Sunday, October 5, 2014

dr tahir ul qadri

فتنہ طاہریہ کی حقیقت


الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اللہ

مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔

“الاعداء الثلثلہ عدوک وعدو صدیقک وصدیق عدوک۔“

انسان کے تین دشمن ہیں، آپ فرماتے ہیں ایک تیرا دشمن، ایک تیرے دوست کا دشمن اور ایک تیرے دشمن کا دوست، تیرے دوست کا جو دشمن ہے درحقیقت وہ تیرا بھی دشمن ہے۔

حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) سے ہمیں محبت ہے اس طرح صحابہ و اہلبیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی ہم اہلسنت کے محبوب ہیں الحمدللہ۔ لٰہذا جو حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے اور آپ کی اہلبیت و صحابہ کے دشمن ہیں وہ ہمارے بھی دشمن ہیں۔ ہم اگر انہیں اپنا دوست سمجھیں تو ہم حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ و اہلبیت کے دشمن ہوں گے۔ جس شخص نے اس حقیقت کو سمجھ لیا اور اس پر عمل کیا اس نے ایمان کو اپنے قلب و سینہ میں داخل کرلیا۔ اور جس شخص نے اس حقیقت کو سمجھ لیا اور اس پر عمل کیا اس نے ایمان کو اپنے قلب و سینہ میں داخل کرلیا۔ اور جو اس حقیقت ست روگردان رہا وہ ایمان کی دولت سے یکسر محروم رہا۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

“لاتجد قوما یؤمنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاداللہ ورسولہ ولوکان اٰباءھم او ابناءھم اوخوانھم او عشیتھم۔“

تو کسی قوم کو نہ پائے گا جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو۔ (اور پھر وہ) اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرے، اور اس کے رسول کے دشمن ان کے ماں، باپ، اولاد، بہن بھائی اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔

معلوم ہوا کہ ایماندار کبھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن کو دوست نہیں بنا سکتا۔

اللہ و رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن سے بغض رکھنا فرض اور ایمان کے لئے شرط ہے۔ اور ان کے دوست سے محبت کرنا ضروری ہے۔ حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں:

“لایطعم احدکم طعم الایمان حتی یحب فی اللہ ویبغض فی اللہ، الکافی الشاف فی تخرج احادیث الکشاف ملحق بتفسیر الکشاف۔“ (جلد4 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت)

تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان کا ذائقہ بھی نہیں پاسکتا جب تک اللہ کے دوست کو دوست اور اس کے دشمن کو دشمنہ نہ رکھے۔ (مطلب خیز ترجمہ)

یاد رہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن ہی اللہ تعالٰی کا دشمن ہے، نجدی، خارجی، وہابی، دیوبندی، رافضی، اہلحدیث اور غیق مقلدین تمام کے تمام تقریباً اللہ جل جلالہ، رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دشمن ہیں۔

پروفیسر طاہرالقادری ان سب کو اپنی بغل میں لئے بیٹھا ہے، میں پوچھتا ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول کو کیا منہ دکھائے گا ؟

اللہ تعالٰی قاری محبوب رضاخان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دعاء قبول کرتے ہوئے اسے ہدایت عطا فرمائے۔ آمین

علامہ مفتی قاری محبوب رضا خان صاحب (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)

آپ سے تمام مسالک کے افراد یکساں محبت و عقیدت رکھتے تھے آپ نے تبلیغ دین کا سلسلہ اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جاری کیا۔

محمد حنیف اللہ والا

کائنات کا نظام خداوندقدوس چلاتا ہے۔ دنیا میں اس نے انبیاء علیہم السلام اور پیغمبر اس لئے بھیجے کہ دنیا بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ دکھائیں ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اس سلسلہ کے آخری نبی مکرم ہیں اور آپ نے اس دنیا کو جو دین دیا اس کا نام اسلام ہے اور یہی وہ دین ہے۔ جس میں داخل ہونے والے فرد کے لئے ہر اعتبار سے امن و سلامتی ہے اور یہی وہ دین حق ہے کہ جس پر عمل پیرا ہونے والے افراد کے لئے اللہ تعالٰی نے آخرت میں اجر عظیم عطا فرمانے کی وعید سنائی ہے۔ دین اسلام کی ترقی اور ترویج میں بزرگان دین اور صوفیاءکرام کا بڑا حصہ رہا ہے۔ بلکہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی شمع روشن کرنے والوں میں بڑی تعداد ان ہی صوفیاء کرام کا بڑا حصہ رہا ہے۔

بلکہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی شمع روشن کرنے والوں میں بڑی تعداد ان صوفیاء کرام کی ہے جن کے بابرکت قدم اس سرزمین پر آئے تو بے نور دلوں میں نور ایمانی موجزن ہوگیا ایسی ہی روحانی شخصیتوں میں حضرت علامہ مفتی محبوب رضاخان بھی شامل ہیں۔

گزشتہ دنوں 9دسمبر 91ء کو جب آپ کی رحلت کی خبر آئی تو عالم اسلام میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت مفتی محبوب رضا خان سچے عاشق رسول تھے۔ خانوادہ امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے آپ ممتاز اور روشن ستارے تھے اور یقیناً ان کے افکار کی روشنی سے علمائے اہلسنت کے دل اور احساسات ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ حضرت 16 نومبر 1916ء کو بریلی شریف میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم بھی یہیں حاصل کی اور ھب 13 برس کے ہوئے تو آپ نے قرآن کریم ختم کر لیا تھا اس کے بعد دین اور دنیاوی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور آپ منزلیں طے کرتے ہوئے 1939ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہونے جہاں سے آپ نے 1944ء میں ڈگری حاصل کی۔ حضرت مفتی قاری محبوب رضا خان نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو وہ وقت قیام پاکستان کی تحریک کے جوش و خروش کا زمانہ تھا آپ نے بھی قیام سلطنت اسلامیہ کے لئے مسلم لیک میں شمولیت اختیار کی اور اس جدوجہد میں حصہ لیا اور یہ دین سے مخلص مسلمان ہند اور علماء اہلسنت کی کوششوں کا ثمر تھا کہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کو ممکن کر دکھایا۔

قیام پاکستان کے بعد حضرت مفتی محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہجرت کرکے 18 مئی 1948ء کو لاہور تشریف لائے اور یہاں رزق حلال کے حصول کے لئے ایک شفاخانہ قائم کیا جہاں سے مریض اپنی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے شفایاب ہو کر جاتے اور آپ کے پروانے بن جاتے۔

لاہور کے بعد حضرت نے عارف والا کا قصد کیا وہاں بھی ایک مطب قائم کیا اور تقریباً دس برس تک یہاں لوگوں کی روحانی رہنماہی کی اور ایک صادق طبیب کی حیثیت سے نام کمایا۔

بعد میں آپ نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی خدمت کا ارادہ کیا اور 1959ء میں یہاں آ کر مدرسہ حنفیہ رضویہ کی داغ بیل ڈالی۔

حضرت قاری محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مدرسے کے بے شمار طلبی اور طالبات حق نے فیض پایا اور آج بھی یہ دین حنفیہ اہلسنت و الجماعت اور عشق رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو عام کرنے کا کام بخوبی انجام دے رہا ہے۔

حضرت مفتی محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام ایسا ہی تھا کہ مدرسہ حنفیہ رضویہ میں نہ صرف بڑے بڑے علماء نے دین حق کی تعلیمات کے لئے کام کا آغاز کیا بلکہ خود حضرت نے بھی یہاں اپنے مبلغ علم کو مذید علوم دنیوی سے آراستہ کرنے کے لئے تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھا یہی وجہ ہے کہ آپ محترم اساتذہ میں جن سے آپ نے حدیث تفسیر معقولات وغیرہ کی تعلیمات حاصل کیں، حضرت قراءت میں، حضرت قاری عبدالرحمٰن مکی صدرالشریعہ، قاری ضیاءالدین، قاری سید مظہر نقوی امروہوی اور فارسی میں آپ کے استاد ہی رہے جو شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی مرحوم کے استاد مولانا قدرت علی بیگ، حضرت مفتی محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ عربی، فارسی، اردو، ہندی زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے اور کئی معروف کتب کی تدوین اور ترتیب میں بھی آپ کا بڑا حصہ ہے۔

دینی خدمات کی انجام دیہی کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تبلیغ دین اور حصول روزگار کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا اور 1965ء میں آپ نے پہلا حج کیا اور قیام مدینہ منورہ کے دوران قطب مدینہ مولانا ضیاءالدین مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔

1968ء میں ہی آپ کو مفتی اعظم ہند حضرت محمد مصطفٰی رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی جانب سے سلسلہ قادری رضویہ کی خلافت عطا ہوئی اور آپ نے لوگوں کے دامن قادر، رضوی کے تحت جمع کرنے اور ان کی رہنمائی کا باضابطہ فریضہ انجام دینا شروع کردیا۔ حضرت قاری محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تبلیغ کے لئے ملائیشیا، سری لنکا اور کئی افریقی ممالک بھی تشریف لے گئے اور آپ کے ہاتھوں متعدد غیرملکی اور غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کیا۔

کراچی میں قائم اہلسنت والجماعت کی معورف دینی درسگاہ دارالعلوم امجدیہ ہے حضرت مفتی محبوب رضاخان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے یہاں واقع دارالافتاء میں تقریباً 8 برس خدمات انجام دیں اور طالبان حق کی رہنمائی کی۔ اسی ادارے نے عقش رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اور امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز کی تعلیمات کو جس احسن طریقے پر عام کیا وہ قابل ستائش ہے۔

حضرت مفتی محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے دینی مدارس کے ذریعے دین کی خدمات کے علاوہ کراچی کی ایک معروف اہلسنت و الجماعت کی مسجد، مصلح الدین میمن مسجد میں 1960ء سے تقریباً دس برس تک خدمات انجام دیں۔ جہاں انہوں نے امامت اور خطابت کے فرائض انجام دئیے اور درس و تدریس کے بھی۔ الغرض مفتی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تمام خوبیوں اور خدمات کا احاطہ تو بہت دشوار ہے تاہم وہ ایک ایسی دینی شخصیت تھے جن سے تمام مسالک کے افراد یکساں محبت و عقیدت کرتے تھے، حضرت مفتی محبوب رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دل کی تکلفی میں ادارہ امراض قلب میں داخل کئے گئے جہاں زیر علاج رہنے کے دوران ہی وہ 9 دسمبر 1991ء بروز پیر صبح سات بجے دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ حق تعالٰی ان کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ آمین


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام پروفیسر طاہرالقادری کے بارے میں جو کہتے ہیں کہ:

(1) عورت کی دیت مرد کے برابر ہے اور اجماع صحابہ و اجماع ائمہ اربعہ کا انکار کرتے ہیں۔

(2) شیعہ اور دیوبندی فرقے کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا صرف پسند ہی فرماتے ہیں بلکہ جب موقعہ ملے تو پڑھتے ہیں۔

(3) کہتے ہیں میں کسی فرقہ کا نہیں ہوں۔ میں فرقہ واریت پر لعنت بھیجتا ہوں میں صرف امت محمدیہ کا نمائندہ ہوں۔

(4) کہتے ہیں بعض تاریخی روایات کے مطابق تاتاریوں کو بغداد پر حملہ کی دعوت بھی کچھ ناعاقبت اندیش مسلمانوں ہی نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کی آگ بھجانے کے لئے دی تھی۔

(5) روزنامہ جنگ جمعہ میگزین 27 فروری تا 5 مارچ 1987ء ایک انٹریو میں کہتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیاں اگر تعلیمی مقصد کے لئے آپس میں ملیں تو ٹھیک ہے۔

(6) روزنامہ جنگ 19 مئی 1987ء کے ایک مضمون میں جو ان کا شائع کردہ ہے کہتے ہیں کہ تمام صحابہ بھی اکھٹے ہو جائیں تو علم میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا کوئی ثانی نہیں۔

کیا ایسا شخص اہلسنت و جماعت اور قاری کہلانے کا مستحق ہے۔ بینواتو جروا۔

ڈاکٹر معین الدین سیکرٹری، بزم نوری رضوی کراچی، حاجی عارف ممبر بزم قامی برکاتی کراچی، عبدالغفار صدر بزم تقدس رضوی، محمد اسلم قاری صدر انجمن فیض رضا پیر الٰہی بخش کالونی، عبدالکریم نیازی جزل اسٹور انجمن فیض رضا پیر کالونی کراچی۔ غلام یٰسین قادری سیکرٹری مالیات انجمن فیض رضا پیر کالونی، محمد اسمٰعیل طاہرالمالی جوائنٹ سیکرٹری، انجمن فیض رضا پیرکالونی۔ نور محمد غفرلہ ممبر انجمن فیض رضا، محمد یٰسین ممبر انجمن فیض رضا۔ عبدالستار فیصل آباد، لئیق احمد نوری صدر انجمن رضائے مصطفٰی لانڈھی کراچی۔ ابرار احمد خان گلبرک۔ ابراہیم علی صدیقی بریلوی، عبدالسبحان قادری صدر انجمن جامعہ شیریہ لانڈھی۔ قاری رضائے المصطفٰی خطیب مسجد بولٹن مارکیٹ و مہتمم دارالعلوم نوریہ رضویہ کراچی۔ حمیدرضا خان یزدانی نبیرہء اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ اراکین بزم تقدس رضوی محمد انور قادری، زکریا حاجی قاسم، غلام محمد قاری، حاجی محمد اشرف، محمد حنیف والا، محمد ادریس، محمد یاسین قادری، کونسلز عبداللہ عبدالرزاق میمن، مجیداللہ قادری، جزل سیکرٹری ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کراچی۔


الجواب: جوالؤفق للجواب

الحمدللہ وکفٰی والصلوۃ والسلام علٰی رسولہ الکریم محمد المصطفٰی وعلٰی واصحابہ البرر التقی۔

(1) عورت کی دیت مرد سے نصف ہے یہ مسئلہ مسلمانوں میں مفتق علیہ ہے۔ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے اور یہ اجماع سکوتی ہے۔ اجماع پر عمل واجب ہوتا ہے اس پر بحث کی اجازت نہیں۔ صحیح العقیدہ سنی کے لئے اجماع سکوتی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اجماع صحابہ و اجماع ائمہ اربعہ کا منکرصال، مصل، خارجی سکوتی ہے۔ اجماع پر عمل واجب ہوتا ہے اس پر بحث کی اجازت نہیں۔ صحیح العقیدہ سنی کے لئے اجماع سکوتی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اجماع صحابہ ائمہ اربعہ کا منکرصال، مصل، خارجی یا معتزل ہو سکتا ہے۔ صحیح العقیدہ سنی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پروفیسر صاحب نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے سیت عورت مرد کی دیت کے برابر ہونے کا اعادہ کیا اور حدیث پاک کو ضعیف کہنے کہ جسارت کی ہے۔

غور کا مقام ہے کہ اجماع صحابہ اور اجماع ائمہ اربعہ کے موافق جو حدیث ہو وہ ضعیف کیسے ہو سکتی ہے ضعیف وای کی صفت ہے اور صحابی، تابعی، تبع تابعی میں ضعیف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تبع تابعی کے بعد راویوں میں کسی راوی میں ضعف ہو سکتا ہے مگر اجماع صحابہ کو جو حدیث ثابت کر رہی ہے اس میں ضعف کہاں سے آگیا اس حدیث کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل اجماع صحابہ ہے اور اجماع ائمہ اربعہ ہے جو شخص اجماع صحابہ اور اجماع ائمہ اربعہ اہلسنت و جماعت کے خلاف کرے کہ جس پر عمل کرنا واجب ہے وہ قطعاً یقیناً اہلسنت سے خارج گمراہ صال، مضل، متبع خوارج یا معتزلی ہے سنی قادری ہرگز نہیں ہے چاہے اپنے منہ سے ہزار بار کہے کہ میں سنی قادری ہوں “بحکم حدیث “من شد شد فی النار“ کا مستحق ہے ترمذی شریف کی حدیث “علیکم بالجماعتہ“۔ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔“ (جلد 2 صفحہ 35)

ابن ماجہ شریف کی حدیث ہے:

“ان امتی لا تجمع علی ضلالتہ فاذا رائیتم اختلافا فعنیکم والسواد الاعظم۔“ (ابن ماجہ صفحہ 292 ابواب الفتن باب السود الاعظم)

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:

“فعلیکم بالجمعتہ فان اللہ لاتجمع امتی علی ھدی۔“

تم جماعت کو لازم پکڑو اس لئے کہ اللہ تعالٰی میری امت کو ہدایت کے سوا کسی گمراہی پر جمع نہیں ہونے دے گا۔ مگر پروفیسر صاحب شوق اجتہاد سے بدمست ہوکر حدیثوں کے ان تمام احکامات کا دانستہ ٹھکرا کر اجماع صحابہ و اجماع اربعہ کو نظر انداز کرکے عورت کی دیت مرد کے برابر ہونے کا فتوٰی دے رہے ہیں۔ خدا ہدایت دے۔


(2) شیعہ اور دیوبندی عقیدے کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ چونکہ وہ لوگ کفریہ اعتقادات رکھتے ہیں۔

بعض شیعہ فرقوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن پاک جبریل علیہ السلام کی غلطی سے حضرت محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پر اترا گیا۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر اتارنے کا حکم دیا تھا۔ بعض علی کو خدا مانتے ہیں۔ خلفاء ثلاثہ و امہات المؤمنین سوا حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرٰی کرتے ہیں اور ان کی تکفیر کرتے ہیں۔ قرآن کو محرف مانتے ہیں پروفیسر صاحب ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا پسند فرماتے ہیں پڑھتے بھی ہیں اور دوسروں کو پڑھنے کی تلقین بھی فرماتے ہیں حالانکہ غوث پاک رضی اللہ تعالٰی علیہ نے غنیۃ الطالبین میں تمام بدمذہبوں اور رافضیوں سے اجتناب کا حکم صادر فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو میرے صحابہ کی تنقیص کرے گا اور ان کی شان میں کمی کرے گا خبردار ان کے ساتھ نہ کھانا نہ کھاؤ، خبردار ان کے ساتھ نہ پانی پیو، خبردار ان کے ساتھ رشتہ داری نہ کرو، خبردار ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو خبردار ان کی نماز جنازہ نہ پڑھو ان پر لعنت پڑ چکی ہے۔ ( غنیۃ الطالبین صفحہ 288 )

حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کا فتوٰی نقل فرمایا ہے کہ بدمذہب کو نہ سلام کرو اس لئے کہ سلام کرنا اس کو دوست بناتا ہے۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا آپس میں سلام کرو دوست ہو جاؤ گے۔ بدمذہبوں کے پاس نہ بیٹھے ان کے نزدیک نہ جائے خوشی اور عیدین کے موقع پر ان کو مبارکباد نہ دے مر جائیں تو ان کی نماز جنازہ نہ پڑھے ان کا ذکر آئے تو ان کے لئے دعائے رحمت نہ کرے بلکہ ان سے جدا رہے اس اعتقاد کے ساتھ کہ ان کا مذہب باطل ہے۔ وہ لوگ بد عقیدہ ہیں اس جدائی میں اجر کثیر کی امید ہے۔ الحب فی اللہ والبغض فی اللہ۔ فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ بدمذہبوں سے محبت رکھنے والے کے اعمال حبط ہو جائیں گے اور ایمان کی روشنی اس کے دل سے نکل جائے گی۔ جب اللہ تعالٰی کسی بندے کو جانے کہ وہ بدمذہب سے عداوت رکھتا ہے تو مجھ کو امید ہے کہ اللہ تعالٰی اس کے گناہ معاف فرما دے گا اگرچہ اس کے اعمال تھوڑے ہوں۔ جب کسی بدمذہب کو راہ میں آتا دیکھو تو دوسری راہ اختیار کرو۔

دیوبندی عقائد کے کفریہ ہونے میں کسی صحیح العقیدہ سنی کو کوئی شک نہیں۔ علماء حرمین طیبین نے ان کو تکفیر فرمائی اور صرف ان کی تکفیر نہیں فرمائی بلکہ فرمایا جو ان کے کفرو عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اس لئے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان و ملک و موت سے کم علم ہے اور شیطان و ملک و الموت کو حضور سے زیادہ علم ہے۔

انہون نے علم غیب رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو زید و عمر بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے علم سے تشبیہہ دی ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خاتم النبیین کے معنی افضل النبیین ہیں لٰہذا اگر حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یا آپ کے بعد کے زمانہ میں بالفرض کوئی نبی کہیں پیدا ہو جائے تو آپ کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

قادیانی بھی یہی کہتے ہیں۔

ان کا عقیدہ ہے کہ ہر مخلوق چھوٹا ہو یا بڑا اللہ کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل ہے۔

پروفیسر صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا صحیح ہے بلکہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکنا گناہ ہے خود پڑھنا پسند بھی فرماتے ہیں اور موقع ملے تو پڑھتے بھی ہیں ایسا کرکے وہ خود تو گمراہ ہیں ہی دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور نئے فرقہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ تمام فرقوں سے اپنی براءت کا اقرار اور فرقہ واریت پر لعنت بھیجنا اور اس کے بعد امت محمدیہ کے نمائندہ ہونے کا دعوٰی کرنا خلاف عقل ایک انوکھی اور نرالی منطق ہے۔

بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

مسلم شریف اور ابوداؤد کی حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عیسائیوں نے بہتر (72) بنالئے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی (72) فرقے ناری ہوں گے اور صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا اور وہ جماعت جو میری سنت پر اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل کرے گی۔ یہودیوں نے بہتر فرقے بنالئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر فرقے ناری ہوں گے اور ایک فرقہ ناجی ہوگا۔ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کی شرح میں ناجی فرقے سے مراد اہلسنت و الجماعت لئے ہیں۔ حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے امت میں تہتر فرقے ہونے کی خبر دی ہے۔ اور پروفیسر صاحب سب فرقوں سے اپنی براءت کا اقرار کرکے امت سے خارج ہونے کا ادعاء فرما رہے ہیں۔ اور اس کے باوجود نمائندگی امت کا دعوٰی بھی فرما رہے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ سب فرقوں پر لعنت بھیج کر اہلسنت و الجماعت پر بھی لعنت بھیج گئے کسی فرقے کو نہیں بخشا اب جو نیا فرقا بنا رہے ہیں وہ بھی تو آپ کی خانہ سازلعنتی کلاشنکوف کی زد میں آگیا اور آنا ہی چاہئیے اس لئے کہ غیر مستحق پر لعنت بھیجنے والا خود لعنتی ہو جاتا ہے اور جس فرقہ کو رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے ناجی فرمایا وہ حضور غوث پاک اور مجدد الفر ثانی امام ربانی شیخ احمد سرہندی رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک یقیناً قطعاً اہلسنت و جماعت ہیں اور ان کے علاوہ نئے پرانے بشمول فرقہ پروفیسر بحکم حدیث ناری ہوئے۔

چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی


(3) پروفیسر صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام “فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے“ اسی کتاب میں سے مذکورہ فی السوال اکثر عبارتیں نقل کی گئی ہیں۔ ہر مبتدی مدرسہ عربیہ خوب جانتا ہے کہ پرستیدن (پوجنا) فارسی مصدر ہے اور فرقہ پرست پرستیدن سے اسم فاعل سماعی ہوا جس کے معنی ہوئے فرقہ پرستش کرنے والا۔ فرقہ کا پجاری۔ جیسے بت پرست کا پوجنے والا، آتش پرست آتش کا پجاری اور ظاہر ہے فرقہ غیراللہ کو کہتے ہیں اور غیراللہ کو پوجنے والا بلاختلاف مزرک ہوا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں مشرک کی بخشش نہیں کروں گا۔ بیشک شرک ظلم عظیم ہے۔ جیسا کہ حضور غوث اعظم اور مجدد الف ثانی نے شرح حدیث پاک میں فرمایا ہے۔ پروفیسر مذکور دی السوال ان کو فرقہ پرست کہہ کر مشرک ہونے کا الزام لگا رہے ہیں وہ اہلسنت و جماعت کو مسلمان نہیں جانتے بلکہ فرقہ پرست کہہ رہے ہیں اگر اہل سنت کو مسلمان جانتے تو فرقہ پرست نہ کہتے بلکہ فرقہ پرور کہہ سکتے تھے۔ فرقہ پرستی کا خاتمہ کہہ کر فرقہ واریت کی ایک فیکڑی کھول دی۔ منہاج القرآن کا ادارہ قائم کرکے تمام فرقوں کو فرقہ پرست کہنا اور اپنے کو ان فرقوں سے خارج کرکے ایک نئے فرقہ کا اضافہ کرنا۔ امت محمدیہ کا نمائندہ ہونے کا دعوٰی کرنا جب کہ امت کے فرقوں نے ان کو نمائندہ نہیں بنایا بلکہ خود بخود نمائندگی کا ادعاء فرما رہے ہیں “بریں عقل و دانش بباید گریست۔“


(4) تاریخی حوالہ سے فرما رہے ہیں کہ تاتاریوں کو بغداد پر حملے کی دعوت ناعاقبت اندیش مسلمانوں ہی نے اپنی فرقہ وارانہ عصیبت کی آگ بجھانے کے لئے دی تھی۔ اور پروفیسر صاحب نے جب یہ عبارت لکھنے کے لئے تاریخ کے اوراق کی گردان کی ہوگی تو یہ پڑھا ہوگا کہ حملے کی دعوت مستعصم باللہ کے وزیراعظم ابن علقمی نے دی تھی اور یہ بھی پڑھا ہوگا وہ شیعہ تھا اور اس کو مسلمان کہہ رہے ہیں یعنی واضح الفاظ میں ایک شیعہ مذہب والے ابن علقمی کو مسلمان تسلیم کر رہے ہیں۔ جن کو اہلسنت و جماعت خارج از اسلام کہتے ہیں اور جن کے لئے کتب فقہ اہلسنت و جماعت میں فقہاء کرام نے “من شک فی کفرہ وعذابہ بہ فقد کفر“ کے الفاظ تحریر فرمائے ہیں۔ یعنی جو ایسے عقیدہ رکھنے والوں میں کسی کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ خارج از اسلام ہے۔ پروفیسر خود فیصلہ فرمائیں کہ یہ عبارات ان کی ان کے لئے ریچھ اور کمبل کی مثال بن گئی ہیں۔ اللہ ان کو اس سے چھٹکارا عطا فرمائے اور توبہ کی توفیق دے۔


(5) کوئی ایجوکیشن ہو یا کوئی اور مقصد دینی غیر محرموں کے ساتھ ملنا شرعاً ناجائز ، غیر محرموں سے پردہ کرنا لازم ہے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی یہی تعلیم ہے۔


(6) یہ کہنا کہ تمام صحابہ کرام بھی اگر اکھٹے ہو جائیں تو علم میں حضرت علم کرم اللہ وجہہ الکریم کا کوئی ثانی نہیں ہے یہ سراسر ان کا تحکم اور مسلک حقہ اہلسنت و جماعت سے خروج اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے اختلاف و انحراف ہے حضرت مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق ان کے جنازہ پر فرمایا کہ “ھو اعلمنا ھو سیدنا“ یعنی ابوبکر ہم سب صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے زیادہ علم والے اور ہمارے سردار تھے۔

پروفیسر صاحب کا فرمان بےسروپا ہذیان بلکہ تلبیس شیطان قابل الرد عند اھل الایمان۔ حضور سیدعالم ماکان و مایکون صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ماصباللہ فی صدری شیئا الاحببتہ فی صدر ابی بکر۔“

یعنی اللہ تعالٰی نے جو کچھ میرے سینہ میں ڈالا میں نے ابو بکر کے سینہ میں ڈال دیا۔

صدقی اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مرتبہ علمی پر یہ حدیث پاک شاہد عادل۔

پروفیسر صاحب کی تحریر و تقریر کو کھونٹا جس کے گردان کی تمام سعی و کوشش بے نتھا بچھڑا اپنی پونچ اٹھا کر گھوم رہا ہے صرف اور صرف یہ ہے کہ دیوبندیوں، وہابیوں، رافضیوں، غیر مقلدوں اور اہلسنت و جماعت کو اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے آپس میں محبت و مودت رحمت و رافت باہمی دوستی رفاقت کے مضبوط رشتے سے استوا کرنا چاہئیے۔

زور خطابت و طلاقت لسانی کا وقتی طلسم جب ٹوٹتا ہے تو ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بعد ہر پڑھا لکھا سامع یا قاری اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ساری تقریر و تحریر کا لب لبالب اور نچوڑیہ نکلتا ہے کہ تمام فرقے اپنے اپنے عقائد پر سب ٹھیک ہیں جس کا جی چاہئیے جس فرقے کا عقیدہ اپنائے کسی کو کسی فرقہ پر تنقید و تبصرے کا حق نہیں ہے کہ اس سے ایک دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے لٰہذا مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہابی کو آئندہ وہانی نہ کہیں رافضی کو رافضی نہ کہیں چکڑالوی کو چکڑالوی نہ کہیں اہلسنت کو اہلسنت نہ کہیں بلکہ سب کو مجموع من حیث المجموع مسلمان کہیں کوئی کسی کو آئندہ رد نہ کرے صرف اتنی اجازت دے رہے ہیں کہ اگر ایک دوسرے کے درمیان امتیازنا گریز ہو جائے تو بڑے میٹھے الفاظ جو ہر ایک کو قابل قبول ہوں تحریراً و تقریراً خطاب کرے اور حکم قرآنی “واغلظ علیھم والیجدو افیکم غلظتہ“ اور “اشد علی الکفار“ کو مصلحتاً نظر انداز کردے تاکہ سب فرقوں و انتشار تشت و تفرق کے بجائے محبت و مودت رحمت و رافت کے دیا بہنے لگیں۔

قرآن کا حکم ہے کہ “فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین۔“

ظالموں کے ساتھ مت بیٹھ جان بوجھ کر۔

مگر پروفیسر کہہ رہے ہیں کہ بدمذہبوں کے ساتھ خلا ملا کیا جائے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھی جائیں تاکہ بھائی متی کا کنبہ پروفیسر صاحب کے ساتھ ہو اور اس دریا منفعت بخش موجوں پر ان کے ایجاد کردہ فرقہ پروفیسر یہ کی نیا بلاخوف و خطر تیرا کرے جس پر ان کے نام کا جھنڈا لگا ہو اور مذہبی پابندیوں سے آزادی پسند منڈلی والے ان میں بیٹھ کر سیرو تفریح کیا کریں۔

“یریدون ان یبدلوا کلم اللہ“ وہ چاہتے ہیں اللہ کا کلام بدل دیں۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ ہوئے کس درجہ یہ ملائے وطن بے توفیق۔

مذہب کا نام لیکر خود کو مذہب کا مصلح کہہ کر مذہب میں رخنہ اندازی کرنے کی لاحاصل سعی کر رہے ہیں ہر مسلمان کو اللہ تعالٰی ان کے شر سے محفوظ و مامون رکھے۔

حدیث و قرآن کی آیتوں کے غلط معانی بتا بتا کر

شکم کی خاطر یہ زر کے بندے بنائے ملت مٹا رہے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

حررہ فقیر محبوب رضا خان القادری البریلوی

سابق مفتی دارالعلوم امجدیہ کراچی۔


الجواب منہ الھدایۃ والرشاد

حضرت علامہ مولانا قاری محبوب رضا خان صاحب مدظلہ مفتی اہل سنت سابق مفتی دارالعلوم امجدیہ کا تفصیلی جواب بغور پڑھا اور علامہ موصوف نے جو کچھ طاہرالقادری کے بارے میں تحریر فرمایا ہے فقیر اس کی پرزور تائید کرتا ہے اور یہ ایک نیا فتنہ ملت اسلامیہ میں پیدا کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سعی ناپاک ہے مولٰی عزوجل اپنے حبیب پاک صاحب لولاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ جلیلہ سے امت مسلمہ کو گمراہی سے محفوظ رکھے اور مذہب حق مذہب اہلسنت و جماعت پر قائم رکھے۔ آمین

فقیرابوالخیر محمد حسین قادری رضوی مصطفوی غفرلہ

خادم جامعہ مسجد غوثیہ رضویہ سکھر (نزیل کراچی)

11 رمضان المبارک 1478ھ


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام پروفیسر محمد طاہر القادری صاحب کے درج ذیل حوالہ جات کے متعلق جو عوام اہلسنت و جماعت کے درمیان باعث انتشار بن رہی ہے۔


(1) “بحمدللہ مسلمانوں کے تمام مسالک اور مکاتب فکر میں عقائد کے بارے میں کوئی بنیادی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ فروعی اختلافات صرف جزئیات اور تفصیلات کی حد تک ہیں جن کی نوعیت تعبیری اور تشریحی ہے اس لئے تبلیغی امور میں بنیادی عقائد کے دائرہ کو چھور کر محض فروعات و جزئیات میں الجھ جانا اور ان کی بنیاد پر دوسرے مسلک کو تنقید و تفسیق کا نشانہ بنانا کسی طرح دانشمندی اور قرین انصاف نہیں۔“ (کتاب فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے، صفحہ نمبر 65)


(2) “خالق کون و مکان نے جب سرور کائنات (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ دین کے معاملے میں کسی پر اپنی مرضی مسلط کریں۔“ الخ ( کتاب مذکورہ صفحہ نمبر 86 )


(3) “میں شیعہ اور وہابی علماء کے پیچھے نماز پڑھنا صرف پسند ہی نہیں کرتا بلکہ جب موقعہ ملے ان کے پیچھے پڑھتا ہوں۔“ (رسالہ دید شنید لاہور 4 تا 19 اپریل 1986ء بحوالہ رضائے مصطفٰے گوجرنوالہ ماہ ذیقعدہ 1407ھ)


(4) میں فرقہ واریت پر لعنت بھیجتا ہوں میں کسی فرقہ کا نمائندہ نہیں بلکہ حضور کی امت کا نمائندہ ہوں۔“ (رسالہ دید شنید لاھور 4تا19 اپریل 1786ء بحوالہ رضائے مصطفٰے گوجرنوالہ)


(5) “نماز میں ہاتھ چھوڑنا یا باندھنا اسلام کے واجبات میں سے نہیں اہم چیز قیام ہے میں قیام میں اقتدا کر رہا ہوں (امام چاہے کوئی بھی ہو) امام جب قیام کرے سجود کرے قعود کرے سلام کرے تق مقتدی بھی وہی کچھ کرے یہاں یہ ضروری نہیں کہ امام نے ہاتھ چھوڑ رکھے ہیں اور مقتدی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے یا ہاتھ چھوڑ کر۔“ (نوائےو قت میگزین 19 ستمبر 1986ء ملخصاً بحوالہ رضائے المصطفٰے گوجرنوالہ)

کیا یہ عبارتیں مسلک حق اہلسنت و جماعت کے خلاف ہیں ؟ اور پروفیسر محمد طاہرالقادری صاحب کے متعلق کیا حکم ہے۔ بینوا توجروا

شفیع محمد قادری

قادریہ منزل 3/3 iij ناظم آباد کراچی نمبر 18


الجواب ھندالھدایتہ والجواب:

پروفیسر محمد طاہرالقادری کی بعض عبارات کو اس کی اپنی کتابوں اور رسالوں میں ہیں۔ مثلاً “فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے“ اور اس کے رسالہ “دی شنید“ لاہور میں چھپے ہوئے پروفیسر صاحب کے انٹریو جن کا استفتاء میں بحوالہ ماہنامہ رضائے مصطفٰے گوجرنوالہ ذکر ہے، اور یہ تمام اصلی عبارات بھی ہمارے پاس موجود ہیں وہ عبارات مسلک حق اہلسنت و جماعت کے بالکل خلاف ہیں۔ اسی طرح عورت کی دیت کے سلسلے میں بھی طاہرالقادری نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اجماع کو ٹھکرا کر مخالفین اجماع صحابہ ابن علیہ اور ابوبکراصم معتزلیوں بے دینوں کی پیروی اختیار کرلی جو سرار گمراہی ہے چنانچہ علامہ کاظمی صاحب علیہ الرحمہ نے طاہرالقادری کے رد میں لکھی گئی کتاب “اسلام میں عورت کی دیت“ کے اندر واضح فرمایا نیز اس دیت کے مسئلہ کے بارے میں ایک مذاکرہ کے دوران جب راقم نے پروفیسرصاحب کو ائمہ اہلسنت و فقہاء دین و ملت اور بالخصوص ائمہ رابعہ کے حوالہ جات پیش کئے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ تو پروفیسر صاحب نے یہ کہہ کر یہ فقہا و ائمہ اہلسنت میرے فریق ہیں۔ ان کا کوئی حوالہ میں بطور سند تسلیم نہیں کرتا۔ اس طرح پروفیسر طاہرالقادری ائمہ اہلسنت کی پیروی سے انحراف کرکے بہ مطابق ارشاد رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کہ جماعت اور سودا اعظم کے ساتھ رہو۔ جو جماعت سے الگ ہوا وہ دوزخ میں تنہا گیا “دوزخ پر چل پڑے۔“ (معاذاللہ عزوجل)

یہ مذاکرہ والی کیسٹ جس میں انہوں نے ائمہ اہلسنت و فقہاء دین و ملت کو فریق کہا اور ان حوالوں کو سند تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

ہمارے ہاں جامعہ نعیمیہ، جامعہ نظامیہ لاہور اور دیگر کئی ایک حضرات کے ہاں موجود ہے۔ بلاشبہ پروفیسر صاحب کے خیالات مسلک اہلسنت و جماعت کے قطعاً و یقیناً خلاف ہیں۔ یہ اہلسنت اور دوسرے فرقوں کے درمیان موجود اختلافات کو فروعی قرار دیتے ہیں جبکہ اہلسنت و جماعت کا دوسرے فرقوں کے ساتھ اختلاف بہت سے مسائل میں بنیادی و اصولی ہیں۔ چنانچہ امام اہلسنت اعلٰیحضرت بریلوی علیہ الرحمۃ نے الفضل الموہبی اور حسام الحرمین وغیرہما میں واضح فرمادیا۔ جن میں سے ایک تعظیم رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا مسئلہ ہے اور گستاخی رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) بلاشبہ کفر ہے، اس کا مرتکب اسلام سے خارج ہے۔ کماھو مصرح فی حسام الحرمین الشریفین وکما ھو مذکور فی الشفاء وغیرہ من کتب اھل السنتہ “من شک فی کفرہ وعذابہ فقو کفر۔“

اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔

لیکن طاہرالقادری صاحب اسے بھی فروعی مسئلہ قرار دیتے ہیں، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم

الغرض طاہرالقادری اپنی ان عبارات و بیانات کی بناء پر جو مختلف کتب و رسائل اور کیسیٹوں میں بھرے ہوئے، قطعاً و یقیناً اہلسنت و جماعت سے خارج اور بے دین و ملحد ہے۔ اس کی ان عبارات و بیانات سے باخبر ہوکر، اسے صحیح العقیدہ سنی سمجھنے والا بھی مسلک اہلسنت سے خارج ہے۔ جب تک یہ شخص اپنی عبارتوں اور بیانات سے علانیہ توبہ نہ کرے اس وقت تک اس سے قطع تعلق کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے نیز اس کا حضرت سید طاہر علاؤالدین گیلانی مدظلہ العالی کا مرید ہونا اور قادری کہلانا محض فریب ہے اور عوام اہلسنت کو دھوکا اور پیرصاحب کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے اور اس کے عشق رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے دعوے اور شب بیداریاں اور شیخ و پکار پر مشتمل دعائیں، خالص ریاکارانہ اور مکروفریب کے سوا کچھ نہیں۔

راقم نے جو کچھ عرض کیا ہے محض اللہ تعالٰی کی رضاء کے لئے اور ناواقف حضرات کو راہ حق دکھانے کے لئے کیا ہے اور خود طاہرالقادری پر اللہ تعالٰی کی حجت قائم کرنے کے لئے کیا ہے۔

مکرمی۔ آپ اور سب مسلمان اس حقیقت سے باخبر رہیں کہ یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اس میں نماز و روزہ ایسی عبادات تو انسان کی اپنی ذات کے لئے ہیں لیکن “الحب للہ والبغض للہ“ کہ اللہ کے لئے محبت ہو اور اللہ کے لئے بغض ہو، ایسا عمل ہے جو خدا تعالٰی کے لئے ہے۔ اور ایسے گمراہ کے خلاف آواز اٹھانا جسے بڑے بڑے دولتمندوں، سرمایہ داروں اور اہل اقتدار و حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہو اور حکومت کے خزانے اس کے لئے کھلے ہوں اور سرمایہ داروں کی تجوریاں اس پر دولت کی بارش برسا رہی ہوں نہایت ہی صبر آزما اور اعلٰی ترین جہاد بھی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ فقط

“افضل جہاد کلمتہ حق عبد سلطان جابر“

دعاگو مفتی غلام سرور قادری

گلبرک لاہور۔

الجواب صحیح الفقیر محمد معین الدین القادری الشافعی غفرلہ

مہتمم جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد

محمد مختار احمد مفتی دارالعلوم جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد

استفتاء میں مذکور عبارت انتہائی عیاری پر مبنی ہیں اور قائل گمراہ طرز کی فکر کا مالک ہے اور جواب صحیح و درست لکھا گیا، فقیر اقبال مصطفوی، مدرس جامعہ قادریہ فیصل آباد

محمد عبدالحکیم اشرف قادری جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور


الجواب صحیح والمجیب نتبع

مذکورہ بالا عبارات عقائد اہلسنت کے اور مسلک اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلاف ہیں جو قائل کے لئے گمراہ ہونے کا ثبوت مہیا کر رہی ہیں۔

محمد اسلم رضوی جامعہ رضویہ مظہرالسلام

شیخ الحدیث فیصل آباد

المجیب مصیب والجواب مصاب، فقیرابوالعلامہ محمد عبداللہ قادری اشرفی رضوی خادم اہلسنت دارالافتاء و ناظم دارالعلوم حنفیہ قصور

پروفیسر صاحب اپنی تدقیق و جدت پسندی کے خبط و جنون میں صلح کلیت کے لئے کام کر رہے ہیں جو ہزار ہاضلالتوں گمراہوں کا مجموعہ ہے ان کے متذکرہ خیالات مذہب حق مذہب اہلسنت و جماعت اور مسلک سیدنا مجدد اعظم، سرکار اعلٰیحضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کی تحقیقات کے سرار خلاف ہیں فقیر قادری گدائے رضوی الفقیر محمد حسن علی الرضوی غفرلہ خادم اہلسنت سگ بارگاہ محدث اعظم پاکستان۔

پروفیسر صاحب اگر “حسام الحرمین“ کی تصدیق کریں تو خود ان کا یہ سارا کلام دریا برد اور انکار کریں تو دلائل عدم قبول دیں ورنہ صریح ہٹ درہمی اور ان کے لئے بھی وہی احکام جو دیوبند وغیرہم مرتدین کے لئے علماء حرمین شریفین نے ارشاد فرمائے ہیں واللہ تعالٰی اعلم (مفتی) محمد اختر رضا خان ازہری قادری بریلی شریف۔

(مولانا) حبیب رضا خان غفرلہ مرکزی دارالافتاء سوداگران بریلی شریف۔

پروفیسر صاحب کے اقوال مذکورہ دی السوال بعض حرام و گناہ اور بعض بدعت و ضلالت اور بعض کلمات کفر والعیاذ باللہ تعالٰی اور قائل مذکور بحکم شرع فاسق و فاجر، بدعتی، خاسر، مرتکب کبائر، گمراہ غادر اس قدر پر تو اعلٰی درجہ کا یقین اس کے علاوہ اس پر حکم کفر وار تداد سے بھی کوئی مانع نظر نہیں آتا۔ راستہ مسدود ہے ایک ہی راہ ہے جس کو اختیار کرکے وہ مسلمان وہ سکتے ہیں، صدق دل سے توبہ کریں اور علی الاعلان توبہ کریں اور اس کو شائع کردیں اور تجدید نکاح و تجدید بیعت کریں اور آئندہ سوچ سمجھ کر لکھا کریں۔ وما علینا الاالبلاغ واللہ تعالٰی اعلم


باصواب۔ حررہ فقیر محبوب رضا قادری رضوی مصطفوی بریلوی سابق مفتی دارالعلوم امجدیہ کراچی۔

پاکستان مرقوم 15 ربیع الاول 1408ھ مطابق 8 نومبر 1987ء یوم الاحد۔


الجواب ومنہ الھدایۃ الرشاد

فرقہ طاہریہ کے بانی پروفیسر طاہرالقادری کی جن عبارات کی بناء پر اس کے گمراہ ضال و مضل ہونے کا جو فتوٰی محترم علامہ مولانا غلام سرور صاحب نے دیا ہے فقیر اس کی تائید کرتا ہے اور تصدیق کرتا ہے کہ پروفیسر طاہرالقادری مذہب حق مذہب اہلسنت سے خارج ہے اور گمراہ بدمذہب ہے اس سے راہ مسلمین سے ہٹ کر الگ اپنا نیا مذہب بنانے کی سعی کی ہے اور اس نے دیوبندیوں، وہابیوں، شیعہ، رافضیوں اور بے دینوں کے پیچھے نماز پڑھنے اوراس جو پسند کرنے کے عمل سے اعلٰیحضرت عظیم البرکت امام اہلسنت مجدد دین و ملت، علامہ شاہ احمد رضا خان صاحب رضی اللہ تعالٰیع نہ کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔ مولٰی عزوجل اپنے حبیب لبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقہ میں مسلمانوں کو اس نئے فتنے سے محفوظ فرمائے آمین۔

فقیر ابوالخیر محمد حسین قادری رضوی مصطفوی غفرلہ

خادم جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر (نزیل کراچی)

11 رمضان المبارک 1408ھ


بخدمت حضرت مولانا تقدس خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ

السلام و علیکم! سوال ہے کہ پروفیسر طاہرالقادری نے اجماع امت کا انکار کرکے عورت کی پوری دیت کا جو دعوٰی کیا ہے علامہ سعید صاحب کاظمی مرحوم نے اس کے ردسیں پوری کتاب بعنوان “اسلام میں عورت کی دیت“ تحریر فرمائی ہے، جس میں فرمایا کہ “اجماع کے انکار کرنے والے علماء کو ضال یعنی گمراہ قرار دیا ہے۔“ (صفحہ نمبر 45)

نیز فرمایا کہ “سودا اعظم کی اتباع سے باہر جانا۔ سودااعظم خروج قرار پائے گا اور مذہب اربعہ کے اتفاق کا انکار بہت بڑی جسارت بلکہ صراط مستقیم سے انحراف ہوگا۔“ (صفحہ 48 )۔ لٰہذا آپ بھی اس مسئلہ میں شرعی حکم کی وضاحت فرما کر مشکور ہوں۔


الجواب: عبارت مندرجہ بالا حضرت علامہ کاظمی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خود “اسلام میں عورت کی دیت“ میں تحریر فرمائی اس سے میں بالکل متفق ہوں بیشک اجماع کا انکار کرنے والے کو علماء نے صال فرمایا ہے ایسے شخص پر جو اجماع کا انکار کرے تو واجب ہے۔

فقیر تقدس علی قادری زیخ الجامعہ راشدیہ پیر گوٹھ خیرپور

الحبیب واجب احترامہ مصیب فیما احباب اناالفقیر محمد رحیم ناظم جامعہ راشدیہ پیر گوٹھ۔

الجواب صحیح واللہ تعالٰی ورسولہ الاعلٰی اعلم فقیر ابوالخیر محمد حسین قادری رضوی مصطفوی غفرلہ خادم جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر

اصاب من احباب واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ حررہ الاحق محمد ابراہیم القادری رضوی غفرلہ

الجواب صحیح واللہ تعالٰی ورسولہ اعلم

فقیر محمد عارف سعیدی نائب مہتمم جامعہ انوار مصطفٰے سکھر

جواب درست ہے۔

(مفتی) محمد رفیق غفرلہ مہتمم مدرسہ انوار مصطفٰے شمس آباد سکھر

الجواب صحیح واللہ تعالٰی ورسولہ اعلم

قاری عزیز احمد ناظم اعلٰی مدرسہ عربیہ انوار القران پرانا سکھر

قتل خطا میں عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اس پر ساری امت کا اجماع ہے اور حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ، سے موقوف بھی رفع کے حکم میں ہوتی ہے۔ سنت و اجماع اور ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے خلاف محض قیاس سے علیٰحدہ موقف اختیار خرق اجماع ہے۔ اور اسلام میں ایک نئے فرقے کی بنیاد کے مترادف ہے اور انتشار کی آبپاشی کرنا ہے اللہ تعالٰی صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ من شد شد فی النار۔ اگر اسی طرح سلف کی مخالف ہوتی رہی تو بے شمار تنازعات کھڑے ہو جائیں گے۔ واللہ تعالٰی اعلم

(مولانا) غلام رسول شیخ الحدیث جامعہ رضویہ فیصل آباد

الجواب صحیح واللہ تعالٰی وسولہ اعلم

مفتی ابو سعید محمد امین دارالعلوم امینیہ رضویہ محمد پوری فیصل آباد

ذالک کذالک وانی مصدق لذلک

محمد والی النبی شیخ الحدیث جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد

سنی ہونے کے لئے ہر اجماعی مسئلہ کا ماننا ضروری ہے۔ اجماع واجب العمل ہے قابل بحث نہیں۔ الفقیر محمد احسان الحق جامعہ رضویہ فیصل آباد

اصاب من احباب اجماع امت کا انکار اور متفق علیہ مسائل میں اختلاف کرنا بلاشبہ گمراہی اور سستی شہرت حاصل کرنا ہے اللہ تعالٰی علماء کو اس شر سے محفوظ رکھے۔

فقیر محبوب رضا غفرلہ سابق مفتی دارالعلوم امجدیہ کراچی

تصدیق علماء دارالعلوم امجدیہ کراچی

(مولانا مفتی) وقارالدین مفتی دارالعلوم کراچی

مختار احمد قادری، عطاء المصطفٰے قادری، سلیم احمد اشرفی، عبداللہ محمد اسمٰعیل رضوی۔

تقدس رضویہ حضرت مولانا تقدس علی خان صاحب علیہ الرحمۃ کا جواب الجواب جس نے پروفیسر صاحب کو لاجواب کر دیا۔

جناب پروفیسر طاہرالقادری صاحب

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ ! آپ کا تفصیلی خط مجھے ایسے وقت ملا جب میں حرمین طیبین اور بغدادشریف کے لئے بابرکاب تھا وہاں سے تقریباً ایک ماہ بعد واپس آیا تو آپ کے جواب کی روشنی میں دوبارہ خط لکھنا مناسب سمجھا کیونکہ اس کے ھواب سےمتعلقین کے خدشات اور پختہ ہو رہے ہیں۔ جہاں تک تنقید کی بات ہے اگر اس میں حقیقت ہو تو اسے مان لینا چاہئیے، یہ وسیع النظر فی اور پختہ عملی کی علامت ہے، صرف اپنی ہی بات پر ہی اڑ جانے سے فرقوں نے جنم لیا ہے۔

آپ کی ذہانت اور مقبولیت کی بڑی خوشی ہوتی اگر اکابرین امت سے آپ کے خیالات نہ ٹکراتے اس خط میں ایک مقام پر گستاخ رسول کے متعلق کفرو ارتد کے فتوے دے رہے ہیں اور دوسری جگہ ان کو اعلٰی التحقیق مسلمان بھی تصور کر رہے ہیں۔!

آپ ذرا وضاحت کریں کہ آپ کے نزدیک کون لوگ گستاخ ہیں اور ان مکاتب فکر کی نشان دہی بھی کریں جو آپ کے نزدیک علی التحقیق مسلمان ہیں اور کیا مندرجہ ذیل عبارتیں گستاخی نہیں۔

مولوی اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان میں لکھا کہ: “جیسا ہر قوم کا چوہدری اور گاؤں کا زمیندار، سوان، معنوں کہ ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے یعنی انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی“ نیز لکھا کہ: “ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔“ مولوی قسم نانوتوی تحذیرالناس میں لکھتے ہی۔ “اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی میں بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا اگرچہ کہ آپ کے معاصر کسی اور زمین یا فرض کیجئے اس زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔“ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں لکھا ہے کہ “الحاصل غور کرنا چاہئیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے۔“ مولوی اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان میں لکھا “اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیس ہے۔ ایسا علم غیب تو زید و عمر بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے۔“

مولوی اسماعیل دہلوی اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتا ہے کہ “نماز میں پیر اور اس کے مانند بزرگوں کی طرف خیال لے جانا اگرچہ جناب رسالت مآب ہوں کتنے ہی درجوں اپنے بیل اور گدھے کے تصور میں ڈوب جانے سے تدبر ہے۔“ (ترجمہ فارسی)

اسی طرح قرآن پاک کو نامکمل کہنا جبرائیل امین کو غلطی کا مرتکب بتانا۔ خلیفہ اول کی خلافت کو غلط تصور کرنا۔ صحابہ کرام خصوصاً شیخین پر سب و شتم کرنا گستاخی ہے کہ نہیں ؟

آپ جس اختلاف کو فروعی اور معمولی نہیں ہو سکتی، آپ غلط فہمی پیدا کرنے والی عبارت کو اس کتب سے نکلوانے کا اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں مگر دیدوشنید کے غیر ذمہ دار صحافیوں پر آپ نے قدم اٹھایا اور ان کے متعلق کون سی قانونی چارہ جوئی کی صرف مرکز پر رسالہ فروخت نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اخبارات اور رسائل میں آپ کے انٹرویوز اور تقاریر غلط رنگ سے چھپ جائیں تو فوری طور اس کے متعلق تردیدی بیان دیا کریں اسی طرح ناکردہ گناہ اور عوام و خواص کی غلط فہمی خودبخود ختم ہو جائے گی۔

آپ نے لکھا ہے کہ آپ کا کسی فرقہ سے تعلق نہیں یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ ُبرے فرقے سے تو اللہ جل شانہ آپ کو بچائے کیا آپ کو اچھے فرقے سے بھی نفرت ہے ؟ واضح ہو کہ امت میں فرقہ بندی موجود ہے۔ ارشاد گرامی ہے کہ “وتفترقامتی علی ثلث وسبعین سلتہ فی النار الملتہ واحدۃ۔“

کسی موجودہ فرقہ کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ دن کے وقت سورج کا انکار کرنا اور جد فرقہ بندی سے امت کی تباہی اور بعض فرقوں کی تکفیر تک نوبت آئی یہ ساری دنیا میں اور ہمارے پاکستان اور ہندوستان متعارفہ فرقہ بندی ہے لیکن بعض باتیں ایسی بھی ہوئی ہیں جن میں اختلاف کا ہونا نہ افتراق امت کا سبب بنا نہ اس کی وجہ سے فساد ہوا اور نہ ہی مسلمان اس کو فرقہ بندی شمار کرتے ہیں اور یہ اختلاف، اختلاف امتی رحمۃ کا مظہر ہے۔ آپ نے بھی اپنی کتاب میں ایسی گروہ بندی کو مستحسن قرار دیا ہے اور یہ وجہ لکھی ہے۔ ایسے اختلافات کی وجہ سے زیادہ تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، سمجھئے کہ اس کی مثال شریعت میں حنفیت، شافعیت، مالکیت اور حنبلیت ہے اور طریقت میں قادریت، چشتیت، نقشبندیت اور سہروردیت ہے یہ فروعی اختلافات کہلاتے ہیں، ان کی وجہ سے نہ کہیں فساد ہوتا ہے نہ کوئی ذہن میں فرقہ بندی کا تصور ہے۔ اصل فرقہ بندی عقائد میں اختلاف ہے اور اللہ تعالٰی اور انبیاء کارم اور خصوصاً حضور پرنور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام خصوصاً خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین کی توہین و تنقیص کی وجہ سے پیدا ہوئی اور اسی نے مسلمانوں کی جمعیت کو منتشر کر دیا۔ ان میں سے ایک فرقہ شیعہ ہے جو کلام اللہ کو محفوظ و مکمل نہیں مانتا، جبرائیل امین کو غلطی کا مرتکب قرار دیتے ہیں کہ اس نے وحی پہنچانے میں غلطی کی تھی۔ خلفاء ثلاثہ خاص طور پر شیخین کو سب و شتم کرنا اور ان پر تبرا کرنا اپنا شعار بنایا ہوا ہے۔ مذید ان کے عقائد کی تفصیل ان کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

سب سے زیادہ تفریق بین المومنین اور مسلمانوں کی جمعیت کو تباہ کرنے والا دوسرا فرقہ وہابیہ ہے جو کہ بعد دیوبندیت کے نام سے مشہور ہوا۔ جس کی اطلاع پہل دی گئی اور اس کے پیدا ہونے کی جگہ بھی بیان فرما دی تھی۔“

ھناک الذلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطٰن“ چنانچہ اس فرمان کے مطابق ابن عبدالوہاب نجد میں پیدا ہوا اس نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا جس کی بنیاد توہین نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کافر و مشرک کہنے پر رکھی، اس نے جو کتاب بنام التوحید لکھی تھی اس میں کفر و شرک کی اتنی بھرمار ہے کہ آج دنیا میں شاید کوئی مسلمان اس حکم شرک و کفر سے بچا ہو، ان کے متعلق فتاوٰی رشیدیہ میں لکھا۔

“ابن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ان کے عقائد عمدہ تھے، ہندوستان میں وہابیت کے معلم اول مولوی اسماعیل دہلوی کو حج کو گئے اور وہ کتاب التوحید دہلی لے آئے، اکثر بعینہ اسکا ترجمہ کرکے اور اپنی طرف سے فائدے بڑھا کر ایک کتاب لکھی جس کا نام تقویۃ الایمان رکھا۔“ اسے دیوبندی اپنے عقائد کی اساس قرار دیتے ہیں۔ فتاوٰی رشیدیہ میں ہے کہ “تقویۃ الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے، مولوی مودودی نے اپنی کتاب “تجدید و احیاءدین“ میں مولوی اسماعیل کو مجدد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تقویت الایمان اور اس کے مصنف کی تعریف و توصیف کرنے والے سب اسی فرقے کے نامئندے ہیں، غیر مقلدین، دیوبندی اور مودودی اسی وہابیت کی مختلف شاخیں ہیں انہوں نے وہابیت کے بدنام ہونے کی وجہ سے اپنے نام بدل لئے ہیں مگر عقیدے وہی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

اسے کہتے ہیں فرقہ بندی اور یہی فرقہ بندی ہے جس نے امت مسلمہ کو گروہوں میں تقسیم کردیا ان کا اتحاد پارہ پارہ کردیا، اسی فرقہ بندی کو ہر مسلمان فرقہ بندی سمجھتا ہے اور قاب مذمت قرار دیتا ہے، آپ اپنی کتاب “فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے“ میں فرقہ بندی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔ (صفحہ 45) فرقہ پرستی کی تنگ نگاہوں میں بھٹکنے والے ناعقبت اندیش مسلمان کے لئے زوال بغداد کی تاریخ عبرتناک منظر پیش کر رہی ہے۔“ وزیراعظم کی سیاست شیعہ مسلک شیعہ کے گرد گھومتی تھی جب کہ خلیفہ کا بیٹا ابوبکر سنی عقائد کا نقیب تھا۔ دونوں فرقے باہم دست گریبان تھے۔ (صفحہ 46) پھر جو تباہی ہوگی اس میں نہ کوئی بریلوی بچ سکے گا نہ دیوبندی نہ کوئی اہلحدیث اور نہ کوئی شیعہ (صفحہ 71) اور سوچیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ایک دوسرے کو کافر، مشرک، بدعتی، گستاخ رسول لعنتی اور جہمنی کہہ رہے ہیں۔ (صفحہ 111) اسے بریلویت، دیوبندیت، اہل حدیث، شیعت ایسے تمام عنوانات سے وحشت ہونے لگتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی اسی کو ہی فرقہ بندی قرار دیتے ہیں اور حنفیت و شافعیت اور قادریت و چشتیت وغیرہ کو آپ نے بھی فرقہ بندیت میں شمار نہیں کیا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ انہی قابل مذمت فرقوں میں آپ نے بریلویت کا ذکر بھی کیا ہے آپ بریلویوں کے متعلق ایسی باتوں کی نشان دہی کر سکتے ہیں جن کی بناء پر آپ نے ان کو بھی گستاخ رسول اور بد عقیدہ فرقوں میں شمار کیا ہے۔

یہ افسوس ناک بات ہے، “واضح ہوکہ بریلویت کسی مذہب کا نام نہیں ہے جو اس سے کسی کو وحشت ہونے لگے یہ ایک مرکز روحانی و علمی کی نسبت ہے جس نے وہابیت کے فتنہ کا پردہ چاک کیا اور مقام نبی و ولی کے منکرین کا دفاع کیا۔ مقرر اور منکر کے درمیان امتیاز کی خاطر متعلقین نے اپنا تعارف مرکز علمی کی نسبت سے کروانا شروع کیا اور بریلوی کہلائے، ورنہ ان کے عقائد وہی ہیں جو سلف صالحین کے تھے اور یہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں آپ کے بقول “مسلک اہلسنت ہرگز فرقہ نہیں ہے اور امت مسلمہ کا سودا اعظم ہے“ ایسے بریلوی مسلک بھی امت ناجیہ کا سودااعظم ہے اور اسے وقتی تعارف کی ضرورت کے پیش نظر بریلوی کہا جاتا ہے۔ فقط

فقیر تقدس علی قادری رضوی بریلوی الشیخ الجامع جامعہ راشد پیر گوٹھ

ضلع خیر پور سندھ


اپنے منہ میاں مٹھو بننا

خودستائی و خودنمائی و خودبینی کی حد ہے کہ خودسرائی کی بے سری تان اڑاتے ہوئے نہایت بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ خود ساختہ من گھڑت حکایات کی نسبت رسول اکرم (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ستودہ صفات کی طرف کردی اور یہ دروغ بے فروغ لکھ مارا کہ فخر موجودات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (والد صاحب) کو طاہر کے تولد ہونے کی بشارت دی اور نام بھی خود تجویز فرمایا سرکار دو جہاں (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے خود ان کے والد گرامی کو خواب میں حکم دیا کہ طاہر کو ہمارے پاس لاؤ۔ پھر طاہر کو دودھ کا بھرا ہوا ایک مٹکا عطا کیا اور اسے ہر ایک میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا میں (طاہر) وہ دودھ لے کر تقسیم کرنے لگا۔ اتنے رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے میری پیشانی پر بوسہ دے کر مجھ پر اپنا کرم فرمایا۔ (کتاب نابغثہ عصر، قومی ڈائجسٹ لاھور 1986ء )

منہاج القرآن کے حوالے سے احیاء اسلام کے لئے حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا، فرمایا میں یہ کام تمہارے سپرد کرتا ہوں تم شروع کرو منہاج القرآن کا ادارہ بناؤ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ لاہور میں تمہارے منہاج القرآن میں خود آؤں گا۔ (ماھناہ قومی ڈائجسٹ نومبر 1986ء صفحہ، 20، 22 ، 24)

مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ کا اختراع کرے وہ جہنمی ہے خود ارشاد رسالت مآب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کہ “من افترا علی کذبا فلیتبوا مقعدہ من النار“ یعنی جو مجھ پر جھوٹ کا اختراع کرے اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرنا چاہئیے۔ مگر پروفیسر کو خدا کا خوف بھی نہیں رہا کہ اس قسم کی جھوٹی خوابیں بیان کرکے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ پروفیسر صاحب اپنے اکابرین دیوبند کی سنت پر عمل کر رہے ہیں۔

“لعنۃ اللہ علی الکاذبین“ کس قدر سچ یہ بات ہے کہ “الدنیا زور ولا یحصلھا الا یزور“

پروفیسر صاحب کے والد صاحب کیا تھے ان کے متعلق پروفیسر صاحب کے استاد مفتی عبدالرشید صاحب جامعہ قطبیہ جھنگ جامعہ رضویہ مظہرالسلام فیصل آباد کے استاذہ مولانا حافظ احسان احسان الحق۔ مولانا مفتی مختار احمد صاحب۔ مولانا محمد حیات صاحب اور شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کے خادم خاص صوفی اللہ رکھا صاحب ابھی بقید حیات ہیں ان سے پوچھ لیجئے کہ ڈاکٹر فریدالدین محلہ ترکھان جھنگ کے باشندے سیدھے سادھے کلین شیو ڈنگروں کے ڈاکٹر تھے آخر میں خشخشی داڑھی رکھ لی تھی “لالیا“ کے ڈنگر اسپتال میں تعنیات تھے۔ جن کو پروفیسر صاحب کے حواریوں نے “عدیم المثال خطیب، بلند پایہ عالم جلیل القدر طبیب“ بنا دیا۔ برعکس نہند نام زنگی کافور، خدارا غور کا مقام ہے جو شخص جھوٹی من گھڑت خوابیں بیان کرکے ان کی نسبت حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنے سے نہیں شرماتا وہ دین میں کیا کچھ فتنے نہ جگائے گا۔

اللہ تعالٰی مسلمانوں کو اس کے شر سے مصئون مامون رکھے اور اس کے دجل و فریب کی زرین چکاچوند سے دھوکہ نہ کھائیں۔ آمین


خود احتسابی

حدیث نمبر 1) عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) من سئل من علم علمہ ثم کتمہ الجم یوم القیمتہ بلجام من النار۔ (رواہ احمد و ابو داؤد والترمذی ورواہ ابن ماجہ عن انس۔)


حدیث نمبر2) جو امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب “رد روافض“ کی نصنیف کا سبب بیان فرماتے ہوئے ترجمہ نقل فرمایا ہے۔

جس میں آپ نے فرمایا۔ جب فتنوں اور بدعتوں کا دنیا میں ظہور ہوا اور میرے صحابہ پر سب وشتم ہونے لگے تو عالم کو چاہئیے کہ وہ اس کمدر فضاء کے دفعیہ کے لئے اپنے علم کا ہتھیار کام لائے اور جس نے ایسا نہیں کیا اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور اس کی توبہ کا فدیہ اور اس کے فرائض و نوافل درجہ قبولیت کو نہیں پہنچیں گے۔

مذکورہ بالا احادیث میں تمام علماء اہلسنت کو عموماً کو خصوصاً جو پروفیسر طاہرالقادری کی مجالس میں شرکت فرمانا پوز دے کر فوٹو کھچوانا اور اس کی رونق بڑھانا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ اور اہلسنت و جماعت کے مسلک حقہ کے خلاف اس منظم سازش میں شریک ہوکر “معاون علی الاعلم والعدون“ کا پارٹ پلے کر رہے ہیں۔ سوچنا چاہئیے کہ اس فتنہ کے انسداد کے لئے ان پر کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہیں اور اگر ہوتی ہے تو آج تک انہوں نے اس سلسلہ میں کیا قدم اٹھایا ہے اور اگر نہیں تو کیوں ؟

صرف مدرسے کھول کر قوم سے چندہ وصول کرنا اور کچھ اسباق پڑھا دینا اور من تنخواہ وصول کر لینا روز قیامت دیگر ذمہ داریوں کے عہدہ سے برآ نہ کرا سکے گا۔ ذرا سوچیں کہ اس فتنہ کے انسداد کے لئے کوئی قیام نہ اٹھانا اور تحریرً و تقریراً اس کا رد نہ کرنے کی بجائے منہ میں مصلحت بینی کی گھونگنیاں ڈالے رکھنا ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ گریہ کشتن روز اول کے مصداق اس فتنہ کا قلع و قمع کرنے کے بے متحدہ ہو کر علمی و عملی اقدام کرنا اور بلاخوف لومۃ لائم کرنا نہایت ضروری ہے۔

علماء کرام و پیران عظام اہلسنت و جماعت پر بہ نسبت عوام کے یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ بذریعہ تحریر و تقریر اپنے اپنے حلقائے اثر میں اس نئے فتنے کے انسداد و اماتت فساد میں موثر قدم اٹھائیں اور عوام اہلسنت و جماعت کو اس کی شوگر کوٹڈ مسموم گولیوں کے اثر بد سے بچائیں۔

سر چشم باید ہبستن بیل

مانیں نہ مانیں آپ کی مرضی مگر حضور

ہم نیک و بد جناب کو سمجھائیں گے ضرور


قرآن کا واضح فرمان واجب الادغان

“واعتصموا یحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا“

ترجمہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی مضمبوط پکڑو۔ اور آپس میں مت پھوٹو۔

“ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاءھم البینت واولئک لھم عذاب عظیم“

ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جو پھوٹ گئے اور اختلاف کرنے لگے اللہ کی نشانیوں کے ان کے پاس جانے کے بعد اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ اس دورالحاد میں ہر روز نت نئے فتنے جہنم میں ڈالے جا رہے ہیں، اور دین میں رخنہ اندازی کی منظم سازشیں کی جا رہی ہیں، اور شیرازاہ ملت کو منتشر و متفرق کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے اجماع امت کو باز بچہ اطفال بنانے کی کوششیں جا رہی ہیں ہر بولہواس مجتہد العصر بننے کا متمنی ہے منگھرٹ اصطلاحات کے ذریعہ متفق علیہ اور مفتی بہ مسائل میں بحث و تمحیص کی جا رہی ہے دیت اور شہادت میں مرد و عورت کو مساوات کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ مسائل اجماع سکوتی کو چودہ سو برس کے بعد متکلم فیہا بنایا جا رہا ہے۔ بے دینوں، بد مذہبوں سے خلا ملا کر کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

گستاخان بارگاہ نبوت و شاتمانان جناب صحابیت کو امام بنایا جا رہا ہے۔ سنیت وقادریت کا لبادہ اوڑھ کر بھولے بھالے ناواقف اہلسنت و جماعت کو بزور تحریر و تقریر اہلسنت و جماعت سے اغوا کرنے کی دن رات مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔

مسلمانوں ! خدارا جاگو۔ ابلیسی تلبیس کے جال سے دور بھاگو اور غوث اعظم مجدد الف ثانی اور مجدد مائتہ حاضرہ امام احمد رضا خان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مسلک پر سختی کے ساتھ ڈٹے رہو کہ یہی صراط مستقیم ہے سنت رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پر مظبوطی سے عمل پیرا ہو یہی اعتصادم باللہ ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے “ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم“ ترجمہ جس نے اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑا تحقیق وہ ہدایت پاگیا۔

اللہ تعالٰی نے اس مختصرا آیت میں تمام نصیحت جمع فرمادی پس جو شخص وہ کرے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور کسی کی طرف نہ جھکے وہ یقیناً راہ راست پر واصل ہوگا چاہے اس کی عقل کچھ ہی کیوں نہ کہے اس کو روا نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے سرتابی کرے اس لئے کہ عقل اس کی جزوی ہے اور ہم شیطانی میں پھنسی ہوئی ہے اس کا کیا اعتبار۔ خوب جان لو کہ رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بھی خدا ہی کا فرمان ہے۔ بحکم “وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی“ رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی موافقت پر مجتمع ہو جاؤ یعنی ہر حال میں ان کے قول و فعل کی موافقت کرو کہ یہی حال ھیل اوثق ہے اور ظاہر و باطن علانیہ و پوشیدہ کسی طرح بھی اس سے افتراق نہ کرو حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) نے بدمذہبوں اور رافضیوں سے قطع تعلق کا حکم فرمایا ہے ہر حال میں ظاہری بھی اور پوشیدہ بھی بدمذہبوں کے ساتھ کھانا پینا ان کی مجالس میں شریک ہونا ان کی عیادت کرنا ان کا جنازہ پڑھنا ان سے سلام کرنا سب منع فرمادیا۔ “ایاکم ویاھم“ اسی کی تاکید حضور غوث اعظم نے فرمائی اسی کی تلقین حضرت شیخ احمد سرہندی نے فرمائی اسی کی تعلیم اعلٰیحضرت امام احمد رضا نے فرمائی (رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان اکابرین اولیائے کرام و فقہائے عظام کے فرمان واجب الادغان کے برخلاف پروفیسر صاحب یا ان جیسے دوسرے واعظات پاکستان کا یہ کہنا کہ دیوبندیوں، رافضیوں، مودودیوں، غیر مقلدوں سے رشتہ محبت مؤدت استوار کرو کیا معنی رکھتا ہے ان کی کیا حیثیت ہے۔

بر زیانت اعصاد دودرد دولت مخفی فساد۔ الضدراے فتنہ پروراعظ شورش نہاد

خدا کی شان تو دیکھو کہ کلچڑی گنجی

حضور سرد گلستان کرے نوانجی

*حضور علیہ السلام نے فرمایا “اتبعوا السواد الاعظم“ سودااعظم کی پیروی کرو۔ سودااعظم سے مراد اہلسنت و جماعت ہیں۔

*حضور علیہ السلام نے فرمایا “لایجع امتی علی الضلاتہ“ میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی۔

*حضور علیہ السلام نے فرمایا “علیکم بالجماعتہ“ جماعت لازم پکڑو۔

*حضور علیہ السلام نے فرماا “من شد شد فی النار“ جو جماعت سے الگ ہوا جہنم میں گیا۔

*حضور علیہ السلام نے فرمایا “ایاکم وایاھم“ بدمذہبو سے بچو۔

*حضور علیہ السلام نے فرمایا “یداللہ علی الجماعتہ“ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

*حضور علیہ السلام نے فرمایا “من رامنکم منکسر فلیغیرہ بیدہ فن لم یستطع فبلسانھ خان لم یسطع فیقبلہ وھذا ضعف الایمان“ تم میں سے کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کو چاہئیے کہ اس کو طاقت سے بدل دے پس اس کی طاقت نہ رکھے زبان سے بدل دے پس اگر اس کی طاقت نہ رکھے تو دل سے برا جانے یہ نہایت کمزور ایمان ہے۔

مسلمانو ! مسلک حقہ اہلسنت و جماعت پر جس کی نشان دہی اعلٰی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے فرمائی ہے مظبوطی کے ساتھ قائم رہو اور تمام بے دینوں و بدمذہبوں سے دور و نفور رہو کہ یہی صراط مستقیم ہے یہی انبیاء صدقین و شہداء و صالحین کی راہ ہے۔

اللہ تعالٰی اہلسنت و جماعت کو ان عقیدہ بدمذہب فرقوں کے شر سے محفوظ رکھے آمین۔

بجاہ سیدالمرسلین صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین

محبوب رضا خان بریلوی غفرلہ


فرمان رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)

احمد بن عدی امیرالمؤمنین عمر اور طبرانی کبیر میں اور بزاز حضرت عمر بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں، “سب سے زیادہ جن سے مجھ کو اپنی امت کا ڈر ہے وہ علیم اللسان وفصیح البیانمنافق ہیں۔

(جو لچھے دار خطیب و مقرر ہوں گے، عقیدہ خاص کی پابندی نہ کریں گے اور تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کو گمراہ کریں گے)

(فتاوٰی الحرمین صفحہ 80 از اعلٰیحضرت بریلوی علیہ الرحمۃ)

مجھے اپنی امت پر ان منافقوب کا خطرہ ہے جن کا کلام حکیمانہ اور عمل ظالمانہ ہوگا۔ (مشکوٰۃ)



خبردار سنیوں ھوشیار !!!

آ گیا

دوسرا مودودی

آگیا

))) (((

قادریت کا لبادہ اوڑھ کر

قرآن کی منھاج کا لیبل لگا کر



حضرت حمیدالدین صاحب سجادہ نشین سیال شریف کے استاد محترم استاذالعلماء علامہ محمد صاحب بندیالوی کی تصدیق و فتوٰی

“امابعد ! طاہرالقادری صاحب نے عورت کی پوری دیت سے صرف اجماع صحابہ اور اجماع امت کا ہی انکار نہیں کیا۔ بلکہ اجماع کی تحقیر کا ارتکاب کیا ہے۔ جو کہ صرف گمراہی ہی نہیں بلکہ ایسے آدمی کے ایمان کو خطرہ لاحق ہے۔ لٰہذا قادری صاحب کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس انکار سے توبہ کریں۔ کیونکہ معلوم نہیں کس وقت موت آجائے اور قادری صاحب کے مداحوں اور معاونین پر لازم ہے کہ وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کریں۔ اور ان کا اجماع کی معاونت سے باز رہیں۔“ حررہ الفقیر (مولانا) عطاء محمد چشتی بھکھی شریف۔

بھکبھی شریف) الجواب صحیح واللہ تعالٰی ورسولہ الکریم (مولانا) سید محمد قیوم شاہ خادم دربار عالیہ بھکبھی شریف۔

کیرانوالہ) جناب علامہ عطا محمد اور دیگر علماء نے دیت کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے عین صواب شریعت کے مطابق ہے۔ طاہرالقادری سراسر غلطی پر ہے اور گمراہی پھیلا رہا ہے۔ مولٰی کریم اس کو ہدایت دے۔“

السید محمد یعقوب شاہ فاضل بریلی شریف کیرانوالہ ضلع گجرات

حضرت علامہ عطاء محمد صاحب اور حضرت سید محمد یعقوب شاہ صاحب آف کیرانوالہ نے جو کچھ لکھا ہے۔ یہی درست ہے طاہرالقادری کا فیصلہ غلط ہے۔

سید محمد شعیب (کیرانوالہ) خطیب جامع مسجد شیر ربانی گوجرنوالہ)

صاحبزادہ حامد سعید کاظمی ملتانی نے فرمایا کہ “غزالی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی بہت پہلے طاہرالقادری کو گمراہ قرار دے چکے ہیں اس لئے ہم پر ان کی کسی سیاسی قلابازی کا کچھ اثر نہیں۔“ (ندائے اہلسنت لاھور جون 1989ء )


دوسرا فتوٰی) “عورت کی نصف دیت پر اجماع امت ہے اور پروفیسر طاہرالقادری کا عورت کی پوری دیت کا قول اجماع امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔ لٰہذا ان لوگوں پر لازم ہے کہ رجوع کریں اور توبہ نامہ چھپوائیں کیونکہ سنی ہونے کے لئے ہر اجماعی مسئلہ کا ماننا ضروری ہے۔ اجماع واجب العمل ہے۔ قابل بحث نہیں۔“ (مولانا محمد احسن الحق قادری فیصل آباد)


محدث اعظ، پاکستان کے لخت جگر)

صاحبزادہ قاضی محمد رسول حیدر رضوی نے سنیوں کے خلاف پروفیسری سازش کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ “پروفیسر طاہرالقادری نجدی مفتی عبداللہ بن ہاز کے اشارے پر پاکستان میں احسان الٰہی ظہیر کی جگہ نجدیوں کے ایجنٹ کا کردار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاہرالقادری متعدد بار مدینہ منورہ میں عبداللہ بن باز سے ملاقات کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی نجدیوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ اور سنیوں کو نجدیت کی گود میں پھینکنے کے لئے نجدی سرامئے پر میدان سیاست میں اترے ہیں۔“ ( ندائے اہلسنت لاہور جون 1989ء )


علامہ محمد عبدالرشید جھنگوی) نے فرمایا کہ “عورت کیدیت نصف ہونے پر تمام سلف و خلف کا اتفاق ہے۔ آج اس طے شدہ مسئلہ کو چھیڑ کر ملت میں انتشار و افتراق کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ دور عالم کے کسی عالم کی تحقیق کو مجتہدین علی الاطلاق کے مقابل لانان کے تبحرعلمی کے انکار کے مترادف ہے۔


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

مخلصانہ پیغام) سنی بھائیوں اور اہل علم و انصاف دوستوں کے نام

(یہ کوئی انفرادی و معمولی مسئلہ نہیں بلکہ اکابر علماء کرام کا اجتماعی فتوٰی ہے۔)


(( اثر نہ کیسے سن تو لے میری فریاد ))

پہلا فتوٰی) سوال بخدمت حضرت مولانا تقدس علی خان صاحب دامت برکاتہم۔ السلام و علیکم ! گزارس یہ ہے کہ پروفیسر صاحب نے اجماع امت کا انکار کرکے پوری عورت کی دیت کا جو دعوٰی کیا ہے۔ علامہ احمد سعید کاظمی مرحوم نے اس کے رد میں پوری کتاب بعنوان “اسلام میں عورت کی دیت“ کا جو دعوٰی کیا ہے۔ جس میں فرمایا “اجماع کے انکار کرنے والے کو علماء نے ضال یعنی گمراہ قرار دیا ہے۔“ (صفحہ 45) نیز فرمایا کہ “سودااعظم کی اتباع سے باہر جانا، سودااعظم سے خروج قرار پائے گا۔ اور مذاہب اربعہ کے اتفاق کا انکار بہت بڑی جسارت بلکہ صراط مستقیم سے انحراف ہوگا۔“ (صفحہ 48 ) ملخصاً لٰہذا آپ بھی اس مسئلہ میں شرعی حکم کی وضاحت فرما کر مشکور ہوں۔

الجواب) عبارت مندرجہ بالا حضرت علامہ کاظمی صاحب نے جو “اسلام میں عورت کی دیت“ میں تحریر فرمائی اس سے میں بالکل متفق ہوں، بے شک اجماع کے انکار کرنے والے کو علماء نے ضال فرمایا ہے۔ ایسے شخص پر جو اجماع کا انکار کرے توبہ واجب ہے۔“ فقط فقیر تقدس علی قادری شیخ الجامعہ راشدیہ پیر گوٹھ ضلع خیرپور۔

تصدیق، مفتی محمد رحیم ناظم جامعہ راشدیہ


علی پور شریف) “مندرجہ بالا سوال کا جواب بالکل درست ہے۔ بندہ ناچیز خادم دربار لاثانی بھی اس کی مکمل تائید کرتا ہے۔“

صاحبزادہ سید عابد حسین سجادہ نشین علی پور شریف

* عورت کی دیت نصف ہے۔ جب یہ مسئلہ اجماعی ہے تو انکار کا کیا مطلب ؟

(مفتی غلام رسول۔ دارالعلوم نقشبندیہ)


الجواب صحیح

(سید حیدر حسین شاہ جماعتی)

(سید محمد افضل حسین جماعتی سجادہ نشین آستانہ امیر ملت)

شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی جامعہ رضویہ فیصل آباد)

“قتل خطا میں عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اس پر ساری امت کا اجماع ہے۔ اور حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موقوف و مررفوع حدیث منقول ہے جب کہ صحابی کی موقوف بھی رفع کے حکم میں ہوتی ہے سنت و اجماع اور حضرت ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے خلاف محض قیاس سے علیحدہ موقف اختیار کرنا خرق اجماع ہے۔ اور اسلام میں ایک نئے فرقے کی بنیاد کے مترادف ہے اور انتشار کی آبپاشی کرنا ہے۔ اللہ تعالٰی صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ حدیث پاک میں ہے جو امت مسلمہ میں سے علیحدہ راستہ اختیار کرے وہ ناری ہے۔ اس طرح سلف کی مخالفت ہوتی رہی تو بے شمار تنازعات کھڑے ہو جائیں گے۔“

Wednesday, September 17, 2014

قربانی کے فضائل اور اہم مسائل

قربانی کے فضائل اور اہم مسائل

اس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یوم ترویہ (یعنی 8 ذی الحجہ) کی رات خواب دیکھا کہ ایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ (اے ابراہیم) آپ کا رب آپ کے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم فرما رہا ہے… یہی خواب آپ نے اگلی دو راتوں میں مزید ملاحظہ فرمایا۔ چنانچہ اس کے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ہونے کا کامل یقین فرماتے ہوئے، آپ نے اپنے صاحبزادے کو اس کے بارے میں مطلع کیا۔ فرماں بردار بیٹے نے فوراً اظہار رضا مندی فرماتے ہوئے خود کو قربانی کے لئے پیش کردیا۔ آپ صاحب زادے کو ’’وادی منی‘‘ میں لے گئے اور چہرے کے بل لٹادیا، تاکہ چہرے پر نگاہ پڑنے کی صورت میں ’’شفقت پدری‘‘ کے باعث آزمائش پر پورا اترنے کے عزم مصمم میں لغزش واقع نہ ہو۔ پھر آپ نے اﷲ کا نام لے کر چھری چلادی۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کے حکم سے چھری اور گردن کے درمیان ایک تانبے کی لپیٹ آگئی، جس کے باعث چھری اپنا کام نہ کرسکی۔ پھر اﷲ نے ایک جنتی مینڈھا صاحب زادے کے فدیئے کے طور پر بھیجا جسے آپ نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرماکر قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے اور اس کے احکام پر خوش دلی کے ساتھ عمل پیرا ہوکر اس کی بارگاہ میں مقبول ہونے کا عظیم عملی درس عطا فرمایا‘‘ (تفسیرصاوی، جلد 5، بتصرف ما)

سورہ صافات میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا:

ترجمہ: تو ہم نے اسے ایک عقلمند فرزند کی بشارت عطا فرمائی۔ پھر جب وہ لڑکا، والد کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا تو والد نے کہا، اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ اب تم غور کرکے بتائو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے عرض کی، اے میرے والد! جس بات کا آپ کوحکم ہوا، وہ کیجئے۔ خدا نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘ چنانچہ جب ان دونوں نے ہمارے حکم کی تعمیل کی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا (تو اس وقت کی کیفیت نہ پوچھو) اور ہم نے ندا کی کہ ’’اے ابراہیم! بے شک آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔بے شک یہ ایک واضح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ بطور فدیہ دے کر اسے بچالیا اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف و توصیف باقی رکھی۔ ابراہیم پر سلامتی ہو، ہم نیکوںکو ایسا ہی صلہ عطا فرماتے ہیں‘‘ (ترجمہ صراط الجنان، پ 101-23)

قربانی کا شرعی حکم

سوال: قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: قربانی کبھی واجب ہوتی ہے اور فقط سنت و نفل

سوال: یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ ہم پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟

جواب: درج ذیل شرائط پر خواب اچھی طرح اور ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ اگر یہ تمام شرائط موجود ہوں، تو قربانی واجب ہے اور اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اب قربانی واجب نہیں۔ ہاں ایسی صورت میں کریں گے تو سنت و نفل ہوگی

قربانی کی شرائط

قربانی کی درج ذیل چار شرطیں ہیں۔

1۔ مسلمان ہونا، 2۔ مقیم ہونا، 3۔ مالک نصاب ہونا،  4۔ بالغ ہونا

ان کی وضاحت و تفصیل

1: مسلمان ہونا

چنانچہ غیر مسلم پر واجب نہیں

2۔ مقیم ہونا

چنانچہ مسافر پر واجب نہیں۔ یاد رکھئے کہ شرعی مسافر وہ ہے جو اپنے شہر کی حدود سے تقریبا ساڑھے ستاون میل 92) کلومیٹر) دور جانے کے ارادے کے ساتھ نکل گیا ہو۔ یا اگر کسی ساڑھے ستاون میل 92) کلومیٹر) دور مقام پر پہنچ چکا ہو تو پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو یا اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کی بھی ہو تو یہ شخص کہیں آنے جانے میں اپنی مرضی کا مالک نہ ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کی مرضی کے تابع ہو، جیسے بیوی شوہر کے تابع ہے یا نوکر اپنے مالک کے حکم کے تابع ہے اور جس کے تابع ہیں، اس نے پندرہ دن سے کم کی نیت کی ہے۔

3۔ مالک نصاب ہونا

مالک نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا ضروریات زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اﷲ تعالیٰ یا بندوں کا اتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے ادا کرکے ذکر کردہ نصاب باقی نہ رہے۔

نوٹ: (1) خیال رہے کہ ایسا شخص ’’غنی‘‘ کہلاتا ہے اور اگر کسی کے پاس مذکورہ نصاب نہ ہو، تو وہ شرعاً ’’فقیر‘‘ کہلائے گا۔

(2) ضروریات زندگی سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی و دشواری محسوس ہوتی ہے۔ جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔

اس بارے میں مزید تفصیل جاننا چاہیں، تو بہار شریعت (حصہ 5) کا مطالعہ فرمائیں۔

ضروریات زندگی کی تعریف کے پیش نظر بخوبی معلوم ہوگا کہ ’’ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ جو حقیقتاً ضروریات زندگی کے سامان میں داخل نہیں۔ چنانچہ اگر ان کی قیمت ’’ساڑھے باون تولہ چاندی‘‘ کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہوگی۔

درج ذیل اشیاء ضروریات زندگی میں شامل نہیں۔

ٹی وی، وی سی آر، ٹیپ ریکارڈر، ڈش انٹینا، ایسا کمپیوٹر جسے فقط تفریح کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو (چنانچہ اگر پڑھائی یا دینی معلومات کا حصول مقصود ہو تو یہ بھی دینی کتابوں کے حکم میں آئے گا) ایسے کپڑے جن کو گرمی و سردی میں پہننا ترک کردیا گیا ہے۔ ڈیکوریشن پیس، ضرورت سے زیادہ مکان یا خالی پلاٹ وغیرہ۔ گھر میں لگی ہوئی تصاویر، ڈائجسٹ و ناول وغیرہ۔ آڈیو ویڈیو کیسٹیں (بشرطیکہ دینی معلومات کے حصول کی غرض سے نہ لی گئی ہوں) کھیل کود کا سامان۔

بلکہ فقہاء اسلام نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی کا رہائشی گھر بڑا ہے، اس کا کچھ حصہ رہنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور کچھ حصہ سردی و گرمی ہر قسم کے موسم میں بند رہتا ہے تو اگر اس بند حصے کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا زائد ہے، تب بھی قربانی لازم ہوگی۔

(3) اﷲ تعالیٰ کے قرض سے مراد یہ ہے کہ اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکوٰۃ یا قربانی یا کسی قسم کا کفارہ وغیرہ باقی ہو۔

(4) بالغ ہونا

نابالغ پر قربانی واجب نہیں، اگرچہ وہ صاحب نصاب ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ شرعی لحاظ سے مرد کی بلوغت کی کم از کم عمر 12 سال اور عورت کی 9 سال ہے۔ اس سے پہلے یہ دونوں ہرگز ہرگز بالغ نہیں ہوسکتے۔ پھر 9 یا 12 سال سے 15 سال کے درمیان جب بھی بلوغت کے علامات و آثار ظاہر ہوگئے، انہیں بالغ کہا جائے گا۔

قربانی کے وجوب پر دلائل

سوال: کیا قربانی کے وجوب پر قرآن و حدیث میں کوئی دلیل موجود ہے؟

جواب: کیوں نہیں! اس پر قرآن و حدیث سے کئی دلیلیں موجود ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

پہلی دلیل:

اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ’’فصل لربک و انحر‘‘ یعنی پس تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘ (صراط الجنان، پ 30، کوثر 2)

وضاحت: اس آیت پاک میں ’’انحر‘‘ صیغہ امر ہے اور یہ ضابطہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ قربانی واجب و ضروری ہے۔

دوسری دلیل

مخنف بن سلیم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ میں رسول اﷲﷺ کے پاس کھڑے تھے، آپ نے فرمایا ’’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی اور قتیرہ ہے، تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا ہے؟ عتیرہ وہی ہے جسے تم ’’رجبیہ‘‘ کہتے ہو۔ (ابن ماجہ، باب الاضاحی وابنۃ ہی ام لا)

وضاحت: عرب لوگ رجب کے اول عشرے میں جو جانور ذبح کرتے، اسے رجبیہ کہتے تھے۔ حدیث میں رجبیہ کے بارے میں موجود حکم ایک خاص وقت تک کے لئے تھا، بعد میں خود حبیب کبریاﷺ نے اسے منسوخ فرمادیا۔ جیسا کہ مسلم شریف میں مذکور ہے۔

تیسری دلیل

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ جس میں طاقت ہو اور وہ پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے (ایضاً)

وضاحت: مذکورہ حدیث پاک میں رسول اﷲﷺ نے قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے اور ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے، جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو لہذا ثابت ہوا کہ قربانی واجب و ضروری ہے۔

چوتھی دلیل

حضرت جندب بن سفیان رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عیدالاضحی کے دن رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ جب آپ لوگوں کو نماز پڑھا چکے، تو آپﷺ نے ایک ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھ کر اشارہ فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کی، وہ اﷲ کا نام لے کر ذبح کرے (مسلم، باب وقتہا)

وضاحت: اس حدیث پاک سے وجوب اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ اگر قربانی واجب نہ ہوتی تو رسول اﷲﷺ اسے دوبارہ کرنے کا حکم صادر نہ فرماتے۔

قربانی کا وقت

سوال: قربانی کس وقت سے کس وقت کے درمیان کی جاسکتی ہے؟

جواب: قربانی کا وقت 10ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے 12 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں۔ ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں (در مختار، جلد دوم، کتاب الاضحیہ)

وقت سے متعلقہ چند مزید مسائل

1۔ پہلے دن قربانی سب سے افضل ہے۔ دوسرے دن اس سے کم اور آخری دن سب سے کم درجہ ہے (عالمگیری، جلد پنجم)

خواتین و حضرات کو چاہئے کہ مذکورہ مسئلہ کی روشنی میں جانور کی قیمت اور قصائی کی اجرت میں کمی پر نگاہ رکھتے ہوئے خریداری یا ذبح کو تیسرے دن تک موخر کرنے کے بجائے، پہلے دن کی برکات سے فیضیاب ہونے کو اپنے لئے سعادت مندی تصور کریں۔

2۔ دسویں کے بعد کی دونوں راتوں میں قربانی ہوسکتی ہے۔ مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے (فتاویٰ عالمگیری)

3۔ شہر میں قربانی کی جائے، تو یہ شرط ہے کہ نماز عید ہوچکے ، لہذا اگر نماز عید س پہلے قربانی کی نہ ہوئی، ہاں گائوں دیہات میں فجر کا وقت شروع ہوتے ہی قربانی ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں چند احادیث کریمہ

٭ حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا ’’آج (یعنی عیدالاضحی) کے روز جو کام ہم سب سے پہلے کام کرتے ہیں، وہ نماز ہے۔ پھر ہم واپس لوٹتے ہیں، تو قربانی کرتے ہیں، جس نے اس طرح کیا تو اس نے ہمارے طریقے کو پالیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ اس کے گھر والوں کے لئے گوشت ہے، جس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں (بخاری، کتاب الاضاحی)

٭ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس نے اپنے لئے کی اور جس نے نماز کے بعد کی تو اس کی قربانی پوری ہوئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پالیا (ایضاً)

4۔ اگر شہر میں متعدد مقامات پر نماز عید ہوتی ہے تو پہلی جگہ نماز عید ہوجانے کے بعد، قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ عیدگاہ (یا آپ کی قریبی مسجد) میں نماز ہوجائے، تب ہی قربانی کی جائے (درمختار، جلد دوم)

عید کے دن قربانی کے بجائے صدقہ

سوال: اگر کوئی شخص ان دنوں میں قربان نہ کرے، بلکہ اتنی ہی رقم کسی غریب کو دے دے، تو کیا یہ درست ہے؟

جواب: ایسا شخص اگر غنی ہے تو یقینا صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہوگا، قربانی ہی کرنی ہوگی اور اگر فقیر ہے تو اگرچہ اس پر قربانی واجب نہیں، لیکن اس کے لئے قربانی کرنا ہی افضل ہے، کیونکہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا، اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں‘‘ (طبرانی)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ ایام نحر میں قربانی کرنا، اتنی رقم صدقہ کرنے سے افضل ہے، کیونکہ قربانی واجب ہے یا سنت، جبکہ صدقہ کرنا محض نفل ہے، لہذا قربانی افضل ہوئی (جلد پنجم)

قربانی کرنے والے کا بال و ناخن کاٹنا

سوال: سنا ہے کہ جس پر قربانی واجب ہے، وہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن تک اپنے بال وغیرہ نہیں کاٹ سکتا؟

جواب: ایسے شخص کے لئے افضل و مستحب یہی ہے کہ ان دنوں میں بال و ناخن وغیرہ بالکل نہ کاٹے۔ کیونکہ مسلم میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس ذبح کرنے کے لئے کوئی ذبیحہ ہو تو جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے، تو وہ قربانی کرنے تک اپنے بالوں اور ناخنوں کو بالکل نہ کاٹے (باب نہی من دخل علی عشر ذی الحجہ)

سوال: کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ قربانی کی سنت پر عمل پیرا ہونے سے معذور مسلمان بھی اس کا ثواب پالے؟

جواب: جی ہاں! نسائی شریف (باب من لم سجد الاضحیہ) میں حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ایک شخص سے فرمایا، مجھے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا۔ اﷲ نے اس دن کو میری امت کے لئے عید بنایا۔

اس شخص نے عرض کی۔ یا رسول اﷲﷺ اگر میرے پاس منیحہ کے علاوہ کوئی جانور نہ  ہو تو کیا میںاسی کی قربانی کروں؟ فرمایا، نہیں، ہاں تم اپنے بال اور ناخن اور مونچھیں ترشوائو اور موئے زیر ناف مونڈو، اسی میں تمہاری قربانی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری ہوجائے گی (یعنی قربانی کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں ان چیزوں کے کرنے سے ثواب حاصل ہوجاتا ہے)

نوٹ: منیحہ اسی جانور کو کہتے ہیں، جو کسی نے دودھ وغیرہ سے نفع اٹھانے کے لئے کچھ دنوں کی خاطر دوسرے کو دیا ہو۔ یہ چونکہ دوسرے کی امانت ہوتا ہے لہذا رسول اﷲﷺ نے اس کی قربانی سے منع فرمایا۔

قربانی کے جانور

سوال: قربانی کے جانور کون کون سے ہیں؟ اور ان کی عمریں کتنی ہونی چاہئیں؟

جواب: شرعی اعتبار سے قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں۔

1۔ اونٹ، 2۔ گائے، 3۔ بکری

ان تینوں قسموں میں ان کی نوعیں بھی داخل ہیں۔ چنانچہ نر، مادہ، خصی وغیر خصی، سب کا حکم یکساں ہے یعنی ان سب کی قربانی ہوسکتی ہے۔

بھینس کو گائے کے ساتھ اور بھیڑ اور دنبہ کو بکری کے ساتھ شامل و شمار کیا جائے گا، چنانچہ ان کی قربانی بھی ہوسکتی ہے (فتاویٰ عالمگیری)

نوٹ: چونکہ قربانی کے جانور، شریعت کی جانب سے مخصوص ہیں، لہذا اگر ان دنوں میں کسی نے قربانی کی نیت سے خرگوش یا مرغی ذبح کی تو وہ قربانی کرنے والا نہ کہلائے گا۔

جانوروں کی عمریں

1۔ اونٹ… کم از کم پانچ سال

2۔ گائے… کم از کم دو سال

3… بکری… کم از کم ایک سال

جانور اگر مقررہ عمر سے کم ہو تو قربانی نہ ہوگی اور اگر زیادہ عمر کا ہو، تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں اگر دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اتنا بڑا ہوکہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے تو اس کی قربانی جائز ہے (درمختار)

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا صرف مسنہ (یعنی ایک سال کی بکری، دو سال کی گائے اور پانچ سال کے اونٹ) کی قربانی کرو، ہاں اگر تم کو دشوار ہو، تو چھ سات ماہ کا دنبہ یا مینڈھا ذبح کرلو (مسلم شریف، باب سن الاضحیہ)

قربانی میں شرکاء کے مسائل

سوال: ان جانوروں میں کتنے حصے دار شامل ہوسکتے ہیں؟

جواب: بکری و بکرا دنبہ و بھیڑ وغیرہ، تو صرف ایک کی طرف سے ہی ادا ہوسکتی ہے، چنانچہ اگر اس میں دو آدمی شریک ہوئے تو کسی کی بھی نہ ہوگی۔

مثلا زید و عمرو نے پانچ پانچ سو روپے ملاکر ایک بکرا خریدا اور یہ نیت کی کہ یہ ہم دونوں کی طرف سے ہے تو کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی۔ یونہی گھر کا سرپرست ایک بکرا لاکر اس طرح نیت کرے کہ یہ جانور میرے پورے گھر والوں کی طرف سے ہے، تو کسی کی طرف سے بھی ادا نہ ہوگی، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قربانی تو اپنی طرف سے کرے اور اس کا ثواب تمام گھر والوں کو بخش دے۔

ہاں گائے اور اونٹ میں سات آدمی حصہ ملاسکتے ہیں۔ جیسا کہ

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا۔ گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کرسکتا ہے (ابو دائود شریف، باب البقر والجزورعن کم تجزی)

شرکاء سے متعلق ضروری مسائل

گائے یا اونٹ میں شریک افراد کو درج ذیل مسائل کا یاد رکھنا بے حد ضروری ہے۔

٭ اگر اونٹ یا گائے کے شرکاء میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہوا، تو بقیہ چھ کی قربانی بھی نہ ہوگی (در مختار، رداالمحتار)

مثلا 7000 کی گائے میں پانچ نے ایک ایک ہزار روپے، چھٹے نے ڈیڑھ ہزار اور ساتویں نے پانچ سو روپے ملائے تو اب چونکہ آخری شخص کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہے، لہذا ان میں سے کسی کی بھی قربانی نہ ہوئی۔

٭ ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوئے، کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی (کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہے) (رداالمحتار)

٭ شرکاء میں سے کسی ایک کی نیت فقط گوشت حاصل کرنے کی ہے، قربانی کی نہیں تو بقیہ کی قربانی بھی نہ ہوگی۔

مثلا شرکاء نے زید کو گائے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ زید جواباً کہتا ہے کہ میں تو قربانی کے لئے بکرا خرید چکا ہوں، چلو ایسا ہے کہ میں شریک ہوکر کباب وغیرہ کے لئے گوشت لے لیتا ہوں، آپ لوگ قربانی کرلیجئے گا۔ تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی (رداالمحتار)

نوٹ: مذکورہ مسئلہ کے پیش نظر شریک ہونے سے قبل یہ اطمینان بھی کرلیں کہ سب شرکاء کی نیت قربانی کی ہی ہے یا نہیں؟

٭ شرکاء میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی کی ہے اور باقی کی گزشتہ سال کی قربانی کی، تو اس سال کی قربانی کی نیت کرنے والے کی قربانی درست اور باقی سب کی نیت باطل ہے، کیونکہ سال گزشتہ کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی، جیسا کہ عنقریب وضاحت کے ساتھ بیان ہوگا۔ ان شاء اﷲ عزوجل۔ ان لوگوں کی یہ قربانی نفل ہوئی اور ان پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کردیں، بلکہ ان کا ساتھی کہ جس کی قربانی صحیح ہوئی، وہ بھی گوشت صدقہ کردے (رداالمحتار)

٭ شرکاء میں سے کچھ قربانی اور کچھ عقیقہ کرنے کی نیت کریں، یہ درست ہے (رداالمحتار)

٭ قربانی کے لئے گائے خریدی (اس نیت کے ساتھ کہ بغیر شرکاء کے کرے گا) پھر اس میں چھ اشخاص کو شریک کرلیا، سب کی قربانیاں ہوجائیں گی، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر خریدتے وقت ہی اس کا یہ ارادہ تھا کہ اس میں دوسروں کو شریک کروں گا، تو اب یہ مکروہ نہیں اور اگر خریدنے سے پہلے ہی شرکت کرلی جائے، تو یہ سب سے بہتر ہے (عالمگیری)

٭ غیر مالک نصاب (یعنی شرعی فقیر) نے قربانی کے لئے گائے خریدی تو چونکہ خریدتے ہی اس پر اس گائے کی قربانی واجب ہوجائے گی لہذا اب یہ دوسروں کو شریک نہیں کرسکتا (عالمگیری)

٭ شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم نہ کیا جائے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو زائد اور کسی کو کم ملے اور یہ ناجائز ہے۔ یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک دوسرے کے لئے جائز کر دے گا یعنی یوں کہہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا ہے تو معاف کیا کہ یہاں اس طرح جائز نہ ہونا، شریعت کے حق کی بناء پر ہے اور ان لوگوں کو ان کے معاف کرنے کا حق و اختیار حاصل نہیں (در مختار)

قربانی کے جانور کی خصوصیات

سوال: قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے؟

جواب: مستحب ہے کہ قربانی کا جانور خوب فربہ، خوبصورت اور بڑا ہو (عالمگیری)

٭ حضرت بقیہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا، اﷲ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ قربانی وہ ہے، جو زیادہ مہنگی اور زیادہ فربہ ہو (سنن کبریٰ)

٭ یحیی بن سعید رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو امامہ بن سہل رضی اﷲ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مدینہ منورہ میں ہم قربانی کے جانوروں کو خوب موٹا کرتے اور سب مسلمانوں کا یہی معمول تھا (بخاری، باب فی اضحیۃ النبیﷺ)

جانور کے عیب

سوال: وہ کون کون سے عیوب ہیں کہ جن کے باعث قربانی جائز نہیں رہتی؟

جواب: عیب سے متعلق اجمالاً یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئے، تھوڑا عیب ہو تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ ہو تو ہوگی ہی نہیں (عالمگیری)

عیوب کی تفصیل

جب آپ جانور خریدنے جائیں تو اسے ہر طرف سے اچھی طرح دیکھ لیں، کیونکہ عیب دار جانور ذبح کرنے کی صورت میں واجب ادا نہ ہوگا اور دوسرا جانور خریدنا پڑے گا۔ چنانچہ درج ذیل تفصیل کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے تاکہ آپ خود بھی غلطی اور دھوکے سے بچ سکیں اور دوسروں کو بھی بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ چنانچہ

ان جانوروں کی قربانی نہ ہوگی

1۔ جس کی ناک کٹی ہو۔

اندھے اور کانے کی۔

3۔ جس کے پیدائشی دونوں یا ایک کان نہ ہوں (چھوٹے کانوں والے کی جائز ہے)

4۔ جس کا کان تہائی یعنی تیسرے حصے سے زیادہ کٹا ہو۔ (تہائی سے کم ہو تو قربانی ہوجائے گی)

5۔ جس کے دونوں یا ایک سینگ، اگنے کے مقام سے ٹوٹا ہوا ہو (لہذا اگر اوپر سے ٹوٹا ہو تو ہوجائے گی، یونہی اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو بھی ہوجائے گی)

6۔ جس کی دم یا چکی تہائی سے زیادہ کٹی ہو (تہائی سے کم ہو تو قربانی ہوجائے گی)

7۔ اتنا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں مغز (یعنی گودا) نہ ہو۔

لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پائوں سے نہ جاسکے۔

9۔ جس کے دانت نہ ہوں۔

10۔ اگر بکری کی زبان کٹی ہوئی ہو اور وہ چارہ کھا سکتی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں (تاتار خانیہ)

11۔ جس بکری کا ایک تھن یا گائے کے دو تھن کٹے ہوئے یا خشک ہوں۔

12۔ جس جانور میں اس حد تک جنون ہو کہ چرتا بھی نہ ہو (درمختار، عالمگیری)

بعد میں عیب پیدا ہونا

سوال: جس وقت جانور خریدا، بالکل درست تھا لیکن بعد میں عیب دار ہوگیا تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر قربانی کرنے والا صاحب نصاب ہے، تو دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر ہے، تو دیکھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے آپ پر قربانی واجب کی تھی یا نہیں۔ اگر کی تھی تو دوسرا لائے ورنہ اسی کو ذبح کرلے (رداالمحتار)

نوٹ: خود واجب کرنے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا یا منت مانی کہ بکرا قربان کروں گا۔

سوال: اگر بوقت ذبح عیب پیدا ہوا تو اب غنی اور فقیر کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں دونوں کے لئے یہ عیب مضر نہیں، اسی جانور کی قربانی کریں، ادا ہوجائے گی۔

در مختار میں ہے: قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا، جس کی وجہ سے عیب پیدا ہوگیا، یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہوجائے گی۔

سوال: اگر جانور قربانی سے پہلے مرگیا تو؟

جواب: غنی نیا لائے، فقیر نہیں۔ در مختار میں ہے کہ قربانی کا جانور مرگیا تو غنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں۔

سوال: اگر جانور گم ہوگیا یا چوری ہوگیا تو کیا کیا جائے؟

جواب: اس کا بھی وہی حکم ہے کہ غنی نیا جانور لائے، جبکہ فقیر پر دوسرا جانور واجب نہیں اور (بالفرض) اگر ان دونوں نے نیا جانور خرید لیا اور اب پہلے والا مل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں سے جس ایک کو چاہے قربان کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے (در مختار)

جانور کے بچے کا حکم

سوال: اگر جانور کے ذبح سے قبل بچہ ہوجائے تو کیا کریں؟

جواب: اس کے لئے درج ذیل مسائل یاد رکھئے۔

1۔ قربانی کے لئے جانور خریدا تھا، قربانی کرنے سے پہلے اس کے بچہ پیدا ہوا، تو بچہ کو بھی ذبح کر ڈالیں۔

2۔ اگر بچہ کو بیچ ڈالا تو اس کی قیمت صدقہ کردے۔

3۔ اگر ذبح نہ کیا نہ ہی فروخت کیا اور قربانی کے دن گزر گئے تو اس کو زندہ صدقہ کردے۔

4۔ اگر مذکورہ بالا افعال میں سے کچھ بھی نہ کیا اور بچہ اسی کے پاس رہا، یہاں تک کہ اگلے سال قربانی کا زمانہ آگیا اور یہ چاہتا ہے کہ اس سال کی قربانی میں اس کو ذبح کرے تو یہ نہیں کرسکتا اور اگر اسی کی قربانی کردی تو دوسری قربانی پھر کرے کہ وہ پہلی قربانی نہیں ہوئی اور وہ ذبح کیا ہوا بچہ صدقہ کردے، بلکہ ذبح سے اس کی قیمت میں جو کچھ کمی ہوئی، اسے صدقہ کردے۔

ذبح کا طریقہ و دیگر مسائل

سوال: قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے یاقصائی سے کروانا؟

جواب: فتاویٰ عالمگیری میں ہے، بہتر ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے۔ اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو حکم دے، وہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو۔

رحمت کونینﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے جانور ذبح فرمایا جیسا کہ:

حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے دو چتکبرے دنبوں کی قربانی کی۔ پس میں نے دیکھا کہ آپﷺ نے قدم مبارک ان کے پہلوئوں پر رکھا۔ بسم اﷲ اور تکبیر پڑھی پھر اپنے دست اقدس سے دونوں کو ذبح فرمایا (بخاری شریف، باب من ذبح الاضاحی بیدہ)

معلوم ہوا کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا سنت مبارکہ ہے۔

سوال: ذبح کرنے کا سنت کے مطابق طریقہ کیا ہے؟ اور بوقت ذبح کن چیزوں کا خیال رکھا جانا چاہئے؟

جواب: 1۔ مستحب ہے کہ جانور کو لٹانے سے پہلے چھری تیز کرلیں، لٹانے کے بعد تیز کرنا مکروہ ہے (در مختار)

2۔ قربانی سے پہلے جانورکو چارہ پانی دیں یعنی بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں (بہار شریعت)

3۔ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کریں۔

4۔ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو۔

5۔ ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے۔

اِنِّیْ وَجَّہْتْ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ حَنِیْفاً وَّ مَا اَنَا مِنْ اْلمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسْکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ اْلعَالَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہْ وَبِذَاْلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ اْلمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اﷲِ اﷲُ اَکْبَرْ (ایضا)

اسے پڑھ کر ذبح کردے اور اگر قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا بھی پڑھ لے۔

اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدِِﷺ (ایضا)

6۔ مستحب یہ ہے کہ ذبح کے وقت بسم اﷲ اﷲ اکبرکہے یعنی بسم اﷲ اور اﷲ اکبر کے درمیان واو نہ لائے۔ اگر بسم اﷲ واﷲ اکبر ’’وائو‘‘ کے ساتھ کہا تو جانور اس صورت میں بھی حلال ہی ہوگا مگر بعض علماء اس طرح کہنے کو مکروہ کہتے ہیں۔

7۔ دوسرے سے ذبح کرایا لیکن بوقت ذبح خود اپنا ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اﷲ اﷲ اکبرکہنا واجب ہے۔ ایک نے بھی قصداً چھوڑ دی یا یہ خیال کرکے چھوڑ دی کہ دوسرے نے کہہ لی، مجھے کہنے کی کیا ضرورت ہے تو دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا (در مختار)

ذبح سے حلال ہونے کی شرائط

سوال: کیا بذریعہ ذبح جانور کے حلال ہونے کے لئے بھی کچھ شرطیں ہیں؟

جواب: جی ہاں! اس کی پانچ شرائط ہیں۔

1۔ ذبح کرنے والا عاقل ہو۔ چنانچہ مجنون یا چھوٹے بے عقل بچے کا ذبیحہ جائز نہیں۔ ہاں اگر چھوٹا بچہ ذبح کو سمجھتا ہو اور اس پر قدرت بھی رکھتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔

2۔ ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی۔ مشرک و مرتد کا ذبیحہ حرام و مردار ہے (لیکن فی زمانہ کتابی سے ذبح میں بھی احتیاط کی جائے تو بہتر ہے، تفصیل کچھ دیر بعد آئے گی)

3۔ اﷲ کے نام کے ساتھ ذبح کرنا، ذبح کرتے وقت اﷲ کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے ،جانور حلال ہوجائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ لفظ اﷲ ہی زبان سے نکالے۔

4۔ ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام نہ لے۔

5۔ جس جانور کو ذبح کیا جائے، وہ وقت ذبح زندہ ہو، اگرچہ اس کی زندگی کا تھوڑا ہی حصہ باقی رہ گیا ہو۔ ذبح کے بعد خون نکلنا یا جانور میں حرکت پیدا ہونا اسی لئے ضروری ہے کہ اس سے اس جانور کا زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے (عالمگیری)

عید کا روزہ

سوال: قربانی کرنے والے اکثر حضرات بروز عید یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آج ہمارا روزہ ہے۔ ہم قربانی کے گوشت سے افطار کریں گے۔ شرعی اعتبار سے ان کا یہ کہنا کیسا ہے؟

جواب: عید کے دن کا روزہ حرام ہے۔ پہلی سے نویں تک کے روزے بہت افضل ہیں۔ اس پر قربانی ہو یا نہ ہو اور سب نفلی روزوں میں بہتر روزہ عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کے دن کا ہے۔ ہاں قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ عید کے دن قربانی سے پہلے کچھ نہ کھائے۔ قربانی ہی کے گوشت میں سے پہلے کھائے، مگر یہ روزہ نہیں، نہ اس میں روزہ کی نیت جائز کہ اس دن اور اس کے بعد تین دن روزہ حرام ہے

(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ، جلد 8)

گوشت کی تقسیم

سوال: قربانی کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟

جواب: فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:

1۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے، کھلا سکتا ہے، بلکہ اس میں سے کچھ کھالینا، قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے۔

2۔ بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے۔ ایک حصہ فقرائ، دوسرا دوست احباب اور تیسرا اپنے گھر والوں کے لئے رکھے۔

3۔ ایک تہائی (یعنی تیسرے حصے) سے کم صدقہ نہ کریں اور کل کو صدقہ کردینا بھی جائز ہے۔

4۔ اور کل اپنے گھر کے لئے ہی رکھ لے، یہ بھی جائز ہے۔

5۔ تین دن سے زائد اپنے گھر والوں کے کھانے کے لئے رکھ لینا بھی جائز ہے اور بعض حدیثوں میں جواس کی ممانعت آئی ہے، وہ منسوخ ہے۔

6۔ اگر اس شخص کے اہل و عیال بہت ہوں اور یہ صاحب وسعت نہیں تو بہتر ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں کے لئے ہی رکھ چھوڑے۔

بخاری شریف میں ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے جوشخص قربانی کرے، تو تیسرے روز کی صبح اس کے گھر میں قربانی کا گوشت نہیں ہونا چاہئے۔ (صحابہ کرام نے اس حکم پر عمل کیا) جب اگلا سال آیا تو لوگ عرض گزار ہوئے یا رسول اﷲﷺ کیا ہم اسی طرح کریں جیسے پچھلے سال کیا تھا؟ ارشاد فرمایا کھائو، کھلائو اور جمع بھی کرلو، کیونکہ وہ سال لوگوں پر تنگی کا تھاتو میرا ارادہ ہوا کہ اس میں تم ایک دوسرے کی مدد کرو۔

کھال و رسی وغیرہ کا حکم

سوال: قربانی کی کھال جھول رسی ہار وغیرہ کا کیا کیا جائے؟

جواب: در مختار میں ہے کہ قربانی کا چمڑا، اس کی جھولی، رسی اور گلے میں ڈالے جانے والے ہار کو صدقہ کردے۔

ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ نے مجھے قربانی کی ہر چیز تقسیم کرنے کا حکم دیا، خواہ گوشت ہو یا کھال یا جھول، سب غریبوں میں تقسیم کردیا جائے (گوشت کا حکم بعد میں منسوخ کردیا گیا تھا جیسا کہ ماقبل میں گزر گیا)

سوال: کیا قربانی کی کھال یا گوشت قصائی کو بطور اجرت دے سکتے ہیں؟

جواب: ممنوع ہے۔ ہدایہ میں ہے کہ قربانی کا چمڑا یا گوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب ، ذبح کرنے والے کو بطور اجرت نہیں دے سکتے کہ اس کو اجرت میں دینا بھی بیچنے کے معنی میں ہے (اور اپنے فائدے کے حصول کے لئے کھال وغیرہ بیچنا ممنوع ہے)

سنن کبری میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲﷺ نے یہ حکم دیا کہ میں آپ کے اونٹوں کی طرف جائوں اور ان کی کھالوں اور جھول کو تقسیم کردوں اورآپ نے مجھے حکم دیا کہ میںان کی کھال سے قصاب کی اجرت نہ دوں۔ پھر فرمایا کہ ہم قصاب کی اجرت اپنے پاس سے دیتے تھے۔

سوال: قربانی کی کھال اپنے رشتہ داروں یا کسی سید وغیرہ کو دے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: اگر اس کھال کو بطور تصدق دیا جائے تو نفلی صدقہ ہے اور اگر صدقہ کی نیت نہ ہو تو شرعاً ہدیہ ہے۔ چنانچہ سادات کرام کو دینا بالکل جائز ہے۔ یونہی اپنے ماں باپ اولاد کو بھی دے سکتے ہیں، شوہر زوجہ کو اور زوجہ شوہر کو دے سکتی ہے (ماخوذ از فتاویٰ رضویہ، جلد 8)

سوال: قربانی کی کھال کی قیمت کو بغیر حیلہ شرعی کے مسجد میں صرف کرنا اور اس پیسے سے امام وغیرہ کی تنخواہ دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: جی ہاں جائز اور باعث اجر و ثواب ہے۔ تبیین الحقائق میں ہے۔ جاز لانہ قربۃ کالتصدق (جائز ہے اس لئے کہ یہ صدقے کی مثل ایک قربت ہے)

قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کی تو؟

سوال: اگر قربانی کا جانور موجود ہے، لیکن قربانی نہ کی اور ایام نحر گزر گئے تو اب کیا حکم ہے؟

جواب: در مختار و فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:

1۔ غنی نے قربانی کے لئے جانور خریدا (اور قربان نہ کیا حتی کہ ایام نحر گزر گئے) تو وہی جانور صدقہ کرے اور اگر ذبح کردیا اور اس جانور کی قیمت زندہ جانور سے کچھ کم ہوگئی تو جتنی کمی ہوئی، اسے بھی صدقہ کرے۔

2۔ فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا اور قربانی کے دن نکل گئے تو چونکہ اس پر اسی معین جانور کی قربانی واجب ہے، لہذا اس کے لئے بھی تمام احکام وہی ہوں گے جو ماقبل میں غنی کے لئے گزر گئے۔

3۔ اگر فقیر کے پاس پہلے ہی سے کوئی جانور تھا اور اس نے اس کی قربانی کی نیت کرلی یا خریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی تو اس پر قربانی واجب نہیں (اور جب واجب نہیں تو بعد ایام نحر اس جانور کو جس طرح چاہے اپنے استعمال میں لائے)

4۔ قربانی کے دن گزر گئے اور قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا۔ یہاں تک کہ دوسری بقر عید آگئی، اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضاء اس سال کرے، یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے (عالمگیری)

5۔ جس جانور کی قربانی واجب تھی، ایام نحر گزرنے کے بعد اسے بیچ ڈالا تو قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے (ایضاً)

تکبیر تشریق کے مسائل

سوال: تکبیر تشریق کیا ہے؟ یہ کیوں لگائی جاتی ہے اور اس کا وقت کب سے کب تک ہوتا ہے؟

جواب: نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک، ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔

(نوٹ: جماعت مستحبہ سے مراد وہ جماعت ہے، جو مسجد میں وقت مقررہ پر مقرر کردہ امام کرواتا ہے)

ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب اور تین بار افضل ہے۔ اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں۔ وہ یہ ہے اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد (تنویر الابصار)

اس کی اصل کے بارے میں منقول ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹایا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جنت سے ایک مینڈھا بطور فدیہ لے کر تشریف لائے۔ جب آپ نے یہ منظر ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چھری چلاناہی چاہتے ہیں تو ان کو روکنے کی خاطر دور سے باآواز بلند فرمایا اﷲ اکبر اﷲ اکبر… جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نداء سنی، تو اپنا سر آسمان کی جانب اٹھایا اور جان گئے کہ من جانب اﷲ آزمائش کا وقت گزر چکا ہے اور بیٹے کی جگہ فدیہ بھیجاگیا ہے، لہذا خوش ہوکر فرمایا لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر … جب زمین پر لیٹے ہوئے فرزند نے یہ سنا تو فرمایا ﷲ الحمد… پس اس کے بعد سے ان نفوس قدسیہ کی ان مبارک الفاظ کی ادائیگی کی یہ سنت قیامت تک جاری و ساری ہوگئی (البنایہ شرح ہدایہ بحوالہ المبسوط)

سوال: یہ تکبیرات نماز کے بعد کب کہنی چاہئیں؟

جواب: یہ تکبیرات سلام پھیرنے کے فورا بعد واجب ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی مسجد سے باہر نکل گیا یا اس نے جان بوجھ کر وضو توڑ دیا یا کلام کیا، اگرچہ بھول کر ہو، تو تکبیر ساقط ہوگئی (یعنی اب شریعت کی جانب سے اس کا مطالبہ نہ رہا) اور اگر بلا قصد و ارادے کے وضو ٹوٹا تو کہہ لینی چاہئیں (در مختار)

سوال: کیا ان دنوں میں بغیر جماعت سے نماز پڑھنے والے پر بھی یہ تکبیرات واجب ہیں؟

جواب: اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ منفرد پر واجب نہیں (جوہرہ نیرہ)

لیکن چونکہ صاحبین کے نزدیک واجب ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ منفرد بھی کہہ لے۔

سوال: اگر امام تکبیر لگانا بھول گیا تو اب مقتدی پر تکبیر واجب رہی یا نہیں؟

جواب: جی ہاں مقتدی پر تکبیر لگانا اب بھی واجب ہے (در مختار)

سوال: کیا عورت، مسافر اور گائوں والے پر بھی یہ تکبیرات واجب ہیں؟

جواب: ان تمام پر تکبیر کہنا واجب نہیں۔ ہاں مسافر، اگر کسی مقیم امام کی اقتداء میں نماز ادا کرے تو اب اس پر بھی واجب ہوجائے گی (ایضاً)

سوال: اگر کسی مقیم نے مسافر کی اقتداء میں نماز ادا کی تو کیا اس پر تکبیر لگانی واجب ہوگی؟ جبکہ پچھلے مسئلہ کے مطابق مسافر پر یہ تکبیرات واجب نہ تھیں؟

جواب: اس صورت میں مقیم تکبیرات لگائے گا۔ در مختار میں ہے کہ ’’کسی مقیم نے مسافر کی اقتداء کی تو مقیم پر تکبیرات واجب ہیں، اگرچہ امام پر واجب نہیں‘‘

سوال: اگر کسی نفل پڑھنے والے نے فرض پڑھنے والے کی اقتداء کی تو کیا اس شخص پر تکبیر واجب ہوگی؟

جواب: جی ہاں، اس صورت میں اس پر بھی واجب ہوجائے گی، چاہے اس نے امام کے ساتھ فرض نہ پڑھے ہوں (رد المحتار)

سوال: کیا نفل و وتر سنت و جمعہ و عید کے بعد بھی تکبیر لگائی جائے گی؟

جواب: نفل ووتر و سنت وعید کے بعد واجب نہیں، جبکہ جمعہ کے بعد واجب ہے۔ ہاں عید کے بعد بھی لگالیں تو کوئی حرج نہیں (در مختار)

سوال: جو شخص نماز باجماعت میں دیر سے شامل ہوا، کیا امام کے سلام اور اپنی نماز تمام کرنے کے بعد تکبیر لگائے گا؟

جواب: جی ہاں ایسا شخص امام کے سلام پھیرنے اور اپنی نماز پوری کرنے کے بعد یہ تکبیرات لگائے اور اگر اس نے امام کے سلام پھیرنے کے فورا تکبیر لگادی تو اس نماز پر کوئی فرق نہ پڑے گا اور اب اپنی نماز مکمل کرنے کے بعد بھی ان تکبیرات کے اعادہ کی حاجت نہیں۔

سوال: اگر کسی شخص کی کوئی نماز ایام تشریق سے پہلے قضا ہوئی تھی یا پچھلے سال کی ایام تشریق کی قضا نماز تھی اور اب وہ ان دنوں میں اس قضا کو ادا کرنا چاہتا ہے تو کیا اس پر تکبیر واجب ہوگی؟

جواب: جی ہاں (رد المحتار)

سوال: اگر ان دنوں کی قضا عام دنوں میں ادا کرے، تو کیا اب تکبیر لگائے گا؟

جواب: اس صورت میں بھی واجب نہیں (ایضاً)

سوال: اگر ان دنوں میں کوئی نماز قضا ہوئی اور ان ہی دنوں میں اس کی قضا ادا کرنے کا ارادہ کیا تو کیا اب تکبیر واجب ہوگی؟

جواب: جی ہاں، اب واجب ہے (ایضاً)

عید کے مستحبات

1۔ حجامت بنوانا،  2۔ ناخن ترشوانا، 3۔ غسل کرنا، 4۔ مسواک کرنا،  5۔ اچھے کپڑے پہننا (نئے یا پرانے دھلے ہوئے) 6۔ انگوٹھی پہننا، 7۔ خوشبو لگانا، 8۔ نماز سے قبل کچھ نہ کھانا، اگرچہ قربانی کرے نہ کرے، 9۔ نماز فجر محلہ کی مسجد میں پڑھنا، 10۔ عیدگاہ جلد چلے جانا، 11۔ راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہنا، 12۔ عیدگاہ کو پیدل جانا، 13۔ دوسرے راستے سے واپس آنا، 14۔ خوشی ظاہر کرنا، 15۔ صدقہ دینا، 16۔ آپس میں مبارکباد دینا، 17۔ نماز عید سے پہلے نفل نماز مطلقاً مکروہ ہے، چاہے گھر میں پڑھیں یا عیدگاہ میں۔