Saturday, February 28, 2015

مووی کا شرعی حکم

مووی کا شرعی حکم

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ مووی بنانا اور بنوانا کیسا ہے ؟ بہت سے علماء سے اس کے بارے میں سنا تھا کہ یہ ناجائز ہے لیکن اس وقت کثیر تعداد میں علماء ٹی، وی پر آتے ہیں یا اپنے جلسوں ، محفلوں، نعت خوانیوں کی مووی بنواتے ہیں او ریہ موویز بازار میں عام ملتی ہیں۔ آپ اس مسئلے کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں ۔
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم O
الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم Oالجواب بعون الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصوابٹی وی ، ویڈیو کے مسئلے میں علماء کی آراء میں اختلاف ہے چنانچہ بعض نے اسے تصویرپرقیاس کرتے ہوئے ناجائز قرار دیا اوربعض نے تصویر ہونے کی نفی کی اوراسے آئینے کے عکس کی مثل قراردیتے ہوئے جائز قرار دیا کہ جیسے آئینے میں نظرآنے والاعکس تصویرکے حکم میں نہیں بلکہ وہاں اصلاًتصویرہی نہیں تو یہاں بھی یہی حکم ہے۔ چنانچہ ٹی وی اسکرین پرشعاعوں سے بننے والے عکس پر تصویرکاحکم دیاجاناغلط ہے۔بہرحال اگریہ ثابت ہوجائے کہ ٹی وی اسکرین پرنظرآنے والا عکس تصویرہی ہے توازروئے قیاس اس پرحکم حرمت ہی ہوگا۔ اوراگراس کے برعکس تصویر ثابت نہ ہوتوجائزامورکی مووی فلم جائزہوگی۔اور امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان و صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہمااللہ تعالیٰ کی کتب سے یہی ظاہرہے کہ شعاعوں سے بننے والے عکوس تصویرنہیں ہیں۔
سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت علامہ مولانا الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : '' سئلت عمن صلی وامامہ مرآۃ فأجبت بالجوازآخذامماھھنا اِذالمرآۃ لم تعبدولاالشبح المنطبع فیھاولاھومن صنیع الکفارنعم ان کان بحیث یبدولہ فیہ صورتہ وافعالہ رکوعاوسجوداوقیاماوقعودا وظن ان ذلک یشغلہ فاذن لاینبغی قطعا''۔ (جدالممتار ج۱ ص۳۱۱۔۳۱۲ ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی)
مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاگیاکہ جس نے آئینے کے سامنے نمازپڑھی تومیں نے یہاں بیان کردہ(شرح منیہ کے) قول سے اخذکرتے ہوئے جواز کافتوی دیا۔کیونکہ نہ توآئینے کی عبادت کی جاتی ہے اورنہ اس میں کوئی صورت چھپی ہوتی ہے اورنہ یہ کفارکی مصنوعات (یعنی کفارکے شعائر) سے ہے ۔ ہاں اگرنمازپڑھنے کے دوران اسے اپنی حرکات مثل رکوع وسجودوقیام وقعودنظرآتی ہواوریہ خیال کرتاہے کہ یہ اسے نمازسے مشغول اورغافل کردیں گی تواسے آئینے کے سامنے ہرگزنمازنہیں پڑھنی چاہیے۔
یونہی صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جب اسی قسم کاسوال کیاگیاتوآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ ،''آئینہ سامنے ہوتونمازمیں کراہت نہیں ہے کہ سبب کراہت تصویراوروہ یہاں موجودنہیں ۔اوراگراسے تصویرکاحکم دیں توآئینے کارکھنابھی مثل تصویرناجائزہوجائے حالانکہ بالاجماع جائز ہے ۔ اورحقیقت امریہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کرچہرے پرآتے ہیں گویایہ شخص اپنے کودیکھتاہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہے۔ ''
(فتاوی امجدیہ ج۱ ص ۱۸۴ مطبوعہ : مکتبہ رضویہ کراچی)
امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اور صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمھماللہ تعالیٰ کی عبارات سے یہ بالکل واضح ہے کہ شعاعوں سے بننے والے عکوس تصویرنہیں ہیں ۔ لہٰذاٹی وی اوروڈیوفلم کاجائزاستعمال بھی جائزہواکہ ان میں نظرآنےوالے پیکربھی شعاعوں ہی پرمشتمل ہوتے ہیں۔ خصوصا صدر الشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوی سے درج ذیل امور ظاہرہوئے ۔
(اول) آئینے میں نظرآنے والاعکس تصویرکے حکم میں نہیں بلکہ وہاں اصلاً تصویر ہی نہیں ۔
(دوم): شعاعوں سے بننے والے پیکرکانام تصویرنہیں ہے بلکہ عکس ہے اگرچہ وہ ظاہری طورپرتصویرکے مثل ہی کیوں نہ ہو۔
(سوم):جب شعاعوں سے بننے والاپیکرتصویرنہیں توخواہ آئینے میں ایساپیکربنے یاخارجِ آئینہ کسی اورچیزپر، وہ تصویرنہیں کیونکہ آئینے میں بننے والے پیکرسے تصویرکی نفی آئینہ کی وجہ سے نہیں بلکہ شعاع ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی پراورچمکدارشے مثلا اسٹیل اورپالش کئے ہوئے فرش پربننے والے واضح عکس کونہ توتصویرسمجھاجاتاہے اورنہ ہی اس پرتصویرکااطلاق کرکے اسے حرام کہاجاتاہے بلکہ اسے آئینے کے عکس کے مثل سمجھاجاتاہے۔
حالانکہ آئینے اوران اشیاء کے اجزائے ترکیبی کافرق کسی ذی عقل سے ہرگز پوشیدہ نہیں ہے۔ لہذاظاہرہواکہ ان اشیاء میں بننے والے عکوس کوتصویرکے حکم میں صرف اس لئے نہیں داخل کیاجاتاکہ یہ شعاعوں سے بنتے ہیں ۔ جیساکہ صدرالشریعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عبارت سے ظاہرہے۔
حضرت غزالی دوراں علامہ سیداحمد سعیدکاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جائز وڈیوفلم
کے جوازکے قائل تھے ۔ اور آپ علیہ الرحمۃ نے ٹی، وی اور مووی کے جواز پر لکھی گئی کتاب کی زور دار انداز میں تصدیق فرمائی۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف شہزادہ محدث اعظم ہند کچھوچھوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)حضرت علامہ محمد مَدَنی میاں اشرفی مدظلہ العالیٰ کی وڈیواورٹی وی کے شرعی استعمال سے متعلق تحقیق کی تصدیق فرمائی بلکہ اس تحقیق پرانھیں رئیس المحققین کے شاندارلقب سے بھی نوازا۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
''رئیس المحققین حضرت علامہ سیدمحمدمَدَنی الاشرفی الجیلانی دامت معالیہم وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔ مزاج اقدس؟
حضرت کامقدورگرامی شرف صدورلایا۔یادفرمائی کابے حد شکریہ ۔جناب کے ارسال کردہ استفتاء وفتاویٰ کوبغورسنا،تینوں فتاویٰ حضرت کی فہم وذکاء اورتحقیق وجستجوکامنہ بولتاشاہکارہیں۔بے شک جناب کی ذہانت اوراستنباط لائق صدستائش اورقابل تحسین اورآفرین ہیں۔آپ نے جس آسانی سے ایسے مشکل مسائل کوعام فہم اندازمیں ڈھال کرحل فرمایاہے وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔بزرگان دین اورعلماء امت کے مختلف اقوال کوجس عمدگی سے بیان فرمایاہے اورجس حسن وخوبی سے نبھایاہے وہ آپ کی انشراح صدراورعُلومِ عقلی اورنقلی میں مہارت تامہ کامظہراتم ہے۔خصوصاًطرزِاستدلال اور اندازِ تحریرباعث رشک ہیں۔
میں ہرسہ فتاویٰ میں آپ سے متفق ہوں۔خصوصاوڈیوکیسٹ، ٹی وی اورفلم کے بارے میں جس قدرعرق ریزی سے جناب نے تحقیق فرمائی اورپھرجس خوبصورتی سے ان حقائق کی روشنی میں جائزوناجائزصورتوں میں امتیاز کرتے ہوئے فتویٰ قلمبند فرمایاوہ قابل تقلید ہے۔ '' ( وڈیو، ٹی وی کاشرعی استعمال ص۱۰)
الحمدللہ عَزَّوَجَلَّ علماء اَہلسنّت کے اقوال سے ظاہرہے کہ مووی فلم تصویرکے حکم میں نہیں ہے اورازروئے شرع جائزامورکی مووی فلم دیکھنا، بنانااوربنواناجائزہے۔
دورحاضرمیں وڈیوکامسئلہ اتناعام ہوچکاہے کہ اگر کسی بڑے اسٹورمیں سامان خریدنے کیلئے جاناپڑے تووڈیو کاسامناکرناپڑتاہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک یاجہاں پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے وہاں تو عموماً ہراسٹورہی میں وڈیوکیمرے لگے ہوتے ہیں۔
اسی طرح تقریبا ہرحساس جگہ پرحفاظت (Security)کے پیش نظر وڈیوکیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔ اورآنے جانے والے کوکئی زاویوں سے دیکھنے کے لئے ایک سے زائد وڈیوکیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔سرکاری تنصیبات پرخصوصی انتظام کیاجاتاہے۔ یونہی ہوائی جہازسے سفرکیاجائے توہوائی اڈے میں داخل ہونے سے لیکر ہوائی جہازمیں بیٹھنے تک اوراسی طرح جہازمیں بیٹھنے کے بعدسے ہوائی جہازسے اترنے تک بلکہ اسکے بعدبھی ائیرپورٹ سے نکلنے تک مسلسل وڈیوکیمرے چلتے رہتے ہیں اورآدمی کی وڈیوفلم بنتی رہتی ہے۔
یونہی زیارت حرمین شریفین کے لئے اگربذریعہ ہوائی جہازجایاجائے توعمومااپنے ملک کے ائیرپورٹ سے لے کرعرب شریف کے ائیرپورٹ تک مسلسل کیمرے کی زدمیں رہناپڑتاہے۔پھرمعاملہ یہاں تک ہی نہیں رہتابلکہ مسجدین کریمین میں داخل ہونے کے بعدسے نکلنے تک مسلسل کیمرے کے ذریعے سے کئی اطراف سے نگاہوں میں رکھاجاتاہے۔
مذکورہ امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات پر غور فرمائیں کہ عرب وعجم ، مشرق ومغرب کے سینکڑوں علماء و مشائخ جہازوں میں سفرکرتے ہیں، یورپ وامریکاوانگلینڈ وافریقہ میں آئے دن تبلیغ دین کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہندوپاک سے چند مشاہیر کے نام لکھے جاتے ہیں جونفلی حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے اورتبلیغ دین کے لئے دنیاکے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے ہیں اور ان میں بہت سے اب بھی آتے جاتے ہیں۔مثلاہند سے فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالیٰ، محدث کبیرعلامہ ضیاء المصطفی اعظمی ،تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختررضا ازہری ، ابوالبرکات حضرت علامہ امین میاں برکاتی مارہروی متعنااللہ تعالیٰ بفیوضھم اسی طرح اوردیگرعلماء ومشائخ اورپاکستان سے حضرت علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ، کثیرالتصانیف جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ فیض احمد اویسی ، مناظراسلام شیخ الحدیث والتفسیرصاحب'' مقام رسول '' صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت علامہ منظوراحمد فیضی، استاذالاساتذہ حضرت علامہ محمد حسن حقانی ، مفتی احمد میاں برکاتی ،مفتی عبدالعزیزحنفی، حضرت مولاناشاہ تراب الحق صاحب،علامہ
مولانا عبدالحکیم شرف قادری وغیرھم دامت برکاتہم العالیہ ۔ اب کوئی عقل سے پیدل ہی ہوگاجومعاذاللہ ان مذکورہ مشاہیراوردیگرعلماء پرفسق کافتوی لگانے کی جرأت کریگا۔ اللہ تعالیٰ ایسی الٹی عقل کے شرسے ساری امت کومحفوظ فرمائے۔
آج کفاربداطواراسلحے کی جنگ کے ساتھ ساتھ ٹی وی اوروڈیوکے ذریعے سے مسلمانوں کے گھروں میں پہنچ کراسلام کے خلاف زہراگل رہے ہیں۔ معاذاللہ ثم معاذاللہ اپنے باطل دلائل کے ذریعے سے اسلام اورپیغمبراسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے عیب شان میں گستاخیاں کررہے ہیں۔ یونہی تمام اقسام کے گمراہ مذاہب نے ٹی وی اوروڈیوکواپنے عقائد باطلہ کی ترویج کاذریعہ بنالیاہے۔جس کاجو دل چاہے بکتاہے۔ ان لوگوں نے مختلف ٹی وی چینلزکے اوقات خریدرکھے ہیں بلکہ قادیانیوں نے توایک عرصے سے پوراچینل شروع کیاہواہے جس پر وہ باقاعدگی سے روزانہ کئی گھنٹے اپنے گمراہ کن عقائد کاپرچارکرتے ہیں۔
اورفی زمانہ ہمارے معاشرے کایہ حال ہے کہ ٹی وی اوروڈیونئی نسل کی گُھٹی میں پڑے ہوئے ہيں۔ ٹی وی اوروڈیو معاشرے کے افرادکے لئے تفریح کاسامان بھی ہے اورحصولِ معلومات کاعُمومی ذریعہ بھی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اکثر اوقات ٹی وی کے سامنے ہی گزارتے ہیں۔ لہذاجوکچھ ٹی وی میں دیکھتے ہیں خواہ برادیکھیں یابھلادیکھیں ۔اس سے متاثرہوجاتے ہیں اوررفتہ رفتہ اسے اپنالیتے ہیں اور تہذیب کاحصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مووی بنوانا جائز ہے ۔
کتب فقہیہ میں اس قسم کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں کہ علماء نے حالات زمانہ کودیکھتے ہوئے راجح اقوال کوچھوڑ کرمرجوح اقوال پر بھی فتوے دیے جیساکہ خاتم الفقہاء علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ،''فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے میں تین باتوں کی ممانعت کافتوی دیاکرتاتھااوراب ان کے جوازکافتوی دیتاہوں۔پہلے میں فتوی دیتاتھاکہ تعلیم قرآن پراجرت لیناحلال نہیں، اسی طرح فتوی دیتاتھاکہ عالم کے لئے جائزنہیں کہ وہ سلطان (بادشاہ)کی صحبت اختیارکرے اورعالم کے لئے جائزنہیں کہ وہ دیہاتوں میں اجرت پر وعظ کرنے جائے۔ مگراب تعلیمِ قرآن کے ضیاع کے خوف ، لوگوں کی حاجت کی اوردیہاتیوں کی جہالت کی وجہ سے میں نے ان سے رجوع کرلیا۔'' (رسائل ابن عابدین جلد ۱صفحہ ۱۵۷ سہیل اکیڈمی لاہور)
لیکن اس کے ساتھ اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ حکم جائز و حلال پروگراموں کے بارے میں ہے، جیسے علمائے اَہلسنّت کے بیانات، تلاوت قرآن اور نعت کی مووی اورشادی کے موقع پر جو عورتوں کی بے پردہ موویاں یونہی فلموں، ڈراموں، گانوں، باجوں کی موویاں بنائی جاتی ہیں وہ سب ناجائز و حرام ہیں۔
وَاللہ ورسولہ اعلم عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم
الجواب صحیح کتبــــــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری ا لمتخصص فی الفقہ الاسلامی
۲۶ شعبان ۱۴۲۶ہ یکم اکتوبر۲۰۰۵ء محمد عقیل رضاالعطاری المَدَنی
۲۴ شعبان ۱۴۲۶ہ ۲۹ستمبر۲۰۰۵

Friday, February 27, 2015

بسنت کی حقیقت

بسنت کی حقیقت


 ویلنٹائن ڈے کی طرح بسنت بھی غیر مسلموں کی رسم ہے یہاں پر اس حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ ہندؤوں کی رسم ہے ۔اس کا آغاز کیسے ہوا ؟ مسلمانوں میں کیسے شروع ہوئی ؟ اور علماء وفقہا اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟اور اس غیر اسلامی رسم کو منانے کے نقصانات کیا ہیں ؟
اس غیر اسلامی رسم کو پاکستان میں بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے ۔ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس کو بڑی کوریج دیتا ہے ۔اور ہمارے حکمران چہ جائیکہ اس خبیث رسم کو ختم کریں الٹااس کو سرکاری طور پر منانے کی تیاریاں کی جاتی ہیں بے پردگی بے حیائی عام ہوتی ہے ۔ویلنٹائن ڈے کی طرح اس میں بھی عورتوں اور مردوں کا عام اختلاط ہوتا ہے ۔
بسنت کی حقیقت ـ:
آئیے پہلے ہم اس حقیقت سے مطلع ہوتے ہیں کہ یہ کیسے شروع ہوئی ؟اور آخر یہ کس کی رسم ہے ؟
1۔ ادھر موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے ۔ادھر ہرطرف بو کاٹا کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ محبوبوں کا دن ویلنٹائن ڈے بھی بہار میں بھی منایا جاتا ہے ۔ہر طرف بدتمیزی عام ہوتی ہے ۔لوگ جوش وخروش سے اس کو منانے کیلئے ملک پاکستان سے بلکہ پوری دنیا سے لوگ پاکستان کے دل لاہور شہر میں جمع ہوتے ہیں ۔ہوٹل بک کئیے جاتے ہیں مکانات کی چھتیں بک ہوتی ہیں ۔رات کے وقت لائٹنگ اور ساؤنڈ سپیکر لگا کر اونچی آوازوں سے شرفاء کا جینا دو بھرکر دیتے ہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس کو بہت زیادہ کوریج دیتا ہے دوسرے الفاظ میں بسنت منانے والوں کو زندہ دلانے لاہور کہا جاتا ہے ۔
پہلے پہل اس رسم یعنی بسنت کا آغاز ہندوستان کے مشہور صوبوں اتر پردیس اور پنجاب میں ہوا ۔
پھر یہ لاہورمیں گستاخِ رسول ہندو کوجہنم واصل کرنے کے بعد اس کی یاد میں ہندوں نے اس کو منایا میں مختصر طور پر اس کا واقعہ رقم کررھا ہوں۔حقیقت رائے نامی ہندو نوجوان باکھ مل پوری سیالکوٹ کے کھتری کا لڑکا تھا۔ ایک دفعہ اس طرح ہوا کہ اس کی لڑائی کچھ مسلمان نوجوانوں سے ہوئی اس ہندو نوجوان نے سرورِ کائنات باعث ِتخلیق کون ومکاں مختار کون و مکاں حضورنبی کریم ؐ کی شان ا قدس کے اندر کچھ نازیبا گفتگو کی ۔گالیاں نکالیں ساتھ ساتھ خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃالزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان ِاقدس میں بکواسات کئے جس سے برصغیر کے سارے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوگئے ۔اس کا (بادشاہ )گورنر زکریا خان مسلمان حکمران تھا بہرحال اس نے ہندو نوجوان کو اس کے جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ۔عدالتی کاروائی کیلئے لاہور لایا گیا اس کے گرفتار کرنے سے پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی سوگ منانے لگی ۔اس سے ان کو بڑا شدید دھچکا لگا لہٰذا پھرکچھ ہندو آفیسرز مل کر گورنر پنجاب کے ھاں گئے اور اس نوجوان کیلئے درخواست کی ۔کہ اس کو معاف کردیا جائے ۔مگر گورنرپنجاب زکریا خان نے صحیح مسلمان ہونے کا حق اداکردیا۔ اور معاف نہ کیا ۔بہرحال اس نوجوان کو کوڑے مارے گئے ۔اور پھر تلوار سے گردن اُڑادی گئی ۔پھر ہندوؤں نے اس کی یاد میں بسنت کا تہوار منانا شروع کر دیا ۔اس نوجوان کی سمدھی لاہور میں ہے ۔لاہور میں واقع بھاٹی گیٹ سے گاڑی جاتی ہے ۔
(پنجاب آخری فعل دورحکومت میں ۔سکھ مؤرح، ڈاکٹر بی ۔ایس نجار) یہی سکھ مؤرخ اپنی اسی کتاب کے صفحہ نمبر 279میں رقم طراز ہے ۔کہ ''پنجاب کا بسنت میلہ حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے ''۔افسوس کہ ہم ایک گستاخِ رسول کی یاد مناتے ہیں ۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم :۔
تاجدارِمدینہ حضورنبی کریم صلی للہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''مَن تَشبَہَ بِقَوم فَھُوَمِنْہُمْ ''
(داؤدشریف )
فرمایا کہ'' جوکوئی کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ انہیں میں سے ہے ''
افسوس کہ ہم بسنت منا کر ایک گستاخِ رسول کی یاد مناتے ہیں ۔اس حدیث کو مدِنظررکھ کر اپنا انجام خود ہی سوچنا ہوگا ۔اب میں یہاں پر کچھ کتابوں کے حوالے سے یہ حقیقت ظاہر کرونگا کہ یہ کِن کی رسم ہے ؟۔
(1):۔ مشہور و معروف عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''کلیاتِ نظیر آکبر آبادی''کے صفحہ نمبر 413میں تقریباتِ اہل ہنود کے عنوان سے بسنت کے موضوع پر لکھتے ہوئے اس کو ہندوانہ تہوار قرار دیا ہے ۔
(2):۔ اسی طرح ایک ہندو منشی رام پر شاد ماتھر ہیڈ ما سٹر آف گورنمنٹ ہائی سکول پنشز اپنی کتاب ''ہندو تیو ہاروں کی دلچسب اصلیت ''میں رقم کرتا ہے۔کہ
بسنت پنچمی :
اب فصل کے بارآور ہو نیکا اطمینان ہو چلا کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اسلئے کا شتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پید ا ہوتی ہے اور وہ ماگھ کے آخر ہفتہ میں بسنت پنچمی کے روز زرد پھولوں کو خوش خوش گھر لا کر بیوی بچوں کو دکھاتا ہے اور پھر سب ملکر بسنت کا تہوار مناتے ہیں ۔ پھر زرد پھول اپنے کانوں میں بطور زیور لگا کر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرماتما ہماری محنت کا پھل عطا کر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر ۔ پھر لکھتا ہے کہ بسنت پنچمی کو وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے ۔
(ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت ، منشی رام پرشاد ،مطبوعہ دی فائن پریس لکھنؤ1942؁ئ)
میرے مسلمان بھائیوں :۔
اس ہندو کی تحریر سے بھی ثابت ہو گیا کہ بسنت اہل ہنود کا تہوار ہے لہٰذا میرے بھائی یہ دیکھ کہ مسلمان مصنفین نے تو اسے اہل ہنود کا تہوار قرار دیا ہے مگر دیکھ اس ہندو مصنف نے بھی یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بسنت اہل ہنود کا تہوار ہے ۔ میرے بھائی ذرا سوچ تو ان کا تہوار مناتا ہے ۔ جو کہ مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ۔ تو ان کا تہوار مناتا ہے جو کہ تیرے معاشی دشمن ، مذہبی دشمن، معاشرتی دشمن ، ثقافتی دشمن ہیں۔ کیا کبھی انہوں نے مسلمانوں کے تہوار بھی منائے ہیں ۔
(3):۔ ایک سکھ مؤرخ ڈاکٹر بی ۔ ایس نجار نے اپنی کتاب ''پنجاب آخری فعل دورحکومت میں '' کے صفحہ نمبر 279میں لکھتا ہے کہ' 'پنجاب کا بسنت میلہ اس گستاخ ِرسول اور گستاخ اہل بیت (حقیقت رائے) ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے ''۔
اب سکھ مؤرخ کی کتاب سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بسنت کا تہوار مسلمانوں کا نہیں بلکہ اہل ہنود کا تہوار ہے جو وہ اس گستاخ رسول کی یاد میں مناتے ہیں ۔ اب عاشقانِ رسول ۔ نبی کے نام لیوا ۔ نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان اہل ہنود کے تہوار کو منا کر اپنی عاقبت خراب کریں ۔ انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک گستاخ کی یاد منا کر اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائیں۔
(4):۔اسلامی تاریخ کے نامور مشہور و معروف و محقق ، قابل فخر سائنسدان علامہ ابوریحان البیرونی نے اپنی شہرہ آفاق و مستند کتاب ''کتاب ہند'' کے باب نمبر76میں رقم فرمایا (عیدیں اور خوشی کے دن کے عنوان سے) کہ بسنت ہندوؤں کا دن ہے ۔ '' آپ مزید رقم فرماتے ہیں کہ '' اس دن عید منائی جاتی ہے ۔ برہمنوں کو کھلاتے ہیں ۔ دیوتاؤں کی نذر چڑھاتے ہیں ''۔
اس سے بھی ظاہر ہو کیا کہ بسنت خالص اہل ہنود کا تہوار ہے
(5):۔ انڈیا کی ایک انتہا پسند ہندو تحریک شیو سینا کے سر براہ بال ٹھاکرے نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ ''لاہور میں بسنت ہندو مذہب کی عظیم کامیابی ہے ''
میرے مسلمان بھائیوں:۔
اب ذرا ہوش کرو کہ بال ٹھاکرے کیا بیان دے رہا ہے ۔ ان کی عظیم کا میابی تو ہے ہی کیونکہ اس سے مسلمان بے دین ہو رہے ہیں ۔ شیطان خوش ہو رہاہے رحمان ناراض ہو رہا ہے ۔ مسلمانوں میں حیاء و شرم ختم ہو رہی ہے ۔ میرے بھائیوں ابھی بھی وقت ہے کہ تم اپنے آپ کو ان تہواروں سے بچاؤ۔
(6):۔ ''تاریخ لاہور'' کے مشہور مصنف ''سید محمد لطیف'' اپنی کتاب میں بسنت کو ہندوؤں کا تہوار قرار دیتا ہے اور مزید کہتا ہے کہ یہ حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتاہے ۔ انہوں نے لکھا ہے۔
سمادھ حقیقت رائے : ۔
یہ لاہور سے دو میل کے فاصلے پر مشرقی جانب موضع کوٹ خواجہ سعید کے مشرق میں واقع ہے ۔ حقیقت رائے سترہ سال کا ایک ہندو لڑکا تھا ۔ اس کا جھگڑا مسلمان لڑکوں سے ہو گیا ۔ اس نے ان لڑکوں کی طرف سے دیوتاؤں کو نا شائستہ الفاظ کہنے کے رد عمل میں اسی قسم کے کلمے کہہ ڈالے ۔ اس کو قاضی کے پاس لے جایا گیا ۔ قاضی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرنے پر سزائے مو ت سنا دی۔ حاکم لاہور نے قاضی کے فیصلے کو توثیق کرتے ہوئے اعلان کیا ۔ اگر یہ لڑکا اسلام قبول کر لے تو اسکی سزا معاف ہے ۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے دین پر خلوص دل سے کار بند تھا۔ لہٰذا اس کو پھانسی دے دی گئی۔
ہندو اس کے مقبرے کی بڑی تعظیم کرتے ہیں کثیر تعداد میں جا کر اس کے آگے سر جھکاتے ہیں ۔ اس سمادھ پر بسنت کا سالانہ میلا ہوتا ہے ۔
اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بسنت ایسا میلہ ہے جو کہ ہندووؤں کا تہوار ہے اور اس گستاخ رسول کی یادمیں منایا جاتا ہے ۔ا ب یہ ہماری غیرت کا سوال ہے کہ ہم ایسے گستاخ کی یاد منائیں۔
ذرا سوچئے کہ بسنت ہندو مذہب کا ایک مذہبی تہوار ہے اور اس کی اصل غرض و غایت گستاخی رسول و فاطمہ ہے ۔ ہم ناصرف اس میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ جان و مال کی بازی لگادیتے ہیں ہمیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں قیامت والے دن ہم گستاخان رسول میں نہ شمار ہو جائیں ۔ قیامت والے ہم آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کیا منہ دکھائیں گے؟ ذرا سو چئے کہ ہم ان کی رسومات منا رہے ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ''یہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ''۔ کیا ہم کتاب اللہ کو بھی نہیں مانیں گے ۔
اور ہندو یہود کی رسومات منا کر ہم اپنا شمار کن میں کر رہے ہیں جبکہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ''مَن تشبہ بقومٍ فَھُوَ مِنہم '' اپنا انجام سوچ لیجئے ۔
لمائے کرام نے بھی پتنگ بازی کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ پتنگ بازی کا موجد چین کو کہا جاتا ہے اور چین میں پتنگ بازی کا آغاز کچھ مؤرخین کے مطابق 3000(تین ہزار) سال قبل ہوا۔ اس وقت یہ رواج تھا کہ بانس لے کر اس کے فریم میں سلک کے کپڑے جوڑ کر اس کواڑایا جاتا تھا ۔ چین کے بعد پتنگ بازی ایشیا میں آئی ۔ اس کے بعد امریکہ ، افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں جا پہنچی بہر حال اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ بسنت ہندو انہ رسم ہے ۔ جو کہ گستاخ رسول و فاطمہ کو بے قصور سمجھنے والوں کی رسم ہے ۔ مسلمانوں کے نزدیک گستاخ رسول واجب القتل ہے ۔
اے غازی علم الدین شہید دیکھ آج پاکستانی قوم ایک گستاخ رسول کی یاد منا رہی ہے ۔
اے عامر چیمہ شہید دیکھ کہ تو نے گستاخ رسول کے خلاف ہاتھ اٹھا یا مگر آج یہ پاکستانی قوم گستاخوں کے ساتھ مل کر ہندوانہ رسوم منا رہی ہے ۔
آج ایک طرف عالم کفر اسلام کے خلاف، ناموس رسول ، ناموس اہل بیت کے خلاف نبرد آزما ہے ۔ تو دوسری طرف ہم ہیں کہ ہم خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ہم ہنود و یہود کی رسوم منانے میں مشغول ہیں ہم تو نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔
اسی کی عکاسی قلندرِ لاہوری نے یوں کی ۔
وضع میں تم نصارٰی تو تمدن میں تم ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ہندو بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم نے اتنا اہتمام بسنت منانے کا نہیں کیا جتنا مسلمان کر رہے ہیں ۔ یہ عاشقانِ رسول ہیں ۔ افسوس ۔ مسلمان رات بھر پتنگ بازی میں مصروف ہیں ڈیک لگے ہوئے ہیں سپیکر آن ہیں ۔ لائٹنگ ہوئی ہے ۔ پیلے کلر کے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ہوٹلوں کی چھتیں بک ہیں ہر طرف مرد و عورت کا اختلاط عام ہوتا ہے ۔ اسراف ہی اسراف ۔ فضول خرچی ہی فضول خرچی ۔ اسلامی حدوود کو پائمال کیا جاتا ہے ۔ آہ یہ مسلمانوں کا حال ہے ۔ڈیک، ساؤنڈ سپیکر لگا کر شرفاء کو اذیت دی جاتی ہے ۔ آس پاس کے لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے ۔ ان کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے ۔
شرح الصدور میں ہے کہ بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ برے خاتمہ کے چار اسباب ہیں۔
(١)نماز میں سستی ، (٢) شراب نوشی (٣)والدین کی نافرمانی (٤) مسلمانوں کو تکلیف دینا ۔
(شرح الصدور ص 27مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
اور اس خبیث ہندوانہ رسم میں مسلمانوں کو تکلیف بھی دی جاتی ہے ۔ شراب نوشی عام ہوتی ہے ۔ شراب پی کر اچھا برا سب کو بھول جاتے ہیں ۔ اس خبیث رسم کی وجہ سے نماز رہ جاتی ہے۔ کئی گھروں میں والدین اگر اپنے بچوں کو منع کریں تو یہ فیشن ایبل جنریشن والدین کو گالی گلوچ اور برا بھلا کہتی ہے اس خبیث رسم میں اپنے آرام کا خیال نہیں ہوتا تو ساتھ ساتھ دوسروں کے آرام میں خلل ڈالا جاتا ہے ۔ اگر شرح الصدور کی مندرجہ بالا عبارت کو دیکھا جائے تو سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے برے خاتمہ کا سامان تیار کر رہے ہیں ۔ میں اپنے بھائیوں کو تکلیف دے کر صرف لفظ Sorryکہہ دیتے ہیں۔ اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ کیاہر معاملہ میں یہ کہہ دینا کافی ہیں۔
نفس یہ کیا ظلم ہے ہر وقت تازہ جرم ہے
ناتواں کے سر پہ اتنا بوجھ بھاری واہ واہ
بہر حال یہ خبیث رسم پاکستان میں بڑھتی جارہی ہے ۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اس کو بہت کوریج دے رہا ہے ۔ ہمارے کچھ بچوں کے والدین ایسے بھی ہیں جو خود بھی اس گناہ میں شامل ہو تے ہیں ۔
بسنت ایک کھیل تماشا ہے ۔ لہو واجب میں شامل ہے اور قرآن کو رو سے لہو واجب حرام ہے ۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد خداوندی ہے کہ : ''وَمِنَ الناس مَنْ یَشْترَی لَھْوَ الْحَدِیْثِ لیُضِلَّ مَنْ سبیل اللّٰہ بغیر عِلْمٍ۔ ویتخذھا ھُزُوًا اولئک لہم عذاب مہین ۔''
ترجمہ: اور کچھ لوگ کھیل کی بات خرید تے ہیں ۔ کہ اللہ کی راہ سے بہکائیں بے سمجھے اور اسے بنا لیں ان کیلئے ذلت کا عذاب ہیں۔
بسنت کے موقع پر گانے گائے جاتے ہیں ۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں ۔ نغمہ کے وقت یا باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔
(اسی حدیث مبارکہ کو بزاز نے حضرت انس سے روایت کیا ہے )
اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ گانے سے دل میں نفاق اگتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی اگتی ہے ۔
(اس کو امام بہقی نے حضرت جا بر سے روایت کی ہے )
اس طرح کی کوئی احادیث مبارکہ ہیں مگر میں انہیں پر ہی اکتفا کرونگا۔
اس پر بہت سی حدیثیں دلالت کرتی ہیں۔ دوا حادیث ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ ابو داؤد نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہتی ہیں میں گڑیاں کھیلا کرتی تھیں۔ کبھی رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ایسے وقت تشریف لاتے کہ لڑکیاں میرے پاس ہوتیں جب حضور تشریف لاتے لڑکیاں چلی جاتیں اور جب حضور چلے جاتے لڑکیاں آجاتیں۔
(ابو داؤد شریف جلد دوم ص 675باب فی العب بالبنات)
2۔ صحیح بخاری شریف اور صحیح مسلم شریف میں ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ اور میرے پاس چند دوسری لڑکیاں بھی کھیلتیں جب حضور تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں ۔ حضور انکو میرے پاس بھیج دیتے ۔ وہ میرے پاس آکر کھیلنے لگتیں۔
(متفق علیہ)
یہ لڑکیوں کا کھیل ہے مگر آج کل وہ چھتوں پر چڑھ کر بسنت منانے میں مشغول ہوتی ہیں۔
بہر حال بسنت بالکل ناجائز ہے ۔ ہنود و یہود کےلئے شمار تہوار ہیں ۔ جن میں بیساکھی، ہولی اور بسنت وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بسنت کو وہ بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ملک پاکستان حاصل کرتے وقت مسلمانوں نے نعرہ لگایا۔ کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اس وقت قائدین پاکستان نے فرمایا کہ ہم ایک ایسی اسلامی ریاست چاہتے ہیں جہاں پر مسلمان آزادانہ رب تعالیٰ کی عبادت وریاضت کر سکیں ۔ یہ نہیں کہا کہ جہاں ہم ہندوؤں سے آزادی حاصل کر کے ہندوؤں کے تہوار منائیں گے ۔
معذرت سے! غیر اسلامی رسم و رواج تہواروں کو بڑی بڑی سرکاری پارٹیوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔ اب کون ہے پوچھنے والا۔ ہر طرح تحفظ فراہم ہو گا۔ ہند واپنے تہواروں کو منانے کیلئے جتنا اہتمام کرتے ہیں ہم ان سے اس مقابلہ میں سبقت لے گئے ہیں ۔ کچھ شرفاء کے گھر اس خبیث رسومات سے بچتے رہتے ہیں مگر دوسرے ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں ۔ ایک طرف شرفاء ہیں تو دوسری طرف امراء وہ جلدی جلدی بازار جاتے ہیں اور اپنی بھولی بھالی فیشن ایبل مغربی و ہنود و یہود کی تہذیب و ثقافت کی دلدادہ بچیوں کیلئے سامان تعیش خریدتے ہیں ۔ قد آور پتنگیں کیمیکل ڈور وغیرہ خرید کر دیتے ہیں کہ بیٹا تم بھی اس دوڑ پیچھے نہ رہ جانا۔
شیطان خوش ہوتا ہے کہتا ہے کہ دیکھو یہ ہیں میرے بھائی ۔ فضول خرچی کرنے والے۔ اسراف و تبذیر کرنے والے میرے بھائی ہیں ۔ یہ خدا کا فرمان ہے کہ فضول خرچی کرنیوالے اسراف کرنیوالے شیطان کے بھائی ہیں ۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ قوم کو اس پر کتنا فخر ہوتاہے کہ وہ شیطان کے بھائی بنیں ۔ ہم انکی پیروی کر رہے ہیں جو کہ ہمارے جانی دشمن ہیں۔ جن کے مظالم بیان کرتے قلم و زبان بھی کانپنے لگتے ہیں ۔ جو اسلام کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں ۔ مساجد کو شہید کر رہے ہیں ہماری پیاری بہنوں کی عزتوں کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے پیارے بچوں کے والدین کو نیزوں کی نوک پر چڑھا رہے ہیں ۔ جو ہماری پیاری ماؤں کے سہاگ لوٹ رہے ہیں ۔ جہنوں نے ہماری بہنوں،بھائیوں کو اپنی جیلوں میں قید کر رکھاہے ۔کیا یہ سچ نہیں ہے ؟یہ ہمارے پیارے مسلمان بھائیوں کی تکہ بوٹی کر رہے ہیں ۔ جنکے مظالم کو دیکھ کر سب کانپ اٹھتے ہیں ۔ جو عراق ۔ کشمیر ۔ بوسینیا ۔ فلسطین وغیرہ میں پیاری وادیوں کو خون سے رنگین کر رہے ہیں ۔ بہر حال مسلمانوں کا اپنے انہی دشمنوں کے تہواروں کو بڑے اہتمام کے ساتھ منانا انتہائی افسوسناک ہے ۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جانا رہا
نقصانات:۔
اب میں اس ناپاک خبیث رسم کے چند نقصانات تحریر کرونگا:
(١):۔ اس خبیث رسم کی وجہ سے کتنے ہی گھروں میں صف ماتم بچھتی ہے ۔
(٢):۔ اس کی وجہ سے (کیمیکل ڈور سے ) برقی رو معطل ہو جاتی ہے تاریکی چھا جاتی ہے مگر اس رسم کے دلدادہ لڑکے ، لڑکیاں ، یوپی ۔ ایس کے ذریعے اپنی اس شیطانی خواہش کو پورا کرتے ہیں ۔
(٣):۔ اس کی وجہ سے کتنوں کے گلے کٹتے ہیں کتنے زخمی ہوتے ہیں۔
(٤):۔ بے ہودہ گانوں کی وجہ شرفاء کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے ۔
(٥):۔ شراب نوشی جیسا حرام فعل ہوتا ہے ۔
(٦):۔ پڑوسیوں کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے ۔
(٧):۔ اس میں وقت کا ضیاع ہوتا ہے ۔
(٨):۔ مال کا ضیاع ہوتا ہے ۔ شیطان کے بھائی کا لقب ملتا ہے ۔
(٩):۔ نماز سے لاپرواہی ہوتی ہے ۔
(١٠):۔ مردوں عورتوں کا عام غیر شرعی اختلاط ہوتا ہے ۔
(١١):۔ غیر شرعی رقص و سرود کی محافل ہوتی ہیں۔
(١٢):۔ کچھ جگہوں پر اسلامی بہنوں کی عزت لوٹی جاتی ہے ۔
(١٣):۔ غیر شرعی لباس زیب تن کیا جاتا ہے ۔ ہنود کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے ۔
(١٤):۔ حیاء و شرم جاتی رہتی ہے ۔
(١٥):۔ لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے ۔
(١٦):۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کی ذہنیت فروغ پاتی ہے ۔
(١٧):۔ لاقانونیت فروغ پاتی ہے ۔ وغیرہم ۔
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
آج ہمیں فیصلہ کرتا ہو گا کہ ہمارا ہیرو ہمارا آئیڈیل کون ہے ؟ ہمارا آئیڈیل غازی علم الدین شہید ہے یا کہ گستاخ رسول حقیقت ہمارا ہیرو کون ہے ؟ ہمیں کس کی پیروی کرنی چاہئے؟
سعادت مند حکمران: ۔
وہ سعادت مند حکمران ہوتے ہیں جو برائی کو روکتے ہیں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سچے پیکر بنتے ہیں اب یہ حکام بالا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس برائی کو روکنے کی مناسب منصوبہ بندی کریں ۔ 12ربیع الاول جو عاشقان مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کیلئے بڑا خوشی و مسرت کا دن ہے ۔ اس کا بھی سرکاری آرڈر مرحوم گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نے دیا تھا۔ جس کے بعد اس کو سرکاری اس طرح پر بھی منایا جانے لگا۔
بہر حال ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا سچا مصداق بننا چاہئے اب علمائے کرام اور مفتیان عظام فتاویٰ جات ملاحظہ کریں کہ وہ بسنت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
(١):۔ استاذ العلماء جناب حضرت علامہ مفتی اللہ بخش سیالوی صاحب آف راوی ریان لاہور فرماتے ہیں کہ
بسنت میں عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے ۔ اس میں مال کا اسراف فضول خرچی ہوتی ہے ۔ جان کے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا یہ ہر لحاظ سے ناجائز ہے ۔ فضول خرچی کرنے والوں کو اخوان الشیاطین کہا گیا ہے ۔
واللّٰہ اعلم بالصواب
مفتی اللہ بخش سیالوی
مدرس و مفتی جامعہ سیفیہ راوی ریان ،لاہور
(2):۔ جامع المعقول والمنقول ،مصنف کتبِ شہیرہ شیخ الحدیث استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا عبد الستار سعیدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ۔
ناظم تعلیمات و شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
بسنت میں فحاشی پائی جاتی ہے ۔ عورتوں کا نا محرموں کے ساتھ میل جول ہوتا ہے اس میں سراسر مال اور وقت کا ضیاع ہے لہٰذا یہ سراسر ناجائز ہے ۔
عبد الستار سعیدی
ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور و خطیب جامع مسجد مسلم بیرون اوہاری گیٹ لاہور
(3):۔ حضرت علامہ مولانا مفتی تنویر القادری صاحب
مفتی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
بسنت معروف اقوال کے مطابق ہندوؤں کا تہوار ہے اور اس میں بے حیائی و فحاشی پائی جاتی ہے لہذا یہ ناجائز ہے
مفتی تنویر القادری
جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
(4):۔حضرت علامہ مولانامفتی ضیاء الدین مدنی دامت برکاتہم العالیہ(انڈیا)
بسنت ہندوانہ تہوار ہے ہندو اس پوجا کرتے ہیں شریعت میں اس تہوار کی ا جازت نہیں
مفتی ضیاء الدین مدنی(انڈیا)
(٥):۔ اب اس ہستی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں کہ جس نے ایک ہزار سے زائد کتب رقم فرمائیں بریلی کے فتاویٰ رضویہ کی صورت میں ایک عظیم الشان انسائیکلو پیڈیا لکھ ہم پر بہت بڑا احسان کیا۔ میری مراد بے تاج بادشاہ مجدد دین و ملت ، امام العاشقین مدینہ، حضور اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ مظہر السلام بریلی شریف ۔آستانہ عالیہ بریلی شریف ۔انڈیاامام اہلسنّت مجددددین وملت سید نا اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خا ں بریلوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں۔کہ دور لوٹنا حرام ہے ۔
امام اہلسنّت نے رائج الوقت پتنگ بازی کا بغور شاہدہ فرمایا اور ا س کا ہر زاویے سے تجزیہ کر نے کے بعد اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پر کھا اور اس سے جو نتیجہ نکلا اور اس کو ایک سوال کے جواب میں یوں عنایت فرمایا۔
1۔کن کیا (پتنگ ) لہو لعب ہے اور لہو ناجائز ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ کل مہو المسلم حرام فی ثلث ۔۔۔۔۔۔
ڈور لوٹنا نبھی ہے اور نبھی حرام ہے حدیث شریف میں ہے کہ :
نھٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم عن النبھی ۔ ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوٹنے سے منع فرمایا ہے ۔
ج: لوٹی ہوئی ڈور کا مالک اگر معلوم ہو تو فرض ہے کہ اسے دیدی جائے ۔ (بغیر اجازت (استعمال حرام ہے ) کے اس کپڑا سیا تو اس کا پہننا حرام ہے اور اس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے ۔ (احکام شریعت جلد اوّل ص 21)
(٦):۔عظیم محدث فیض احمد اویسی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
بسنت لہو لعب میں سے ہے اور لہو واجب حرام ہے ۔ بسنت خونی کھیل ہے ہندوؤں کی رسم ہے ۔ اس کا منانا حرام ہے
( ماخوذ : بسنت تہوار یا غضب کردگار)
(٧):۔یادگار اسلاف علامہ علی احمد سندیلوی صاحب لاہور
جب میں نے آپ سے فتویٰ حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا تو آپ نے فرمایا ''کہ میرا وہی فتویٰ ہے جو آقائے دوجہاں کا ارشادہے کہ من تشبہ بقوم فھو منہم
لہٰذا علمائے کرام مفتیان عظام کا اس بات پر اکتفا ہے بسنت امر بالمعروف مانا بالکل ناجائز ہے ۔ یہ ہند وانہ رسم ہے ۔ جس کے روک تھام کیلئے کام کرنا چاہئے ہمیں ونہی عن المنکر کا حقیقی پیکر بننا چاہئے۔ ایسی رسم جس میں مال کا ضیاع ہے جال کے جانے کا خدشہ ہے جس وقت کا ضیاع ہے ۔ فضول خرچی ہے ۔ تو ایسی رسم سے خود بھی رکنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس بری رسم سے روکنا چاہئے۔
بسنت کی رسم میں پتنگ بازی کیلئے مؤلف دھاتوں کی دوڑیں /تاریں استعمال ہوتی ہیں۔ (جن میں چند ایک یہ ہیں)۔ آج کے دور میں بڑی قد آور پتنگوں کو اڑانے کیلئے جو ڈور استعمال ہوتی ہے اس میں موٹے شیشے کا سفوف ۔ ریماٹپٹاپ، دھاتی برادہ ۔ موٹا دھاگا، پلاسٹک جوڑنے والا کیمیکل ، لوہا ، ڈائمنڈ ڈسٹ اور فائر ایمبری شامل ہے ۔ جو کئی چھوٹے برے حادثات کا سبب بنتی ہیں۔
ہمیں ایسی ثقافت ، ایسے رسم و رواج کو فروغ دینا چاہئے،کہ جس سے معاشرے ، کہ جس سے معاشرے میں اتحاد ، یگانگت، بھائی چارہ ، اخوت، الفت و محبت پروان چڑھے جو اسلامی قوانین اور ملکی قوانین کے مطابق ہو ۔ جس لڑائی جھگڑے اور قتل و گارت کی بو تک نہ آئے۔ اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے کا درس نہیں دیتا۔
پیکر امن و سلامتی داعی امن و سلامتی باث تخلیق کون و مکان آقائے ماندار مدنی تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ راحت عاشقاں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
حدیث شریف : جس نے کسی کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا جس نے کسی ایک کو ہلاک کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو ہلاک کیا ( اوکما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام )
آخر ہم اپنی جان اور دوسروں کی جان کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟ ہم امن و سلامتی کا رستہ کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ مسلمان اپس میں بھائی ہیں۔
حدیث شریف: المسلم اخواالمسلم۔
ترجمہ: مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
لہٰذا ہمیں بھائی چارے کو فروغ دینا چاہئے۔ تعصب قتل و غارت لڑائی جھگڑوں اور ان کا سبب بننے والے رسم و رواج ثقافت کا قلع قمع کرنا چاہئے۔ تا کہ مسلمان اتفاق و اتحاد کی فضا میں اپنی زندگیاں بسر کریں۔ اور دشمنان اسلام ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکے۔
بسنت کی تباہ کاریاں: بہر حال اب مختصر طور پر ان واقعات اک ذکر کروں جن میں انسانی زندگی میں پتنگ بازی کی وجہ سے داؤپر لگی ۔ اس کی وجہ سے کتنوں کی جانیں داؤ پر لگیں ۔ کتنے زخمی ہوئے ۔ کتنوں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے ۔ ایک طرف ہنود و یہود مسلمانوں کی تکہ بوٹی کر رہا ہے کشمیری عوام پر کیا طلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے ؟ عراقی عوام کن مصائب و آلام سے گذر رہی ہے ؟ فلسطینی عوام بوسینیا کی عام کن کرب و آلام سے گذر رہی ہے ؟ بھارتی مسلمان کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں ؟ مسلمان شہر خون سے سرخ ہوگئے ہیں ۔ مسلمان برادری کو لہو لہان کر دیا گیاہے اور دوسری طرف ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی خود خون کر رہے ہیں ۔ اس کی وجہ قتل ہو رہا ہے ۔ ہمارے شہر خون سے سرخ ہو گئے ہیں آخر ہم کویں اپنے ہی ہاتھ سے اپنے مسلمان بھائیوں کا کون کر رہے ہیں ؟ ہم اپنی طاقت کو کیوں داؤ پر لگا رہے ہیں؟ خدا ہمیں سوچ و سمجھ عطا کرے اور ہمیں غیر شرعی رسومات سے بچنے کی توفیق دے ہمیں یہ سوچنے سمجھنے کی توفیق دے کہ مسلمان کا کون کتنا قیمتی ہے ۔ آمین ثم آمین
بہر حال ہم ایسے ہی چند واقعات پر مختصر سی نظر ڈالتے ہیں ۔
1۔ پاکستان کا مشہور و معروف روزنامہ جنگ 28فروری2004؁ء میں لکھا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے ہم بہار کے موسم میں عجیب مناطر دیکھ رہے ہیں ۔یہ مناطر غم اور افسوس کے ہیں۔ اب اس موسم میں گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے ۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے لوگون کے گلے کٹنے لگتے ہیں ۔ کتنے ہی بچے اور نوجوان بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے لٹک کر لقمہئ اجل بنجاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا بھی کوئی شمار نہیں جو معذور ہو جاتے ہیں اور ان ماؤں کا بھی کوئی شمار نہیں ۔ جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں کو موت کی گھاٹ اترتے دیکھتی ہیں بہار کے موسم میں یہ غم بسنت کے خونی تہوار نے دئے ہیں ۔ اب تک ہزاروں بچے بسنت کے خونی تہوار کی نذر ہو چکے ہیں ۔ لیکن بسنت کی عیاشی میں مبتلا لوگوں کی بہار کی خوشیاں پوری نہیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ بہار کے اس پہلو کو کوئی ہوش مند انسان پسند نہیں کرتا ؟ افسوس کہ اسکا جواب نفی میں ہے ۔ بہار کے اس خونی پہلو پر جان چھڑکنے والے کہتے ہیں کہ بسنت ایک خوبصورت تہوار ہے ۔ یہ تفریح ہے ۔
2۔ روزنامہ انقلاب لاہور 3مارچ2006کی لاہور اور گوجرانوالہ کے متعلق رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔
بسنت بخار نے مزید تین افراد کی جان لے لی ۔ جب ڈور پھرتے ، پتنگیں لوتنے کی کوشش اور چھتوں سے گرنے کے باعث درجنوں نوجوان زخمی ہو گئے ۔ تفصیلات کے مطابق چوہنگ میں محافط ٹاؤن کے رہائشی محنت کش جاوید کا 7سالہ بیٹا حسن جو دوسری جماعت کا طالبعلم تھا پتنگ کی طرف لپکا اور چھت سے گر گیا اور بری طرح زخمی ہو گیا اور ہسپتال میں دم توڑ گیا ۔ جب لاش گھر پہنچی تو ماں پر غشی طاری ہو گئی۔ خیابان روڈ ، گلے پر ڈور پھر نے سے مور سائیکل سوار شدید زخمی ہو گیااور گوجرانوالہ میں پتنگ بازی کے دوران ہلاک ہونے والوں میں ٹھہری سانس کا رہائشی لڑکا عالم جو کو توالی میں بسنت منانے آیا تھا ۔ گزشتہ روز چھت کے کنارے اپنا توازن بر قرار نہ رکھ سکا اور نیچے جا گرا۔
3۔ روزنامہ انقلاب مارچ2006؁ء میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ۔
نوشہرہ روڈ پر 15سالہ علی رضا پتنگ بازی کرتے ہوئے مکان کی چھت سے گر ا اور موقع پر ہلاک ہو گیا۔
4۔ اسی طرح چند اخباری اطلاعات کے مطابق:
12فروری2006؁ء سے 5مارچ 2006؁ء تک پتنگ بازی کے ذریعے کرنٹ لگنے ، ڈور پھرنے اور اور چھت سے گرنے کیوجہ سے 9افراد ہلاک ہوئے ۔ جن بدنصیبوں میں 2معصوم بچے بھی شامل تھے۔
5۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق صدر مسٹر اکرم چوہدری نے پتنگ بازی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے نشاندہی فرمائی کہ 2000؁ء سے2006؁ء تک 825افراد اس پتنگ بازی کی وجہ سے جان بحق ہوئے۔
اگر اس اوسط نکالی جئے تو تقریباً ہر سال ( 7سالوں میں) 118افراد ہلاک ہوئے۔
6۔ روزنامہ نیا اخبار17مارچ 2008؁ء میں یہ افسوسناک خبر شائع ہوئی کہ
کامونکی میں پتنگ بازی کرتے ہوئے 9بچے چھت سے گرے اور شدید زخمی ہوئے جن کو بعد ہسپتال داخل کرادیا۔
7۔ اسی طرح روزنامہ انقلاب 30مارچ2008؁ء میں یہ خبرشائع ہوئی کہ ۔
گجر پورہ لاہور کا نوجوان (جس کا نام آصف تھا) موٹر سائیکل پر اپنی اہلیہ کے ساتھ جا رہا تھاکہ تیز دھار ڈور اس کی گردن پر پھری خون میں لت پت ہو گیا ۔ جس کو ہسپتال داخل کرایا گیا اور وہ وہاں پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا ۔ گھر والے بے حد افسردہ تھے۔
بہر حال یہ تو چند اخباری خبریں جن میں اس موت والے کھیل یعنی پتنگ بازی سے ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی نشاندہی کی گئی۔ مگر ایسے بھی تو ہوں گے کہ جن کے بارے میں اخبارات کچھ بتانے سے خاموش ہیں۔ آخر میرے مسلمان بھائیو ایک سوال کا جواب دیجئے کہ آخر آپ ایسے کھیل ، ایسی تفریح ایسے رسم و رواج ، ایسے تہوار کیوں مناتے ہیں کہ جن سے اپنی جان کو بھی خطرہ ، معصوم بچوں کی جانوں کا خدشہ ، راہ گذر افراد کی اجونں کو خطرہ وہ زکمی ہونے کا خدشہ ہو؟
ہمیں لہٰذا اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس برائی سے بچانا اور دوسروں کو بھی روکئے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے کہ
قُوا انفسکم واھلیکم نارا
کہ ''جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے ''۔
کیونکہ اگر تم گستاخان رسول کی رسم مناؤ گے۔ تو قیامت میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم میں پھینکنے کا اشارہ ہو جائے کیونکہ ااقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ھدیث شریف ہے ۔ کہ
فن تشبہ بقوم فھو منہم
کہ ''جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے ''۔
بہر حال ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پیکر بننا چاہئے کیونکہ اس کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ ضمناً کچھ آیات و احادیث لکھے دیتا ہوں۔
1۔ وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَدْعُوْنَ اِلَی الخَیْرِ وَیَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر
(پارہ نمبر4سورہ ال عمران آیت نمبر104)
تم میں ایک امت ہونی چاہئے جو خیر کی طرف لائے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے ۔
2۔ کُنْتُم خَیرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ و تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر
(پارہ 4ال عمران آیت نمبر110)
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے نکالی گئی ہوتم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ۔
لہٰذا قرآن کی ان دو آیات مقدسہ سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہو گیا ہے ۔ اب آئےے امام الانبیاء سرور کون و مکان حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک احادیث کی طرف آتے ہیں ک جن میں امر بالمعراف ونہی عن المنکر کی تلقین کی گئی ہے ۔
1۔ عن حذیفہ بن الیمان عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم قال والذی نفسی بیدہ لتامرن بالمعروف و تنہون ن المنکر لیو شکن اللّٰہ من یبعث علیکم عذابا منہ قتد عونہ فلا یستجیب لکم
(ترمذی شریف جلد دوم ص 39مطبوعہ فاروقی کتب خانہ لاہور)
حضرت خذیفہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ ضرور تم نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ۔ یقینا قریب ہے کہ اللہ تحریر اپنی طرف سے عذاب بھیجے ۔ تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہیں کریگا۔
2۔ اسی طرح برائی کو ہاتھ سے یا زبان سے یادل سے برا جاننے کے بارے میں ،
من رأی منکم علیخیرہ بیدہ ومن لم یستطع قبلسانہ وفمن لم یستطیع قبظبہ وزلک اضعف الایمان
تم میں سے جو بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ ہاتھ سے روکے ، اگر استطاعت نہ رکھے تو زبان سے روکے اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور تیرن ایمان ہے ۔
(ترمزی شریف جلد دوم ص 40مطبوعہ فاروقی کتب خانہ لاہور)
اسی طرح امام شرف الدین بوسیری اپنے شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف میں ارشا فرماتے ہیں۔ ؎
پس ان احادیث سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ثابت ہے ۔ احادیث کافی ہیں مگر اس دو پر بھی اکتفا کیا ہے کہ مضمون کے طویل ہونے کا خدشہ ہے اور طوالت سے بیزاری آجاتی ہے ۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی کو فروغ دیں اور برائی کا قلع قمع کرتے ہوئے برے رسم و رواج ثقافت ، تہواروں کا ختم کریں ۔ تاکہ قیامت والے دن ہم کامیاب لوگوں میں شامل ہوں ا ور سرور دوجہاں ۔ امام الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں ۔ خدا ہمیں برائی سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین ثم آمین



موجودہ دور میں پتنگ بازی کے نقصانات

ان ممالک کے مقابلے میں پاک وہند اورخصوصاً لاہور کی پتنگ بازی میں خاص فرق یہ ہے کہ پتنگ بازی میں مقابلہ صرف پتنگ کاٹنے کا ہوتاہے جس کی پتنگ کٹ جائے وہ ہار جاتاہے اورکاٹنے والا جیت جاتاہے یہاں پتنگ بازی اور سائنس کا کوئی تعلق دورد ور تک تلاش نہیں کیا جاسکتا اس میں کھیل وتفریح کی اسپرٹ نظر نہیں آتی بلکہ میدانِ جنگ کی کیفیت نمایاں نظر آتی ہے جہاں لوگ کھیل کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ کھیل جیتنے کے لئے خطرناک اورجان لیوا حربوں سے بھی گریز نہیںکیا کرتے ۔ اس سوچ اورخواہش نے پتنگ بازی کو بہت زیادہ خطرناک بنادیا ہے جس نے اب معصوم انسانوں کے گلے کاٹنے شروع کردئیے ۔
آج کے دور میں بڑی پتنگوں کو اڑانے والی ڈور کے لئے موٹا دھاگا، دھاتی برادہ، کیمیکل ، موٹے شیشے کا سفوف ، لوہا، پلاسٹک جوڑنے والا کیمیکل ، ریما ٹپٹاپ ، ڈائمنڈ ڈسٹ اورفائبر ایمبری استعمال کیا جاتاہے ۔ ڈور کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈائمنڈ ڈسٹ کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے کلو کم از کم ہے ۔
ایک مرتبہ اچانک چند لڑکے دکانوں سے نکل کر بھاگنے لگے ۔ جب متوجہ ہوا تودیکھا کہ وہ سڑک کے قریب چھوٹی سی کٹی ہوئی پتنگ لوٹنے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں لپٹا جھپٹی پتنگ سڑک پران لڑکوں کی پہنچ سے قریب ہوتی ہے پتنگ پرنگاہ جمائے ہوئے یہ لڑکے بھول گئے کہ وہ تیز رفتار چلتی ہوئی ٹریفک کے درمیان ہیں ان میں سے ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا اوریہ بے قابو موٹر سائیکل دوسری تیز رفتار موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی نوجوان خون میںلت پت ہوکر تڑپنے لگے۔ آہ وبکاہ کی دردناک صدائیں بلند ہونے لگیں سارا ٹریفک جام ہوگیا۔ اس ہنگامی صورت میں لوگ ان زخمیوں کو اٹھا کر جلد سے جلد طبی امداد کے لئے ہسپتال پہنچانے کی انتھک کوشش کرنے لگے لیکن ان میں سے کسی کو بھی اتنے بڑے المناک حادثہ کی وجہ معلوم نہیں تھی کہ یہ ایک چھوٹی سی کٹی ہوئی پتنگ کا نتیجہ ہے ۔
روزنامہ انقلاب لاہور ٣ مارچ ٢٠٠٦ء کی لاہور اورگجرانوالہ سے متعلق رپورٹ کے مطابق بسنت بخار نے مزید تین افراد کی جان لے لی جب کہ ڈور پھرنے پتنگیں لوٹنے کی کوشش اورچھتوں سے گرنے کے باعث درجنوں نوجوان زخمی ہوگئے ۔ تفصیلات کے مطابق چوہنگ میں محافظ ٹاؤن کے رہائشی محنت کش جاوید کا ٧ سالہ بیٹا حسن جو دوسری جماعت کا طالب علم تھا پتنگ کی طر ف لپکا توچھت سے گرگیا اوربری طرح زخمی ہوگیا اورہسپتال میں دم توڑ دیا۔ نعش جب گھر پہنچی تواس کی ماں پر غشی طاری ہوگئی ۔
خیابانِ اقبال روڈ ، گلے پر ڈور پھرنے سے موٹر سائیکل سوار شدید زخمی ہوگیا۔ ادھر گجرانوالہ میں پتنگ بازی کے دوران ہلاک ہونے والوں میں تھیڑی سانسی کا رہائشی لڑکا عاصم جو کوتوالی میںبسنت منانے آیا تھا گزشتہ روز چھت کے کنارے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اورنیچے گلی میں جاگرا۔ ادھر نوشہرہ روڈ پر ١٥ سالہ علی رضا پتنگ بازی کرتے ہوئے اپنے مکان کی چھت سے گرگیا اورموقع پر دم توڑ دیا ۔ لائرز ویلفیئر فرنٹ کی جانب سے ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پتنگ بازی آرڈنینس ٢٠٠٦ء بنیادی حقوق اورآئین کے منافی ہے ۔
پتنگ بازی کی بڑھتی ہوئی ہولناکی اورحادثات سے شہریوں کو بچانے کے لئے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے پابندی عائد کردی ۔ حکومت پنجاب نے بسنت کا میلہ منانے کے لئے سپریم کورٹ سے پندرہ دن کی مہلت مانگی اس کے بعد ایک اور اپیل کے ذریعے ٥ دن کا مزید اضافہ کرایا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ١٢ فروری سے ٥ مارچ ٢٠٠٦ء تک پتنگ بازی کے ذریعے کرنٹ لگنے ، ڈور پھرنے اورچھت سے گرنے کی وجہ سے ٩ افراد جان بحق ہوئے جن میں دو معصوم بچے بھی شامل تھے پھر وزیر اعلیٰ پنجاب نے پتنگ بازی پر مستقل پابندی لگا دی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر مسٹر اکرم چوہدری نے پتنگ بازی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل میںنشاندہی کی گئی کہ ٢٠٠٠ء سے آج تک ٨٢٥ افراد پتنگ بازی کی وجہ سے جاں بحق ہوئے اسی طرح ہرسال اوسطاً ١١٨، افرادجاں بحق ہوئے۔ 

پتنگ بازی پورے برصغیر پاک وہند کے کلچر کا حصّہ ہے لیکن جب کوئی تہوار یا کلچر کا حصّہ قاتل بن جائے تو اس سے نجات پانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے ترقی پسند ہونے کا مطلب یہی ہے کہ معاشرے سے ان روایتوں کا خاتمہ کیا جائے جو معاشرے کو صدمات ، حادثات اورخطرات سے دو چار کرتی ہیں۔


ویلنٹائن ڈے کی حقیقت،لمحہ فکریہ Valentine Day ki haqiqat

Valentine Day ki haqiqat 

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت،لمحہ فکریہ

اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود دیا تو فرشتوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غالب حکم یہ سنایا گیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ایسے میں علماء و محققین کی تمام تر تحقیق اس عنصر کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا وجود فقط نبی کریم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمانے کیلئے دیا جس کا عین ثبوت اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عالیشان ہے کہ ”اگر دنیا میں اپنے محبوب پیغمبر صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کو نہ بھیجنا ہوتا میں کائنات تخلیق نہ کرتا” ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ محبت ہی وہ بنیادی عنصر ہے کہ جو دنیا کی تخلیق و وجود کی بنیاد ہے اور سب سے بڑی محب ذات پیغمبر صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلمکی ہے جن سے خود خدا نے محبت کا اظہار فرمایا ہے۔

دریں حالات محبت و الفت کے دیگر کلیدی مصدر اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام علیہم رضوان کی ذات ہے جن سے والہانہ عقیدت و محبت انسان کیلئے دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے حصول کی ضمانت ہے، بدقسمتی سے ہماری قوم پر بھیڑ چال والا محاورہ سو فیصد درست ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہاں کوئی بھی کام ہو اسے بغیر پرکھے اور بغیر کسی تصدیق کے فوراً نقل کرنا شروع کردیا جاتا ہے ، مثلاً کپڑوں کے نئے ڈیزائن کے ساتھ نیا فیشن ہویا کسی گلوکار کا کوئی مشہور گیت ہو اسے خود پر جنون کے ساتھ مسلط کرلیا جاتا ہے۔

اسی طرح غیر ملکی اور غیر اسلامی تہوارو ں کو بھی اپنا تہوار بنالیا جاتا ہے، اس وقت پاکستان میں مختلف ممالک کے زیر سایہ این جی اوز ااپنا کام کررہی ہیں اور یہ این جی او فقط پیسہ کمانے کے چکر میں بے ہودہ و لغو اور فضول تہواروں کے فروغ کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے نہایت تیزی سے ایک موذی وبا کی طرح پھیل رہا ہے اکثر پاکستانی لوگ تو ویلنٹائن ڈے کے تلفظ اور اسکے مطلب تک کو نہیں جانتے مگر دیکھا دیکھی اس تہوار پر ہر سال کروڑوں روپے ضائع کردیتے ہیں کیونکہ پاکستانی مادہ پرستی اور یورپ کی غلامی میں اس قدر گھہرچکے ہیں کہ پھولوں کے گلدستے لینے دینے کیلئے بے چین و بے قرار رہتے ہیں۔

ہمارا ملک پاکستان کھربوں ڈالر کا مقروض ہے لیکن اسلامی شعار کو پامال کرتے ہوئے گستاخانِ رسول کے تہوار منانے کیلئے کروڑوں روپے فضول خرچی میں اڑا دیتے ہیں کہ جیسے دنیا میں سب سے خوشحالی ملک پاکستان ہی ہے گویا ہم لوگ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ دیگر قوموں کے فضول تہوار منانا چھوڑ دیئے تو ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جائیں گے ، ہمارے ہاں رائج ادب و ثقافت اور ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں اور بھارتی فلموں میں پیش کئے جانے والے عشقیہ مناظر میں پوری نوجوا ن نسل کو مریض عشق بنا رکھا ہے۔

Valentine Day
Valentine Day
سکول و کالجز میں عشق کے چکر اور گھروں سے اپنے آشنا کے ساتھ بھاگنے والی لڑکیوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ اس کی دلیل ہے، بازارو ں اور مارکیٹوں میں عید کارڈز ،  ویلنٹائن ڈے کے کارڈوں کے اسٹالز بھی لگنے شروع ہو گئے ہیں جبکہ مٹھائی اور بیکری کی دکانوں پر ویلنٹائن ڈے کیس کی فروخت بھی رواج بن چکی ہے، اس مقابلے کی دوڑ میں اب زندہ دلان لاہور تو کیا زندہ دلانے پاکستان نظر آرہا ہے۔

اس قدر جوش و خروش دیکھ کر راقم کو تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں کوئی سیاسی پارٹی اس بار الیکشن میں انتخابی نشان دل ہی نہ مانگ لے، پاکستانی قوم کو کیا ہوگیا ہے ؟، سائیکلوں ، موٹر سائیکلوں، کاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی حتیٰ کہ آج کل گلی محلوں میں سبزی اور مختلف چیزیں بیچنے والوں کی گدھا گاڑیوں وغیرہ پر بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے گانوں کی ریکارڈنگ بج رہی ہے، راقم کے ایک قریبی دوست سیف اللہ گھمن کو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں دبئی جانا پڑا تو جاتے ہوئے اس نے اپنی شاپ چاندنی گفٹ سنٹر پر بطور نگران کی ذمہ داری سونپ دی، چاندنی گفٹ سنٹر پورے شہر میں اپنے نام کی طرح اس وقت چمک دمک رہا ہے۔

ویسے تو اس گفٹ شاپ میں شادی ، بیاہ اور سالگرہ کے موقع پر دینے کیلئے گفٹ میسر ہوتے ہیں مگر ماہ فروری شروع ہوتے ہی سرخ پھولوں کے گلدستوں اور مصنوعی دلوں کی خریداری کا سلسلہ عروج پر جا پہنچا، کالج کے لڑکے لڑکیوں کے علاوہ مڈل سکولو ں کے لڑکے لڑکیوں میں بھی یہی جوش و خروش دیکھنے میں آیا، کم و بیش ایک ہفتہ کے دوران دو مرتبہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور سے خصوصی طور پر سرخ پھولوں کے گلدستے اور مصنوعی دلوں کو پرچیز کیا گیا ، ویلنٹائن ڈے کے گفٹ خریدنے والوںمیں کم عمر اور جواں سالہ لڑکیوں کی تعداد خاصی تھی جبکہ بعض لڑکیوں کے ساتھ تو انکی مائیں و دیگر عزیزائیں بھی تھیں جو گفٹ کی خریداری میں ان کی مدد کررہی تھیں۔

Pakistani Girls celebrated valentine
Pakistani Girls celebrated valentine
راقم نے ایک لڑکی کی ماں سے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ ”سانوں کی پتہ اے ایہہ کھسماں کھانا کی ہوندا ہے”بس یہ لڑکیوں کو سکول کی ٹیچروں نے کہا ہے کہ ایسی چیزیں خرید کر دوستوںکو دینا ، جبکہ ایک طالبہ سے پوچھنے پر مزید انکشاف ہوا کہ فلاں سکول میں تو ویلنٹائن ڈے کیلئے پیش کئے جانے والے ڈرامہ کی ریہرسل بھی کروائی جارہی ہے جبکہ ایک ٹیچر نے تو 14فروری کو پہننے کیلئے سرخ رنگ کا ایک اسپیشل سوٹ بھی تیار کروایا ہے۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم پرائیویٹ سکولز میں اپنے بچوں کو فقط اس لئے داخل کرواتے ہیں تاکہ یہاں سرکاری سکولز کی نسبت بہتر پڑھائی اور تربیت ہو گی مگر جہاں ٹیچرز ہی ویلنائن ڈے کے ڈراموں کی ہیروئن بن رہی ہوں وہاں کچے ذہنوں کے طلباء کا کیا بنے گا، بلاشبہ ایسے کلچر کے فرو غ سے نہایت منفی رجحانات پروان چڑھیں گے اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائیں گے، جس سے ہمارے معاشرہ میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا، موجودہ صورت حال اور ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے راقم کا کہنا یہ ہے کہ
بجلی کبھی گیس کبھی پٹرول کا دن ہے
یعنی ہر روز یہاں پترول کا دن ہے
ساحر سبھی دل میں رکھ لو 15 تک
14فروری بھونڈوں کی چھترول کا دن ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ پچھلے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر بتی چوک شیخوپورہ میں بھونڈوں اور منچلے لڑکوں کی پولیس کے ہاتھوں سرعام چھترول ہوئی تھی کیونکہ ان نوجوانوں نے نہ صرف اپنی موٹر سائیکلوں کے سلنسر اتار کر بے ہنگم انداز میں موٹر سائیکلیں دوڑائی بلکہ سکول و کالج کی لڑکیوں کے آگے پیچھے پوٹھی سیدھی حرکتیں بھی کیں، ان بھونڈوں کی شرٹوں پر ویلنٹائن ڈے اور دل بنائے گئے تھے اور کئی لڑکے ہاتھوں میں غبار ہ نما دل اچھال کر لڑکیوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے یقینا اس بار بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ معاشر ے میں برائی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ، کاش ایسے نوجوان یہ بھی سوچ لیں کہ اگر ان کی بہن کو کوئی اس طرح تنگ کرے تو ان کے دل پر کیا بیتے گی۔

قارئین! کہنے کو توبہت ساری باتیں اور گزشتہ کئی برسوں سے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا مگر نہ تو اس سے نوجوانوں نے بے راہ روی ترک کی اور نہ ہی کسی طرح اس سلسلہ کی روک کا کوئی عنصر سامنے آیا جس کی حقیقی ذمہ داری فقط انتظامی اداروں کی ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار سے نئی نسل کو دور رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

یوم تجدید محبت منانے کے نام پر کھلم کھلا بے راہ روی کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اسلامی معاشرے میں ان غیر مسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تاکہ مسلمان اپنے مبارک اور پاک تہوار چھوڑ کر غیر اسلامی تہوار منا کر اسلام دور ہو جائیں ۔یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے اور اس کی تشہیر میں پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا کو پھرپور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اور اس دن کو خاص پروگرام دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے کہ یہ غیر مضرت رساں یامسلمانوں ہی کا کوئی تہوار ہے ۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہ انسان کی ناجائز نفسانی خواہشات کے پروان چڑھانے کو ہوا دینا ہے ۔ کہ جس کی اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا ۔ اور ہم اب اس دن اربوں روپے خرچ کرکے بڑے شایان شان سے اس کو مناتے ہیں کہ جیسے بہت ہی مقدس تہوار ہو۔ اگر ہم یورپ کی بات کریں تو ادھر بھی اس تہوار کو آوارہ نوجوانوں کی عیاشی اور محبت کے نام سے اس دن کو منسوب کیا گیا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ایک غیر اسلامی معاشرے میں بھی عوام کی اکثریت اس تہوار کو غلط سمجھتی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرہ کہ جس کو ایک اسلامی معاشرہ تصور کیا جاتا ہے اس میں اس قسم کے تہوار منانا ایک لمحہ فکریہ ہے ۔

ہر سال جنرل سٹورز اور کتابوں کی دکانوں پر اس دن کے حوالے سے جو ویلنٹائن ڈے کارڈز فروخت ہوتے ہیں کہ اتنے کارڈز اور تحفے عید کے مبارک دن پر بھی نہیں ہوتے اس طرح ہمارے معاشرے میں لادینیت اور بے راہ روی پھیل چکی ہے کہ جس کو قومی سطح پر درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہاں ،کارڈ اور پھول فروخت کرنے والوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ اس کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائین کی مناسبت سے ہوا کہ جس کو مذہب تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا قید کے دوران ویلنٹائین کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور اس کو پھانسی پر چڑھانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو الودعی دعوت نامہ لکھا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ‘‘تمھارا ویلنٹائین ’’ کہ واقعہ14فروری 279عیسوی کو پیش آیا اس کی یاد میں اس دن کو منایا جاتا ہے ۔


اس حقیقت کے بعد ساری بات عیاں ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا اسلامی معاشرے کی تباہی و بربادی پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ ہمیں اس کے بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنی اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا چاہیے اور ان پر عمل کرکے ایک اچھا مسلمان بن کر دکھانا چاہیے ۔ ہمیں اس بات کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے اسلامی تہواروں کو ختم کیا جا رہا ہے کیا کسی غیر مسلم نے عید کا تہوار منایا ؟ اس کا جواب یقینا نہیں ہی ہو گا۔ تو پھر اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ غیر مسلموں کی اس سازش کو ناکام بنا کر اسلام کی اقدار کو اپنائیں ۔