويت، سن اشاعت 1993ء
16۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اہل خانہ کیلیے اس طرح دم کرتے تھے۔ دائیاں ہاتھ مبارک دردکی جگہ رکھ کر یہ دعا پڑھتے :
اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أذْهَبِ الْباَسَ، اشْفِه وَاَنْتَ الشَّافِيْ لَا شَفآءَ اِلَّا شِفَاؤُک شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا.
 ’’اے اﷲ ! لوگوں کے پروردگار بیماری ختم فرما اور اسے شفاء عطا فرما، اور تو وہی شفاء بخشنے والا ہے۔ شفاء تو بس تیری شفاء ہے، ایسی شفاء جو بیماری کا نام و نشاں نہ چھوڑے۔‘‘
بخاری، الصحيح 5 : 2168، رقم؛ 5411
17۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح دم فرماتے :
اَمْسَحِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِکَ الشِّفَآءُ لَا کَاشِفَ لَه اِلَّا أنْتَ.
’’تکلیف دُور فرما پروردگار عالم ! تیرے ہی ہاتھ ہے شفاء اس تکلیف کو تیرے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں۔‘‘
  1. ابن حبان، الصحيح، 13 : 463، رقم : 6096
  2. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4 : 138، رقم : 3251
  3. عبد اﷲ بن وهب، الجامع فی الحديث، 2 : 784، رقم : 706
  4. اسحاق بن راهويه، المسند، 3 : 1005، رقم : 1744، مکتبة الايمان المدينة المنورة، سن اشاعت1991ء
  5. بيهقی، الدعوات الکبير، 2 : 298، رقم : 510
18۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرماتے تھے :
بِسْم اﷲ تُرْبَة اَرْضِنا برِيْقَة ُبَعْضِنَا يَشْفِيْ سَقِيْمَنَا بَاِذْنِ ربِّنَا.
’’اﷲ کے نام سے یہ ہماری زمین کی مٹی ہے اور ہمارے بعض بزرگوں کا لعاب (تھوک) یہ شفاء بخشے گا ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے‘‘
متفق علیہ
  1. بخاری، الصحيح، 5 : 2168، رقم : 5413
  2. مسلم، الصحيح، 4 : 1724. رقم : 2194
  3. حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8266
  4. ابن حبان، الصحيح، 7 : 238، رقم : 2973
  5. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4 : 171، رقم : 3306
  6. نسائی، المتوفی 303ه، السنن، 4 : 368، رقم : 7550، دارالکتب العلمية. بيروت، سن اشاعت 1991ء
  7. ابن ماجه، السنن، 2 : 1163، رقم : 3521
  8. ابن ابی شيبة، المصنف، 5 : 46، رقم : 23569
  9. عبداﷲ بن الزبير، المتوفی219ه، المسند، 1 : 123، رقم : 252، دارلکتب العلمية مکتبة المتنبی بيروت. قاهره
  10. أبويعلی، المتوفی307ه، المسند، 8 : 40، رقم : 4550، دارالمأمون للتراث. دمشق، سن اشاعت 1984ء
  11. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661
  12. هندی، کنزالعمال، 10 : 44، رقم : 28535
19۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے :
نَفَثَ فِيْ کَفَّيهِ بقُلْ هُوَ اﷲُ أحَدٌ و بالمعوّذتَيْنِ جَمِيْعًا ثمّ يَمْسَحُ بِهِما وَجْهَه وَمَا بَلَغَتْ يَدَاهُ مِنْ جَسَدِه، قالَت عائشةُ : فلَمَّا اشْتَکٰی کانَ ياَمْرُنِيْ اَنْ اَفْعَلَ ذٰلکَ بِه.
’’تو قُلْ ھُوَ اﷲ اَحَدٌ (سورہ اخلاص) اور مُعوّذتَيْن (آخری دو سورتیں) پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر دم کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے چہرہ اقدس اور جسم اقدس پر جہاں تک ہاتھ مبارک پہنچتے ملتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوتے مجھے ویسے ہی دم کرنے کا فرماتے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5 : 2169، رقم : 5416
امام۔ حاکم نے دم درود کے بارے میں جو احادیث صحیح نقل کی ہیں درج ذیل ہیں :
20. عن عائشة رضی اﷲ عنها قالت : امرنی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أن أسترقی من العين.
’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں : مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر کا دم (جھاڑ) کرنے کا حکم دیا۔‘‘
صحيح علی شرط شيخين و لم يخرجاه
  1. حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8267
  2. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 4 : 163، رقم : 3286
  3. نسائی، السنن الکبری، 4 : 365، رقم : 7536
  4. بيهقی، السنن الکبری، 9 : 347، رقم : 19368
21۔ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا ایک اعرابی نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یارسول اﷲ ! میرے بھائی کو درد ہے فرمایا کیا درد ہے ؟ عرض کی حضور کچھ ہے فرمایا میرے پاس لاؤ، وہ اسے لائے اور سرکار کے سامنے رکھ دیا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری چار آیتیں اور یہ دو آیتیں : وَاِلٰهُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ.، لَآ اِلٰهَ اِلَّا هو الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ. اور آیۃ الکرسی اور سورہ اٰل عمران کی یہ آیت : شَهِدَ اﷲُ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ. اور ایک یہ آیت سورہ الاعراف سے : اِنَّ رَبَّکُمُ اﷲُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰت وَالْاَرْضَ اور سورہ المؤمنون کے آخر سے : فَتَعالَی اﷲُ الْمَلِکُ الْحَقُّ. اور سورہ جن کی آیت : وَاِنَّه تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا اور سورہ الاخلاص اور مُعوّذتین پڑھ کر دم کیا تو وہ شخص ایسے اُٹھ کھڑا ہوا جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
  1. حاکم، المستدرک، 4 : 458، رقم : 8269
  2. هندی، کنزالعمال، 2 : 116، رقم : 3978
  3. بيهقی، الدعوات الکبير، 2 : 313، رقم : 527
22۔ حضرت سہل بن حنیف فرماتے ہیں ہم سیلاب سے گزرے، میں نے سیلابی پانی میں غسل کر لیا، باہر نکلا تو بخار ہو گیا۔ یہ بات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی، فرمایا :
مُروا ابا ثابت يتعوّذ.
’’ابو ثابت سے کہو جھاڑے‘‘
میں نے عرض کی میرے آقا ! دم جھاڑ ٹھیک کر دے گا؟ فرمایا :
لا رقية الّا فی نَفْسٍ اَوْ حُمّةٍ او لَدْغَةٍ.
’’جھاڑ تو خون، نکسیر، بخار ڈسے پر ہی ہوتی ہے۔
  1. حاکم، المستدرک، 4 : 458، رقم : 8270
  2. نسائی، السنن الکبری، 6 : 256، رقم : 10873
  3. ابوداؤد، السنن، 4 : 11، رقم : 3888
  4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 486، رقم : 16021
  5. هندی، کنزالعمال، 10 : 25، رقم : 28362
23۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں :
انّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان اذا اصابه رمد او احد من اهله و اصحابه دَعَا بهٰؤلَآءِ الکلمات : اللَّهُمَّ مَتِّعْنِيْ بِبَصْرَيْ واجَعْلَهُ الورث منیّ وارنی فی العدّو ثاری وانصُرنی علٰی مَن ظَلَمنِيْ.
’’جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ کے کسی گھر والے اور صحابہ کرام میں سے کسی کی آنکھوں میں آشوب ہو جاتا تو ان کلمات سے دم دعا فرماتے : اے اﷲ میری آنکھ سے مجھے فائدہ دے اور اس کو میرا وارث بنا اور دشمن میں مجھے بدلہ دکھا اور جو مجھ پر ظلم کرے اس کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : جو کوئی چھینک کی آواز سن کر یہ پڑھے :
الحمد لِلّٰهِ علٰی کُلِّ حَالٍ.
’’ہر حال میں اﷲ کا شکر ہے۔‘‘
اسے داڑھ اور کان کا درد نہ ہو گا۔
  1. حاکم، المستدرک، 4 : 459، رقم : 8272
  2. هندی، کنزالعمال، 7 : 50، رقم : 18365
24۔ حضرت جابر بن رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ عمرو بن حزم انصاری رضی اﷲ عنہ آئے یہ صاحب سانپ کے ڈسے کو (جھاڑ) کرتے تھے :
فقالَ يا رسُولَ اﷲ اِنّکَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقیٰ وَ اَنَا اَرْقِيْ وَ اَنَا اَرْقِيْ مِنَ الْحَيَةِ، قال قَصِّهَا علَیّ فقَصَّهَا عَلَيْهِ فقَال لَا بأسَ بَهٰذِه، هٰذِه مَوَاثِيْقُ قال و جاء خالی من الانصار و کان يرقی من العقرب فقال يا رسول اﷲ انّکَ نهيت عن الرقی و انا ارقی من العقرب، قال من استطاع ان ينفع اخاه فليفعل.
’’عرض کی یا رَسُولَ اﷲ ! آپ نے دم جھاڑ سے منع فرما دیا جبکہ میں سانپ کے ڈسے کو دم کرتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ دم مجھے پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے پڑھ کر سنایا، فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں یہ تو اﷲ کے وعدے ہیں۔ کہتے ہیں میرے انصاری ماموں آئے وہ بچھو کا دم کرتے تھے، عرض کی یا رسول اﷲ ! آپ نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں بچھو کاٹے کو دم کرتا ہوں۔ فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، پہنچائے‘‘
  1. حاکم، المستدرک، 4 : 460، رقم : 8277
  2. حميدی، الجمع بين الصحيحين، 2 : 391، رقم : 1645
  3. نسائی، السنن، 4 : 366، رقم : 7540
  4. عبد اﷲ بن وهب، الجامع فی الحديث، 2 : 781، رقم : 703
  5. ابن ابی شيبه، المصنف، 5 : 41، رقم : 23523
  6. ابويعلی، المسند، 4 : 196، رقم : 2299
  7. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 302، رقم : 14269
25۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے :
مَنْ قال حِيْنَ يمسی أَعُوْذُ بِکَلمَاتِ اﷲِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.
’’شام کے وقت جو کوئی یہ پڑھے میں پناہ مانگتا ہوں اﷲ کے کامل کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کے شر سے اس رات اسے سانپ نہیں ڈسے گا‘‘
حاکم، المستدرک، 4 : 461، رقم : 8280
26۔ قیس بن طلق اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں : ’’کہ ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بچھو نے کاٹا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دم کیا اپنے ہاتھ مبارک سے اس جگہ مس فرمایا‘‘
  1. حاکم، المستدرک، 4 : 461، رقم : 8281
  2. طبرانی، المعجم الکبير، 8 : 338، رقم : 8263

جبریل علیہ السلام کا دم کرنا

27۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا :
کان اِذَا اشتکیٰ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رقاه جبرئيل عليه السلام قال : بِسْمِ اﷲِ يُبْرِيْکَ وَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ يَشْفِيْکَ و منْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ وَ شَرِّ کُلِّ ذِيْ عَيْنٍ .
’’جبرئیل علیہ السلام آپ کو دم کرتے یوں کہتے۔ اﷲ کے نام سے وہ آپ کو ٹھیک کرے گا ہر بیماری سے آپ کو شفاء دے گا اور حسد کرنے والے کے حسد سے جب حسد کرے اور ہر نظر والے کی نظر بد سے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 1718، رقم : 2185
28۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی :
يا مُحَمّد اُشتکيتَ قال نعم.
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بیمار ہیں ؟ فرمایا ہاں‘‘
انہوں نے یہ دم پڑھا :
بِسْمِ اﷲ اَرْقِيْکَ مِنْ کلّ شی يُؤْذِيْکَ مِنْ شرّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْعَيْنٍ حاسدٍ اﷲ يَشْفِيْکَ بِسْم اﷲ ِاَرْقِيْکَ .
’’اﷲ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر نفس یا نظر ِحاسد کے شر سے، اﷲ آپ کو شفاء دے، اﷲ کے نام سے آپ کو دم (جھاڑ) کرتا ہوں۔‘‘
  1. مسلم، الصحيح، 4 : 1718، رقم : 2186
  2. أبويعلی، المسند، 2 : 327، رقم : 1066
29. عباده بن الصامت رضی اﷲ عنه يحدث عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم انّ جبريل عليه الصلٰوة و السَّلَامُ اتَاهُ و هُوَ يُوْعِکُ فقال : بِسْمِ اﷲ أرْقِيْکَ مِنْ کُلِّ شَیٍ يُؤْذِيْکَ من کُلِّ حَسَدٍ وَّ حَاسِدٍ وَ کُلِّ غَمٍّ وَ اِسْمُ اﷲِ يَشْفِيْکَ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، اس وقت حضور کو سخت بخار تھا، انہوں نے یہ دم پڑھا : میں اﷲ کے نام سے آپ کو جھاڑتا ہوں، ہر ایسی چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر حسد اور حسد کرنے والے سے اور ہر غم سے اور اﷲ کا نام آپ کو شفا دے۔‘‘
یہ حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے مگر انہوں نے اسے بیان نہیں کیا۔
حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8268

کون سے دم سے منع فرمایا ؟

30. عن الزهری قال : قدم رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم المدنية وهم يَرْقُوْن بِرُقیً يخالطها الشرک، فنهی عن الرّقیٰ، قال : فلُدِغ رجل من أَصحابه، لدغته الحية، فقال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : هَلْ مِن رَاقٍ يَرْقِيْه ؟ فقال رجل : اِنی کنتُ اَرْقِی رُقيةً، فلمّا نهيتَ عن الرقیٰ ترکتُها، قال : فاعرضها عليَ، فعرضتها عليه، فلم يرَ بها بأساً فأَمره فرقاه.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ جھاڑ پھونک کرتے جس میں شرک کی آمیزش تھی تو سرکار نے دم کرنے سے منع فرما دیا ایک صحابی کو سانپ نے ڈس لیا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا : کوئی دم کرنے والا ہے جو اس شخص کو جھاڑے؟ ایک صاحب نے عرض کی سرکار میں دم جھاڑ کرتا تھا پھر سے آپ سرکار نے منع فرمایا میں نے اسے چھوڑ دیا۔ فرمایا : لاؤ میرے سامنے میں نے سرکار کی خدمت میں پیش کر دیا اس میں کوئی غلط بات نہ پا کر فرمایا : اسے جھاڑو، اس نے سانپ ڈسے کو جھاڑ لیا‘‘
امام عبدالرزاق الصنعانی، المتوفی 211ه، المصنف، 11 : 16، رقم : 19767، المکتب الاسلامی بيروت، سن أشاعت 1403ه
31۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
کَانَ رسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يُعَلِّمُنَا مِنَ الْأَوْجَاع کُلِّهَا، ومِنَ الْحُمّٰی هٰذا الدُّعَآءَ، بِسْمِ اﷲِ الْکَبِيْرِ أعُوْذُ بِاﷲِ الْعَظِيْمِ مِنْ شَرِّ عَرَقِ نَعَارِ، ومِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تمام قسم کے دردں اور بخار سے شفاء پانے کیلئے یہ دعا سکھاتے تھے، خدائے بزرگ و برتر کے نام سے میں خدائے بزرگ سے پناہ مانگتا ہوں، رگ سے بہتے خون کے شر سے اور آگ کی تپش کے شر سے‘‘
  1. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 17، رقم : 19771
  2. عبد بن حميد بن نصر أبو محمد الکسی، المتوفی 249ه، المسند، 1 : 204
  3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4 : 459، رقم : 8274

کیا یہ تقدیر و توکل کے خلاف ہے ؟

32۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اﷲ !
 رَأيْتَ اتّقاءً نتَّقِيه، ودواءً نتداوی به، ورقیً نسترقی بها، أَتُغْنِيْ منَ الْقَدْر؟ فقال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : هِيَ من القدر.
’’آپ کے خیال مبارک میں ہم کسی چیز سے بچاؤ کی تدبیر کرتے ہیں یا کسی تکلیف میں دواء استعمال کرتے ہیں یا کسی دم سے جھاڑ کرتے ہیں، کیا یہ چیزیں ہمیں تقدیر سے بچا لیں گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ سب کچھ تقدیر ہے‘‘
  1. عبد الرزاق، المصنف، 11 : 18، رقم : 19777
  2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421، رقم : 15510
  3. هندی، کنزالعمال 1 : 182، رقم : 633

شارحین کا تبصرہ

انما قال صلی الله عليه وآله وسلم اضربوا لی معکم بسهم ای بنصيب تطييبًا لقلوبهم و مبالغة فی تعريفهم انه حلال.
’’اپنے ساتھ میرا حصہ نکالو، یہ صرف اس لیے فرمایا کہ ان کے دل خوش ہو جائیں اور ان کی تعریف میں مبالغہ کر کے یہ واضح کرنا تھا کہ یہ جھاڑ پھونک بھی جائز ہے اور اس پر اجرت لینا بھی حلال ہے۔‘‘
علامه شيخ بدر الدين ابومحمد محمود بن العينی، متوفی 855ه، عمدة القاری شرح بخاری، 21 : 271.272
امام نوی شرح مسلم میں فرماتے ہیں :
لا مخالفة بل المدح فی ترک الرقی المراد بها الرقی التی هی من کلام الکفار و الرقی المجهولة و التی بغير العربية و ما لا يعرف معناها فهٰذه مذمومة لا حتمال أن معناها کفر أو قريب منه أو مکروه و أما الرقی بِآيات القرآن و بالأذکار المعروفة فلا نهی فيه بل هو سنّّة.
’’حدیثوں میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ جن احادیث میں جھاڑ پھونک ترک کرنے کی تعریف ہے اس سے مراد وہ دم ہے جو کافروں کے کلام سے کیا جائے یا مجہول کلمات سے ہو یا غیر عربی ہو یا جن کا معنی کچھ نہ ہو یہ جھاڑ پھونک (گنڈے تعویذ) مذموم ہیں۔ کیونکہ کفر یا اس کے قریب یا مکروہ ہونے کا احتمال ہے۔ رہ گیا قرآنی آیتوں یا مشہور و معروف اذکار سے دم کرنا تو یہ منع نہیں بلکہ یہ تو سنّت ہے‘‘۔ ۔ ۔ و قد نقلوا الاجماع علٰی جواز الرقیٰ بالاٰیات و اذکار اﷲ تعالٰی۔ ’’ائمہ دین نے آیتوں اور اﷲ کے اذکار سے دم کرنے کے جوازپر اجماع نقل کیا ہے۔‘‘
امام نووی، متوفی 676ھ، شرح مسلم، 2 : 227، باب الطب والمرض ولرقیٰ، طبع لاہور

علامہ ابن القیم کا قول

اِذا ثبت أن لبعض الکلام خواص و منافع فما الظّنّ بکلام رب العالمين ثم بالفاتحة التی لم ينزل فی القرآن ولا غيره من الکتب مثلها لتضمنّها جميع معانی القرآن.
’’جب یہ حقیقت ثابت ہے کہ بعض کلام کے خواص اور فائدے ہوتے ہیں، تو رب العالمین کے کلام کے بارے میں کیا خیال ہے، پھر فاتحہ کے بارے میں جس کی مثال نہ قرآن میں نہ باقی کتابوں میں کہ یہ مشتمل ہے قرآن کے تمام معانی پر۔‘‘
علامه ابن حجرعسقلانی، فتح الباری شرع صحيح بخاری، 10 : 198، طبع دارالفکر

فقہائے اسلام کے نزدیک گنڈا تعویذ، دم درود اور جھاڑ پھونک

الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ علی المرض و الملدوغ أو يکتب فی ورق و يعلق أو يکتب فی طست فيغسل و يسقی المريض فأباحه عطاء و مجاهد و أبو قلابة...فقد ثبت ذلک فی المشاهير من غير اِنکار و الذی رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يکتب بدمه علٰی جبهته شيْاً من القرآن يجوز و کذا لو کتب علی جلد ميتة اذا کان فيه شفاء ولا باس بتعليق التعويذ و لٰکن يترعه عند الخلاء و القربان.
’’قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید)ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے۔‘‘
الشیخ نظام و جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ المشہور فتاویٰ عالمگیری، 5 : 356، طبع کوئٹہ
التميمة المکروهة ما کان بغير القرآن... ولا بأس بالمعاذات اِذا کتب فيها القرآن أو أسماء اﷲ تعالٰی... انما تکره العوذة اِذا کانت لغير لسان العرب ولا يدري... أو شی من الدعوات فلا باس به.
’’مکرہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، ان گنڈے تعویذوں سے شفاء حاصل کرنے میں حرج نہیں جن میں قرآن یا اﷲ کے نام لکھے ہوں۔ اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے۔ مگروہ گنڈہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں۔‘‘
ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر للطباعة و النشر. بيروت
اختلف فی الاستشفاء بالقرآن بايقرأ علی المريض أو الملدوغ الفاتحة أو يکتب فی ورق و يعلّق عليه أو فی طست و يغسل و يسقٰی و عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه کان يعوذ نفسه و علی الجواز عمل الناس اليوم وبه و ردت الأثار ولا بأس بأن يشدّ الجنب و الحائض التعاويذ علی العضر اذا کانت ملفوفة.
’’قرآن کے ذریعہ شفاء حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ مثلاً بیمار یا (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر فاتحہ پڑھنا یا کسی کاغذ میں لکھ کر اس کے گلے وغیرہ پر لٹکا دیا جائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس لکھے کو دھو کر پلایا جائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ اور آج لوگوں کا جواز پر ہی عمل ہے اور روایات و احادیث اسی کی تائید میں وارد ہیں۔ اور جُنبی اور حیض والی لفافے میں بند (جیسے چاندی یا چمڑے میں ہوتا ہے) تعویذ بازُو پر باندھیں، اس میں حرج نہیں۔‘‘
ابن عابدين شامی، ردالمحتار، 6 : 364

علمائے اہل حدیث

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں۔
علامه شوکانی، نيل الاوطار، 1 : 345، فصل ردشرک، الرقیٰ والتمائم

علمائے دیوبند

امروہہ میں ایک ہندو تھا وہ حضرت عبدالباری سے کمال اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے آپ سے عرض کیا کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہے تعویذ دیجیے۔ حضرت نے تعویذ دے کر فرمایا کہ ابھی تو اپنی بیوی کے بازو پر باندھ دو اور بعد تولّدِ فرزند، اس کے بازو پر باندھ دینا۔ تعویذ کی برکت سے اس کے لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ سنِ تمیز کو پہنچا باغوائے بعض ہنود اس تعویذ کو کھول ڈالا اس میں ’’اُڑری بھنبیری ساون آیا‘‘ لکھا تھا۔ پڑھ کر اس نے تعویذ پھینک دیا۔ پھینک کر وہ نہانے کو گیا دریا میں ڈوب کر مر گیا۔
مولانا اشرف علی تهانوی، امداد المشتاق الیٰ اشرف الاخلاق، ص : 118، طبع لاهور

مولانا مودودی

’’بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اﷲ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفاء دینے والی ہے، بلکہ اﷲ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہو جانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد مولانا مودودی نے وہ تمام احادیث نقل کر دیں جو ہم نقل کر آئے ہیں۔
مولانا مودودی، تفهيم القرآن، 6 : 558، طبع لاهور
’’اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اﷲ کے کلام اور اس کے اسمائے حُسنٰی سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اﷲ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسمائے و صفات سے استعانت کی جائے تو مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔‘‘
مولانا مودودی، تفهيم القرآن، 6 : 560، طبع لاهور

خلاصہ کلام

آج کل بعض لوگ جہاں دیگر بہت سے اسلامی معمولات کو ’’شرک و بدت‘‘ کہ کر لوگوں کے دلوں میں نفرت و نفاق کے بیج ڈالتے ہیں اُن میں ایک گنڈا، تعویذ اور دم درود بھی ہے۔ اسلام میں جہاں بیماریوں کے مادی علاج ہیں یعنی جڑی بوٹیوں اور دوائیوں سے، اﷲ تعالی کے کلام اور اسمائے حسنی اور مسنون و متبرک دعاؤں سے بھی اﷲ پاک شفاء دیتا ہے، ان میں بھی اُسی نے تاثیر رکھی ہے۔ مگر تمام تر تاثیر اس کے مشیت و ارادہ پر موقوف ہے۔ جب چاہے دواء یا دعا سے شفاء دے، نہ چاہے تو نہ دے اس پر کوئی جبر نہیں۔ دواء میں لازمی شفاء ہوتی تو ہسپتالوں سے ہر مریض شفایاب ہو کر نکلتا، بیرون ملک لاکھوں کروڑوں کے مہنگے علاج کرانے والوں کے تابوت نہ آتے۔ وہ چاہے تو معمولی دیسی پڑیا سے شفاء مل جائے، کسی بندہ خدا بھلے وہ کیسا ہی گناہگار ہو اس کی پھونک سے شفاء ہو جائے، چاہے تو دعا کار گر نہ دواء میں اثر۔ یہ متعصب جہلاء ڈاکٹروں حکیموں کے پاس جانے سے تو منع نہیں کرتے، ان کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا نہیں کرتے مگر کوئی بندہ خدا اگر کسی بیمار کو اﷲ کے نام و کلام سے دم کرے، تعویذ بنا کر دے، پانی وغیرہ دم کر کے دے اور شفاء دینے والے خدا سے مصیبت زدہ مریض کے لئے شفاء طلب کرے تو جھٹ فتویٰ کفر و شرک جڑھ دیتے ہیں۔ ہم نے اس موضوع پر قرآن و سنت عمل صحابہ کرام و ائمہ امت بلکہ خود معاندین کے اکابر کے فتاویٰ و اقوال سے مزین اس مضمون میں ثابت کیا ہے کہ قرآن و سنت کی رُو سے کلمات طیبات، آیات و آثار سے دم کرنا، جھاڑنا نہ صرف جائز و مستحسن ہے بلکہ قرآن و سنت، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام، آل اطہار اور علماء اولیاء امت میں سے آج تک کسی نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا اس کی تائید میں ہم نے ہر مسلک و مذہب کے اکابر کی تصریحات بھی پیش کر دیں۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو شیطانی وسوسوں کے شر سے محفوظ رکھے ان شاء اﷲ اس کے پڑھنے سے بہت سے ذہنی عقدے کشا ہونگے۔